Band Gali Ke Musafir
Irshad Ahmad Arif108
سپیکر کے انتخاب میں کوئی اپ سیٹ نہیں ہوا۔ وفاداریاں خریدنے کی اطلاعات ویسے ہی بے سروپا ثابت ہوئیں جیسے سینٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا چیئرمین منتخب کرانے کی لن ترانیاں۔ سید خورشید شاہ کے ووٹ بڑھے نہ اسد قیصر کے انتخاب میں رکاوٹ پڑی۔ تحریک انصاف توقع کے مطابق ووٹ لے کر سرخرو ہوئی البتہ مسلم لیگ(ن) پہلے امتحان میں ناکام رہی۔ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی شکست کا اہم ترین سبب کوئی مانے یا نہ مانے، میاں نواز شریف اور مریم نواز کا تصادم اور محاذ آرائی پر مبنی جارحانہ طرز عمل تھا جس نے ووٹر، سپورٹر، کارکن اور انتخابی امیدوار ہر ایک کو متاثر کیا۔ پاکستان میں عوام، انتخابات کو اپنے چھوٹے موٹے مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور کارکن و امیدوار اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کا وسیلہ۔ امیدوار اپوزیشن کی صفوں میں بیٹھ کر "ووٹ کو عزت دو"کو نعرہ لگانے کے لیے امیدوار کروڑوں کی سرمایہ کاری کرتے ہیں نہ ووٹر، اللہ اور رسول ﷺ کی خوشنودی اور اخروی نجات کے لیے پولنگ سٹیشنوں پر جاتے اور ووٹ کی پرچی پر مہر لگاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ووٹ دینے والوں کی تعداد معلوم کرنے کے لیے ہمیں جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کے ووٹروں کی گنتی کرنی پڑے گی۔ جب میاں نواز شریف اور ان کی ہونہار صاحبزادی نے اپنے کارکنوں اور ووٹروں کو یہ باور کرا دیا کہ طاقتور حلقوں کے سامنے ہم بے بس ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ہم دوبارہ اقتدار میں آئیں تو کس احمق کو پڑی تھی کہ وہ انہیں دوبارہ اقتدار میں لانے کی سعی ناکام کرتا۔ تین بار اقتدار میں لانے والوں کو بھی اندازہ ہو گیا کہ میاں صاحب خواہ ہیوی مینڈیٹ لے کر ایوان اقتدار میں داخل ہوں یا سادہ اکثریت سے، جلد یا بدیر بم کو لات مار کر انہوں نے باہر نکلنا اور "مجھے کیوں نکالا"کا ورد کرنا ہے تو وہ الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے یا تحریک انصاف کو جتوانے میں لگ گئے۔ اب میاں صاحب کی خواہش یہ ہے کہ میاں شہباز شریف اور ان کے "کچھ لو کچھ دو" کے بیانیے سے متفق ارکان اسمبلی بھی قائد محترم کے نقش قدم پر چل کر مزاحمتی حکمت عملی اپنائیں اور اس انجام سے دوچار ہوں جو ساکنان اڈیالہ جیل کا مقدر ہے۔ حلف برداری کے روز تو میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھی قابو نہ آئے مگر سپیکر کے انتخاب کے موقع پر برادر بزرگ کی خوشنودی کے لیے میاں شہباز شریف نے بھی ساتھیوں سمیت ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی کو شعار کیا، جس سے بڑے میاں صاحب اور ان کے عقاب صفت ساتھیوں کی خوئے تصادم کی تسکین ہوئی مگر اپوزیشن کا نوزائیدہ اتحاد عالم طفلی میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔ سپیکر کے انتخاب کے بعد ایاز صادق صاحب نے بھی پارلیمانی آداب کو بالائے طاق رکھ کر میاں نواز شریف کے متوالے کا کردار ادا کیا۔ اسد قیصر منتخب ہو گئے تو ایاز صادق کا فرض تھا کہ وہ فلور اُن کے حوالے کرتے اور اپنی نشست پر بیٹھ کر باقی کارروائی میں حصہ لیتے مگر مسلم لیگی کارکن کے طور پر انہوں نے سپیکر کی حلف برداری سے قبل ہی فلور مرتضیٰ عباسی کے حوالے کرکے احتجاج کا موقع فراہم کیا جو نرم سے نرم الفاظ میں اپنے منصب سے ناانصافی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے احتجاج سے نتائج تبدیل ہوئے نہ ایوان کی کارروائی پر اثر پڑا مگر اس نے متحدہ اپوزیشن کا تاثر زائل کیا اور فوج، عدلیہ اور دوسرے اداروں میں میاں شہباز شریف کے مفاہمتی انداز فکر کے حوالے سے پائی جانے والی ہمدردی ختم نہیں تو کم ضرور ہوئی۔ میاں نواز شریف اور ان کے عقاب صفت ساتھی یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ شہباز شریف لیڈر نہیں محض کٹھ پتلی ہے اور مسلم لیگ پارلیمنٹ کے اندر و باہر وہی کچھ کریگی جو مریم نواز چاہے گی لیکن ان جلد بازوں کو اندازہ نہیں کہ شہباز شریف اپنے بھائی اور لیڈر کی مشکلات میں کمی جارحانہ طرز عمل اور آنے والی حکومت سے سینگ پھنسا کر نہیں مفاہمانہ اور ذمہ دارانہ کردار سے لاسکتے ہیں۔ میاں شہباز شریف بھی اگر نیب کی گرفت میں آ گئے تو شریف خاندان کا پرسان حال کون ہو گا؟ کسی کو احساس ہے نہ اندازہ۔ ماضی میں میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں نواز شریف کی پہاڑ جیسی غلطیوں کا ازالہ پتلی گلی سے نکل کر کیا کرتے تھے مگر محبان نواز اب انہیں بھی بند گلی میں دھکیل کر ہر راستہ مسدود کر دینا چاہتے ہیں، ان کی مرضی۔ وزیر اعظم کے انتخاب کا مرحلہ باقی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اس موقع پر بھی اگر پیپلز پارٹی کی بات نہ مانی اور ضد پر اڑی رہی تو عمران خان کو پڑنے والے ووٹوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ سید خورشید شاہ اگر ذاتی تعلقات، مرنجاں مرنج طبیعت اور آصف علی زرداری کی سیاست میں پی ایچ ڈی کا فائدہ نہیں اٹھا سکے، ان کے ووٹوں میں اضافہ نہیں ہوا تو مسلم لیگ پیپلز پارٹی سے بگاڑ کر کیا حاصل کرے گی؟ ۔ منتشر اپوزیشن کا نئی حکومت کو سب سے زیادہ فائدہ یہ ہو گا کہ وہ احتساب کے عمل کو مزید تیز کرنے میں آزاد ہو گی اور نیب کی طرف سے معمول کے مطابق کارروائی کی صورت میں پیپلز پارٹی اپنے آپ کو مسلم لیگی لیڈروں کے دفاع کا مکلف نہیں سمجھے گی۔ جن احباب کا خیال ہے کہ عددی اعتبار سے بڑی اپوزیشن نئی حکومت کے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر سکتی ہے انہیں سید خورشید شاہ کے اولین خطاب پر توجہ دینی چاہیے۔ آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور کاروباری شراکت دار انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی کی گرفتاری کے باوجود پیپلز پارٹی ایوان میں برہم نظر آئی، نہ سید خورشید شاہ نے اس واقعہ کا ذکر کیا، جس کا مطلب ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت احتساب کے عمل کو نئی حکومت کے قیام سے جوڑ کر اپنے لیے مشکلات پیدا کرنے کے موڈ میں ہے نہ وہ تحریک انصاف یا اسٹیبلشمنٹ کو دبائو میں لانے کے لیے مسلم لیگ ن کی آلہ کار بننے پر آمادہ۔ 2000ء میں شریف خاندان نے اے آر ڈی کو پرویز مشرف کے ساتھ سودے بازی اور اپنی رضا کارانہ جلاوطنی کے لیے استعمال کیا، اب مگر پیپلز پارٹی محتاط ہے اور وہ شریف خاندان کو اپنا کندھا پیش کرنے کے بجائے اس بات کی منتظر ہے کہ کب موقع ملے اور وہ مسلم لیگ ن کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سودے بازی کے لیے استعمال کرے۔ میاں شہباز شریف کی صورت میں طاقت کے مراکز کی طرف ایک کھڑکی کھلی تھی جسے برادر بزرگ کے نادان ساتھی یا دانا دشمن بند کرنے کے درپے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن مسلم لیگ کی قوت ہے جسے بدھ کے روز کمزوری میں بدل کر شریف برادران نے کیا کمایا؟ میاں نواز شریف تو سوچنے پر آمادہ نہیں مگر میاں شہباز شریف کو غور ضرور کرنا چاہیے۔ راولپنڈی سے لاہور جی ٹی روڈ مارچ، لندن سے لاہور کا سفر اور ہوائی اڈے کے گھیرائو کا منصوبہ اور فوج و عدلیہ کو ووٹ کے ذریعے شکست دینے کا لغو بیانیہ؟ ؎الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیادیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیامسلم لیگ (ن) کا سب سے موثر ہتھیار اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ، سیاست میں جوڑ توڑ، مخالف قوتوں کی توڑ پھوڑ تھا مگر اب صورت حال برعکس ہے قیام پاکستان کی دعویدار جماعت مولانا پر بھروسہ کر رہی ہے جو 14اگست کو یوم آزادی منانے پر تیار نہیں، منایا تو انہوں نے زندگی بھر نہیں، انکار اس بار کیا ہے۔ یوم آزادی پر زیادہ عوامی جوش و خروش شائد مولانا اور ان کے ہمنوا شہباز شریف کو چڑانے کے لیے تھا۔ مسلم لیگ کے سربراہ نے مولانا کے لغو بیان کی تائید کی اور بلاول بھٹو نے مذمت۔ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی۔