1973ء کے متفقہ آئین میں منتخب عوامی نمائندوں کے لئے دوہری شہریت رکھنے پر پابندی ہے۔ دوہری شہریت رکھنے والا شخص بنیادی طور پر دو ریاستوں کا وفادار ہوتا ہے۔ امریکہ اور بھارت سمیت دنیا کے بیشتر قابل ذکر ممالک میں جونہی کوئی شخص ان کی شہریت حاصل کرتا ہے اُسے پہلی شہریت ترک کرنی پڑتی ہے، وجہ بالکل واضح ہے کہ دوہری شہریت سے انسان کی وفاداری منقسم ہوتی ہے اور وہ مشکل گھڑی میں ایک ریاست سے جس کا وہ شہری ہے بے وفائی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ منتخب عوامی نمائندوں کے لئے دوہری شہریت کی ممانعت کے پیچھے یہ منطق کارفرما ہے کہ وزیر، وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم اور کوئی دوسرا ریاستی منصب حاصل کرنے کے بعد اس کی ریاست کے ساتھ وفاداری غیر مشروط، غیر منقسم اور ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہو، وہ ریاستی رازوں کا امین ہونے کی حیثیت سے کسی دوسرے ملک کو جس کی وفاداری کا وہ حلف اٹھا چکا ہے بتانے کا قانونی اور اخلاقی طور پر پابند نہ ہو اور بطور اعلیٰ سرکاری عہدیدارقومی مفاد میں فیصلہ کرتے وقت اس الجھن کا شکار نہ ہو کہ اس کی زد کسی ایسی ریاست کے مفادات پر نہ پڑے جس کا وہ شہری ہے، دوہری شہریت کے حامل رکن اسمبلی کو پارلیمنٹ اور وزیر، وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم کو کابینہ میں کسی مرحلہ پر دو ایسے ممالک میں سے کسی ایک کے قومی مفاد، سلامتی اور خارجہ پالیسی کا دفاع کرنا پڑ سکتا ہے جن کا وہ شہری ہے۔ پاکستانی آئین کے علاوہ امریکہ و بھارت سمیت بیشتر ممالک نے اپنے شہریوں کو منافقت، دوغلے پن اور بے وفائی سے بچانے کے لئے دوہری شہریت پر پابندی لگا رکھی ہے تاکہ کوئی ان کی وفاداری پر شک کرے نہ انہیں کسی مرحلے پر اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے بڑی آزمائش سے گزرنا پڑے۔
پاکستان میں یہ پابندی عائد کرنے والے آئین سازوں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ یہاں بیورو کریٹس، جج، سیاستدان اور ٹیکنو کریٹس حتیٰ کہ اعلیٰ مناصب پر فائز فیصلہ ساز بھی ملک کے مستقبل سے مایوس ہو کر تھوک کے بھائو دیگر ممالک کی شہریت حاصل کریں گے، نہ ان کے وہم و گمان میں ہو گا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اعلیٰ ترین سطح پر اہل اور با صلاحیت لوگوں کا اس قدر کال پڑے گا کہ دوسرے ممالک کے اقامہ ہولڈر ہمارے وزیر اعظم، وزیر خزانہ، وزیر دفاع بن جائیں گے اور امریکہ و برطانیہ کی شہریت رکھنے والے مشیر و معاونین خصوصی کی حیثیت سے وفاقی کابینہ میں بیٹھیں گے، قومی مستقبل کے فیصلے کریں گے، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، خواجہ آصف، اسحق ڈار اور دیگر کو اس ملک اور قوم نے کیا نہیں دیا، اعلیٰ ترین ریاستی مناصب ان کے قدموں میں نچھاور کئے مگر معمولی مالیاتی فائدے اور اپنے ناشکرے بچوں کی خواہشات کی تکمیل کے لئے انہوں نے غیر ملکی اقامے حاصل کئے اور دنیا نے یہ تماشہ دیکھا کہ ملک کا صدر، وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کسی دوسری ریاست میں معمولی ملازم ہے۔ عمران خان نے عرصہ دراز تک دوہری شہریت کے حامل ان سیاستدانوں کا تعاقب کیا اور مشہور زمانہ پانامہ مقدمہ جیت کر میاں نواز شریف کو وزیر اعظم کے منصب سے معزول کرا دیا، اقتدار میں آنے کے بعد مگر انہوں نے دوہری شہریت کے حامل بعض لوگوں کو اپنا نورتن بنا کر مخالفین کو طعنہ زنی کا موقع فراہم کیا۔
بجا کہ آئین میں مشیروں اور معاونین کے لئے دوہری شہریت کی ممانعت نہیں لیکن حکومت اور ریاست کا اخلاقیات سے بھی کوئی تعلق ہے؟ کابینہ کا رکن بننے والا منتخب نمائندہ تو اس بات کا پابند ہے کہ وہ دوہری شہریت کا حامل نہ ہو لیکن اس کے کندھے سے کندھا ملا کر کابینہ کے اجلاس میں بیٹھنے اورریاست کے دفاع، خارجہ پالیسی اور دیگر اہم معاملات پر فیصلے کرنے والے مشیر اور معاون خصوصی پر ایسی کوئی قدغن نہیں، یہی کھلا تضاد ہے اور اعلیٰ اخلاقی معیار کے قطعی برعکس اقدام۔ دوہری شہریت کے حامل کسی شخص کے سنگین جرم پر ریاست نہ تو تعرض کر سکتی ہے نہ کوئی عدالت اسے سزا دینے کی مجاز کہ دوسرا ملک اس کی پشت پناہ ہو گا۔ حسن نواز اور حسین نواز نے اسی بنا پر پاکستان آنے سے انکار کر دیا کہ وہ برطانیہ کے شہری ہیں اور پاکستان کے قانون کے تابع نہیں، کسی پاکستانی عدالت کی کیا مجال کہ وہ ان سے باز پرس کر سکے۔ حسین حقانی بھی اسی باعث امریکہ میں مزے اڑا رہے ہیں۔ یہ مضحکہ خیز دلیل دی جاتی ہے کہ بیرون ملک پاکستانی خاص طور پر جو دوہری شہریت کے حامل ہیں کثیرزرمبادلہ بھیجتے اور پاکستان سے وفاداری کا دم بھرتے ہیں مگر انہیں پاکستان میں رکن اسمبلی بننے کی اجازت نہیں اور جب وہ مشیر یا معاون خصوصی بن جائیں تو تنقید کی زد میں آتے ہیں۔ اول تو سارے اوورسیز پاکستانی اور دوہری شہریت کے حامل افراد الیکشن لڑنے کے خواہش مند ہیں نہ کسی حکومت نے انہیں وزیر، مشیر، معاون خصوصی بنانے کا سوچا ہے۔ وہ زرمبادلہ بھی اپنے عزیز و قارب کو بھیجتے ہیں جس کا بالواسطہ فائدہ پاکستان کو پہنچتا ہے دوسرے دنیا بھر میں اہم مناصب کے لئے بعض شرائط پوری کرنا ضروری ہے دوہری شہریت انہی میں سے ایک ہے۔ جو شخص پاکستان کی خاطر اپنی غیر ملکی شہریت کی قربانی نہیں دے سکتا اسے کوئی منصب سونپنا ملک و قوم کی توہین اور ایسے محب وطن پاکستانیوں کی دلآزاری ہے جنہوں نے اپنا سب کچھ وطن عزیز کو سمجھا، سونپا اور زندگی اس کی خدمت میں کھپا دی، دوہری شہریت کے حامل افراد نے پاکستان میں مناصب حاصل کئے، مراعات کے مزے اڑائے مگر جونہی انہیں منصب چھوڑنا پڑا ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر یہ اڑنچھو ہو گئے، ایوب خان کے وزیر خزانہ محمد شعیب، سابق وزیر اعظم معین قریشی، شوکت عزیز، اسد محمد خان اور کئی دیگر زندہ مثال ہیں جو موسم بدلتے ہی سائبیریا کے پرندوں کی طرح پاکستان چھوڑ گئے۔
عمران خان کے مشیروں اور معاونین خصوصی کے بارے میں بھی کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ انہیں اگر عہدے سے الگ کر دیا گیا تو کتنے دن پاکستان میں قیام کریں گے؟ امکان یہی ہے کہ دوسرے دن یہ اپنی اصل جنم بھومی کو سدھاریں گے اور لندن، واشنگٹن وغیرہ میں بیٹھ کر پاکستانیوں کی غربت، جہالت، پسماندگی، ناسمجھی اور ناعاقبت اندیشی کا مذاق اڑائیں گے۔ جن کے گھر بیرون ملک، اولاد دیار غیر اور کاروبار برطانیہ و امریکہ میں ہیں انہیں پاکستان سے اپنے منصب اور مراعات سے زیادہ کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ہوتی تو یہ ملکہ برطانیہ اور ریاست متحدہ امریکہ کی وفاداری کا حلف کیوں اٹھاتے اور اپنے آبائو اجداد کی قبروں کو لاوارث کیوں چھوڑتے۔ جو ریاست ان کے کاروبار، گھر بار کے لئے موزوں، بیوی بچوں کے رہنے کے قابل نہیں وہ صرف مشیر و معاون خصوصی بن کر مراعات بٹورنے کے لائق ہے تو قصور ان کا نہیں، ہمارا ہے، سیاست میں اعلیٰ اخلاقی معیار کی تلقین کرنے والے عمران خان کا ہے جسے بائیس کروڑ آبادی اور بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کرنے والی تحریک انصاف میں سے ڈھنگ کے دوچار مشیر اور معاونین خصوصی نہیں ملے۔ ؎
اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غساّل کابل سے، کفن جاپان سے