Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Asbab e Zawal e Saltanat

Asbab e Zawal e Saltanat

ان دنوں ڈاکٹر محمد عزیر کی کتاب "تاریخ سلطنت عثمانیہ" زیر مطالعہ ہے، ارطغرل کے صاحبزادے عثمان کے علاوہ سلطان محمد فاتح اور سلیمان اعظم نے سلطنت عثمانیہ کو عروج بخشا، تاہم مورخین کے نزدیک سلطنت عثمانیہ کے زوال میں بھی سلیمان اعظم کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔"تاریخ سلطنت عثمانیہ" کا ایک باب نذر قارئین ہے جو آج بھی کسی ریاست اور اس کے حکمرانوں کے لیے چشم کشا ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر محمد عزیر لکھتے ہیں :۔

خون کے جن چھینٹوں سے سلیمان کا دامن داغ دار نظر آتا ہے، ان میں سے ایک اس کے وزیر ابراہیم کا خون بھی ہے، ابراہیم نسلاً یونانی تھا، لڑکپن میں گرفتار ہو کر وہ فروخت ہو گیا تھا، مغنیسیا کی ایک مسلمان دولت مند بیوہ نے اسے خریدا اور اس کی ذہانت کا اندازہ کر کے اعلیٰ تعلیم دلوائی، ایک بار سلیمان اس صوبہ میں گیا اور وہاں اس کی نظر ابراہیم پر پڑی، ابراہیم فن موسیقی کا ماہر تھا، اس کے اس کمال کا اثر سلیمان پر خاص طور سے پڑا اور وہ اسے اپنے ساتھ قسطنطنیہ لیتا آیا، وہاں پہنچ کر وہ اپنی قابلیت اور ذہانت کی وجہ سے روز بہ روز سلیمان کی نظر میں زیادہ محبوب ہوتا گیا، یہاں تک سلیمان نے اپنی بہن کا عقداس سے کر دیا اور 1523ء میں اسے سلطنت عثمانیہ کا وزیر اعظم مقرر کیا۔ سلیمان ابراہیم پر حد درجہ اعتماد رکھتا، تیرہ سال تک سلیمان کے اعتماد کی یہی کیفیت رہی لیکن پھر اس کے دل میں ابراہیم کی طرف سے شکوک پیدا ہونے لگے جو ابراہیم کی بے احتیاطی سے بڑھتے گئے، چونکہ سلیمان نے اس کو سلطنت کے تمام اختیارات دے رکھے تھے، اس لیے ابراہیم اپنے آپ کو سلطان کا ہم پلہ خیال کرنے لگا اور یہی خیال اس کے لیے مہلک ثابت ہوا، اس کی خود اعتمادی یہاں تک بڑھ گئی کہ آخر میں اس نے اپنے نام کے ساتھ سلطان کا لقب بھی شامل کر لیا، یہ دیکھ کر سلیمان کے وہ شکوک جو سلطانہ خرم(سلیمان کی اہلیہ) نے ابراہیم کے خلاف اس کے دل میں پیدا کر دیئے تھے، یقین کی حد تک پہنچ گئے، خرم وزیر اعظم کے عہدہ پر اپنے داماد رستم پاشا کو مقرر کرانا چاہتی تھی، خرم کی تدبیر کار گر ہو گئی اور1535ء میں ایک روز جب ابراہیم حسب دستور کھانا کھانے کے لیے محل شاہی میں داخل ہوا تو پھر اس میں سے زندہ نہیں نکلا۔

سلیمان نے اپنے طویل عہد حکومت میں سلطنت عثمانیہ کی عظمت کو حد کمال تک پہنچا دیا تھا، اس کے بعد ہی سلطنت کا زوال شروع ہو گیا، گو چند سالوں تک زوال کے آثار نمایاں نہ ہوئے، ایک ترک مؤرخ قوچی بے نے 1663ء میں سلطنت عثمانیہ کے زوال پر ایک کتاب لکھی تھی، جس میں اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ زوال کی بنیاد سلیمان کے عہد میں پڑ چکی تھی، وہ زوالِ سلطنت حسب ذیل اسباب کا نتیجہ قرار دیتا تھا:

1۔ پہلے دستور یہ تھا کہ دیوان کی ہر مجلس میں سلطان خود موجود رہتا تھا اور وزرائے سلطنت سے خود مشورے کرتا تھا، سلیمان نے اس دستور کو موقوف کر دیا، وہ بجائے دیوان میں بیٹھنے کے اس سے متصل ایک علیحدہ کمرے میں بیٹھنے لگا اور وہیں سے مجلس کی تمام کارروائیوں کو سنا کرتا تھا، اس کے جانشینوں نے دوسرے کمرے میں بیٹھنا بھی موقوف کر دیا، اس طرح سلاطین کی مطلق العنانی میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا اور وزراء کے مشوروں کا اثر کم ہونے لگا، جب تک سلیمان جیسا مدبر اور عالی دماغ سلطان تخت پر تھا، اس تبدیلی کی خرابی ظاہر نہ ہوئی لیکن اس کے بعد اس کے مضر اثرات نمایاں ہونے لگے، وزرائے سلطنت کے بجائے خواتینِ حرم یا دوسرے غیر ذمہ دار اور خود غرض اشخاص امور سلطنت میں مشورے دینے لگے، سلطان کے فیصلے اکثر ان ہی مشوروں سے متاثر ہوتے تھے۔

2۔ سلیمان نے ایک جدت یہ بھی کی کہ بعض ایسے اشخاص کو جنہوں نے بتدریج ضروری مدارج طے نہیں کیے تھے، محض اپنی مردم شناسی کی بنا پر اعلیٰ عہدوں پر مقرر کر دیا، اس کی سب سے پہلی اور سب سے نمایاں مثال ابراہیم کا واقعہ ہے، سلیمان ابراہیم کی لیاقت سے اس درجہ متاثر ہوا کہ اس نے چند سال کے اندر ہی اسے سلطنت عثمانیہ کی وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ پر مقرر کر دیا، ابراہیم کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ اسی طرح اونچی اونچی جگہوں پر مقرر کیے گئے، اس میں شبہ نہیں کہ سلیمان کو مردم شناسی کا خاص ملکہ حاصل تھا اور اس نے اپنے انتخاب میں شاید ہی کبھی غلطی کی لیکن اس کے جانشینوں نے جن کو یہ خداداد ملکہ حاصل نہ تھا، اس جدت پر عمل کر کے بیش تر ایسے اشخاص کا انتخاب کیا جو کسی طرح ان عہدوں کے اہل نہ تھے اور جن کا تقرر محض سلطان کے حسن ظن یا حرم کے اثر سے ہوا تھا۔

3۔ زوال سلطنت کا تیسرا سبب رشوت ستانی تھی، جس کی بنیاد رستم پاشا نے ڈالی، یہ شخص سلیمان کا داماد تھا اور پندرہ سال تک وزیر اعظم رہا، وہ شاہی خزانہ کے لیے روپیہ حاصل کرنا خوب جانتا تھا، سلطنت کے انتظامی عہدوں پر جو لوگ مقرر کیے جاتے رستم پاشا ان کے تقرر کے موقع پر ان سے بڑی بڑی رقمیں وصول کرتا، سلیمان کے عہد میں یہ رقمیں ہر عہدہ کی تنخواہ کی مناسبت سے ایک متعین مقدار میں مقرر تھیں لیکن یہ جدت صرف انتظامی عہدوں تک محدود تھی اور بحری اور فوجی ملازمتوں میں داخل نہیں کی گئی تھی، سلیمان کے بعد رقم کی متعین مقدار بھی اٹھا دی گئی اور انتظامی عہدوں کی قید بھی باقی نہ رہی، بڑی بڑی رقمیں وصول کی جانے لگیں اور فوجی اور بحری عہدوں پر وہی اشخاص مقرر کیے جانے لگے جو اپنے تقرر کے وقت کثیر رقمیں پیش کرتے، گویا تمام ملازمتیں نیلام ہونے لگیں، ان کثیر رقموں کی ادائیگی کے لیے صوبہ کے حاکم سے لے کر ادنیٰ عہدہ دار تک سب ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے۔

4۔ سلیمان کی عادت یہ تھی کہ جن وزرا سے خوش ہوتا ان پر بے انتہا انعام و اکرام کرتا اور خواہ وہ کسی قدر زر و مال جمع کر لیں ان سے تعرض نہ کرتا، چنانچہ ابراہیم جو تیرہ سال تک اور رستم پاشا جو پندرہ سال تک سلطنت کے وزیر اعظم رہے، ان دونوں نے بے انتہا دولت جمع کی، انہوں نے ایک ایسی شاہ خرچ اور شاہانہ زندگی کا نمونہ قائم کر دیا جس کی اتباع دوسرے وزراء اور اعلیٰ عہدہ دار بھی کرنے لگے، رستم پاشا نے اپنی وفات پر جو جائیداد چھوڑی اس کی مختصر فہرست حسب ذیل ہے، اناطولیہ اور رومیلیا میں 815مزروعہ زمینیں، 476پن چکیاں، 1700غلام، 2900زرہ بکتر، 8000امامے، 760تیغے، 600جلدیں قرآن پاک کی، 5000دوسری کتابیں اور بیس لاکھ دوکات۔

ان اسباب کے علاوہ زوال سلطنت کا ایک اور قوی سبب بھی سلیمان کے عہد میں پیدا ہو چلا تھا یعنی امورِ سلطنت میں خواتینِ حرم کی مداخلت، یہ مداخلت سلیمان کے جانشینوں کے زمانہ حکومت میں روز بہ روز بڑھتی گئی، سلیمان کے عہد میں ابراہیم کا زوال و قتل، شہزادہ مصطفی کا قتل اور شہزادہ بایزید کی بغاوت اور قتل، یہ سب حرم ہی کی سازشوں کا نتیجہ تھے۔