ہار جیت اورالزامات اور جوابی الزامات سے قطع نظر ڈسکہ اور وزیر آباد کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نے حکمران تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دیا ہے، کم و بیش ساڑھے تین سال سے میاں نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھیوں کو لوٹ مار، اقربا پروری اور قومی اداروں کی توڑ پھوڑ جیسے سنگین الزامات کا سامنا ہے، میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی عدلیہ سے سزا یافتہ ہیں اور علاج کے بہانے بڑے میاں صاحب خود ساختہ جلاوطنی پر مجبور، جبکہ برادر خورد جیل میں ہلکان ہو رہے ہیں ع
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
1977ء کے بعد پہلی بار کسی غیر مسلم لیگی کو پنجاب کا اقتدار ملا، عمران خان، میاں نواز شریف کی طرح خوش نصیب حکمران ہیں جو مرکز اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں مرضی کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم بنیں مگر پنجاب ان کی دسترس سے دور رہا، ایک بار پیپلز پارٹی اپنی اتحادی جونیجو لیگ کے ساتھ مل کر پنجاب کی حکمرانی حاصل کرنے میں کامیاب رہی مگر میاں منظور احمد خان وٹو اور عارف نکئی کی وزارت اعلیٰ محترمہ کے لئے ؎
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
میاں نواز شریف البتہ جب بھی وزیر اعظم بنے پنجاب میں ان کی مرضی کی حکومت قائم ہوئی۔ 1990ء میں غلام حیدر وائیں وزیر اعلیٰ تھے۔ 1997ء اور 2013ء میں میاں شہباز شریف۔ 1990ء میں بھی وزیر اعلیٰ کا لیبل مرحوم غلام حیدر وائیں پر لگا تھا مگر احکامات سادہ پرچی پرکچی پنسل سے میاں شہباز شریف جاری کرتے اور بیورو کریسی ان پر عملدرآمد کی پابند تھی۔
2018ء کے انتخابات کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے لگی تو عام خیال یہی تھا کہ میاں شہباز شریف کی مستعدی، فعالیت اور بیورو کریسی پر مضبوط گرفت کا مقابلہ کرنے کے لئے عمران خان اپنے کسی ایسے دیرینہ، وفادار، تنظیمی صلاحیت سے مال اور متحرک کارکن و عہدیدار کو وزارت اعلیٰ کا منصب سونپیں گے جو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر صوبے کی پولیس و بیورو کریسی میں شریف خاندان کے اثرورسوخ کو ختم کرے گا اور عوام کے علاوہ اپنے نظریاتی کارکنوں کو تبدیلی کا احساس دلائے گا مگر ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
حلقہ این اے 75کے انتخابی نتائج حکمران جماعت کے لیڈروں کی طرف سے دھونس دھاندلی کی شکایت اور پولنگ کے روز بدامنی نے یہ ثابت کیا کہ اڑھائی سال گزرنے کے باوجود تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی سول انتظامیہ پر کوئی گرفت ہے نہ اپنے کارکنوں حتیٰ کہ پولنگ ایجنٹس کو تحفظ فراہم کرنے کی اہلیت اور نہ فریق مخالف سے قانون کی پابندی کرانے کی صلاحیت۔ مسلم لیگ ن تو روز اوّل سے اس الزام کا سامنا کر رہی ہے کہ وہ عام انتخابات دھاندلی سے جیتتی ہے اور بیورو کریسی میں اس کے وفادار افسران و اہلکار بھر پور تعاون کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے توڑ کیوں نہیں کیا اور الیکشن کمشن کو ایسا عملہ فراہم کرنے میں کیوں ناکام رہی جو مسلم لیگ (ن) کے بجائے ریاست کا وفادار اور شفاف انتخاب کرانے کا اہل ہو، کمال کی بات یہ ہے کہ مریم نواز شریف، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ اور دیگر مسلم لیگی لیڈر گزشتہ چوبیس گھنٹے سے پریس کانفرنسوں اور بیانات کے ذریعے حکمران جماعت اور عمران خان کی بھد اڑا رہے ہیں مگر فردوس عاشق اعوان اور شہباز گل کے علاوہ کوئی مرکزی و صوبائی لیڈر الزامات کا جواب دینے اور اصل حقائق بتانے کو تیار نہیں۔
الیکشن کمشن آف پاکستان نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے پریذائیڈنگ افسروں کی مع پولنگ بیگز گمشدگی اور نتائج تاخیر سے پہنچنے کی اطلاع دی ہے الزام صوبائی پولیس، انتظامیہ پر عائد کیا ہے کہ وہ پریذائیڈنگ افسروں کی بروقت واپسی کو یقینی نہ بنا سکی جس سے شکوک و شبہات پیدا ہونا فطری امر ہے تاہم الیکشن کمشن نے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا فول پروف انتظامات کئے تھے؟ اس کا کوئی ذکر پریس ریلیز میں موجود نہیں، ماضی میں ایک اَدھ پولنگ سٹیشنز پر تو اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے مگر اکٹھے تئیس پولنگ سٹیشنز کے پریذائیڈنگ افیسرز اور پولنگ بیگز کی گمشدگی معمّہ ہے، این اے 75کے ضمنی انتخاب کے موقع پر ہونے والی گڑ بڑ نے ایک بار پھر یہ احساس دلایا ہے کہ امن و امان کا قیام ہی نہیں، طاقتور اُمیدواروں اور ان کے سرپرستوں کی غنڈہ گردی سے ووٹروں، پولنگ عملے اور پولنگ بیگز کو بچانا مقامی پولیس و انتظامیہ کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام فوج ہی کر سکتی ہے ہمارے سیاستدان جس کی پولنگ سٹیشنوں پر موجودگی پسند نہیں کرتے اور الیکشن کمشن آف پاکستان نے سیاسی دبائو پر اس غیر متنازعہ قومی ادارے کی خدمات حاصل کرنے سے انکار کیا، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ الیکشن کمشن نے پریس ریلیز جاری کر کے ضمنی الیکشن کو متنازع ہی نہیں بنایا بلکہ اپوزیشن کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بھی فراہم کیاہے جو وہ فی الحال حکومت اور کسی مناسب موقع پر الیکشن کمشن کے خلاف استعمال کرے گی۔ مریم نواز شریف نے این اے 75میں دوبارہ الیکشن کرانے کا مطالبہ اسی پس منظر میں کیا ہے۔ عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہے۔
معاملہ صرف پنجاب کے ایک حلقے تک محدود رہتا تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا مگر تحریک انصاف وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کے حلقے میں بھی ضمنی انتخاب ہار گئی جس کا ذمہ دار پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک کو قرار دے کر صوبائی کابینہ سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ تحریک انصاف کی اندرونی دھڑے بندی اور مرکزی و صوبائی قیادت کی پارٹی کے معاملات سے لاتعلقی کا نتیجہ ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ہی لیاقت خٹک اور ان کے صاحبزادے کی مخالفانہ بلکہ باغیانہ روش کا قیادت کو ادراک کیوں نہ ہوا، انہیں راضی کرنے کی سنجیدہ کوشش ہوئی نہ مخالفت سے باز رکھنے کی تدبیر، انضباطی کارروائی بھی ایک نشست کی قربانی دینے کے بعد کی گئی، اب پچھتائے کیاہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ 2013ء کے انتخابات بھی اسی انداز میں ہارے گئے تھے اور اندیشہ یہی ہے کہ اگلے سینٹ وبلدیاتی انتخابات میں بھی کپتان کے اہم کھلاڑی یہی گل کھلائیں گے۔ تبھی سینٹ کے انتخابات میں پنجاب سے ارکان اسمبلی کی وفاداریاں برقرار رکھنے اور حفیظ شیخ جیسے امیدواروں کی کامیابی کے لئے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو باردگر جہانگیر ترین کی خدمات یاد آئی ہیں جبکہ چودھری برادران سے بہتر رابطوں کی ضرورت بھی محسوس ہوئی، کاش پنجاب اور خیبر پختون خواکے کارکنوں اور حکومت کے خیر خواہوں کی بات پہلے سن لی جاتی تو ڈسکہ، وزیر آباد اور نوشہرہ میں جگ ہنسائی ہوتی نہ سینٹ کے انتخابات جیتنے کے لئے جہانگیر ترین اور عاطف خان کی ناز برداری کرنی پڑتی۔ کیا یہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وسیم اکرم پلس کے "حسن کارکردگی" کا نتیجہ نہیں؟ عمران خان کو کب احساس ہو گا؟ چراکارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی۔
سابقہ حکمرانوں نے پنجاب میں تحریک انصاف اور اس کی حکومت کے لئے جو بارودی سرنگیں نصب کی تھیں ضمنی انتخابات میں ان میں سے چند ایک کو پھوڑ کر مخالفین نے حکومت، الیکشن کمشن اور ضمنی انتخاب کو تماشہ بنایا۔ صورت حال جوں کی توں رہی تو بلدیاتی اور پھر 2023ء کے عام انتخابات میں یہ پوری قوت سے پھٹیں گی اور حکومت کولگ سمجھ جائے گی، ضمنی انتخابات کو خطرے کی گھنٹی سمجھنا ہی دانش مندی ہے، محض وعظ و نصیحت سے نہیں، ٹھوس عمل اقدامات سے شفاف انتخابات اور بے عیب کامیابی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، کوئی سوچے تو؟ فی الحال تو ڈسکہ اور نوشہرہ نے کرم ایجنسی کی کامیابی کا مزا بھی کرکرا کر دیا ہے۔