کراچی واقعہ پر آرمی چیف کا نوٹس میاں نواز شریف کے سوا سب کو بھایا، کور کمانڈر کراچی کی طرف سے انکوائری رپورٹ اور ذمہ دار فوجی افسروں کو اپنے مناصب سے ہٹانے کے فیصلے پر بلاول بھٹو نے اظہار اطمینان کیا، میاں نواز شریف نے البتہ اسے بھی اصل ذمہ داروں کو بچانے کی کارروائی قرار دیا، آئی ایس پی آر کے سابق ڈی جی میجر جنرل آصف غفور کا ایک ٹویٹ سابق وزیر اعظم کو آج تک نہیں بھولا، Report Rejected لکھ کر میاں صاحب نے دل کی بھڑاس نکالی، کم و بیش تین ساڑھے تین سال سے سینے میں دبی غصّے کی آگ ٹھنڈی کی، آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے اقدام کی تحسین ہر طرف ہو رہی ہے۔ پاک فوج کے نظام احتساب کی تعریف بنتی ہے، ایک سوال کا جواب مگر سندھ حکومت کی طرف سے کسی کو ملا نہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں موجود ہے کہ قائد اعظم کے مزار پر کیپٹن صفدر نے نعرے بازی کی، مزار کا تقدس پامال کیا، قائد اعظم سے محبت کرنے والے پاکستانیوں کے جذبات مجروح ہوئے اور مزار انتظامیہ کمیٹی نے تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی اس پر کراچی پولیس اور سندھ حکومت نے کیوں کارروائی نہ کی؟
کیپٹن صفدر کی ہلڑ بازی کے بعد مزار انتظامیہ کمیٹی بے حرمتی کی رپورٹ درج کرانے تھانے پہنچی تو کس کے خوف سے کئی گھنٹے تک ایف آئی آر درج نہ ہوئی اور پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے تھانے کے گھیرائو کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی تو کئی گھنٹے تک مقامی اہلکاروں کے علاوہ اعلیٰ پولیس حکام بھی کارروائی سے گریز اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے رہے، کیا وجہ تھی کہ عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور مزار قائد کی حرمت برقرار رکھنے کے لئے آئی ایس آئی اور رینجرز کے حکام نے پولیس حکام کو کارروائی پر مجبور کیا تو ایک سینئر اخبار نویس کے بقول نشے میں دھت پولیس افسر نے سنی ان سنی کر دی مجبوراً فوجی عہدیداروں کو آئی جی سے رابطہ کرنا پڑا اور آئی جی اور دیگر پولیس افسران کے احتجاجی طرز عمل، بطور احتجاج طویل رخصت کی درخواستوں اور سندھ پولیس کے باغیانہ طرز عمل کا سبب فوجی افسروں کا عجلت پسندانہ روّیہ تھا یا سیاسی عوامل بھی کارفرما تھے؟ اپوزیشن، سندھ حکومت اور بلاول بھٹو نے آئی جی کے اغوا کا سنگین الزام لگایا اس میں کس قدر صداقت تھی؟ ان سوالات کا تسلی بخش جواب ابھی تک سامنے نہیں آیا، رپورٹ میں ذکر ہے توپریس ریلیز میں نہیں، اگر رپورٹ بھی خاموش ہے تو اعتراف جرم کے مترادف۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں نے رپورٹ اور فوجی افسروں کے خلاف کارروائی پر میاں نواز شریف کے ٹویٹ سے حوصلہ پا کر کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ میاں صاحب کے بیانئے کی کامیابی ہے، فوجی قیادت نے سول معاملات میں مداخلت کے الزام کو درست تسلیم کر لیا اور تلافی مافات کے لئے دو افسروں کی قربانی دی جبکہ عام شہری آرمی چیف کے عادلانہ اقدام پر حیرت زدہ ہیں۔
عوام کا لانعام اور غیر جانبدار حلقوں کی حیرت کا سبب واضح ہے۔ ایف آئی آر کا اندراج، آئی جی کا اغوا یا بہ رضا و رغبت کسی فوجی افسر سے ملاقات، کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور رہائی، پولیس افسران کا شدید بلکہ باغیانہ ردعمل اور آرمی چیف کی طرف سے انکوائری کا حکم ایک واقعہ کے آفٹر شاکس ہیں، امر واقعہ نہیں، قائد اعظم کے مزار پر ظہور پذیر ہونے والا واقعہ کہاں گم ہو گیا؟ کیا یہ معمول کا واقعہ تھا، ناقابل ذکر، ناقابل بیاں اور ناقابل دست اندازی پولیس؟ کیا کیپٹن صفدر کی عزت، آئی جی سندھ کی منصبی حرمت اور سندھ حکومت و بلاول بھٹو کی عوامی قوت و طاقت کے روبرو قائد کے مزار کی تقدیس، ہیچ ہے اور آئندہ ہر کسی کو ایسی ہی ہلڑ بازی کی اجازت ہو گی؟ وفاقی حکومت اور اداروں کو مداخلت کا حق نہ وہ عوامی جذبات و احساسات کے مطابق کسی کارروائی کے مجاز؟ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آئین و قانون سے انحراف کا نتیجہ ہم نے 1971ء میں بھگتا، آغاز میں الطاف حسین کی ایسی چھوٹی موٹی حرکتوں کو برداشت اور نظر انداز کیا گیاڈان لیکس پر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی وضعداری کا جواب فوجی قیادت کو میاں نواز شریف کی طرف سے گوجرانوالہ اور کوئٹہ میں ملا، بلاول بھٹو کی ناز برداری بھی کسی نہ کسی روزضرور رنگ لائے گی، اسٹیبلشمنٹ کی مصلحت اندیشی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی دونوں پر ظاہر ہو گئی ہے، ردعمل دونوں کا مختلف ہے، دل میں دونوں کے لڈو پھوٹ رہے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی مصلحت اندیشی کا چرچا ان دنوں پنجاب میں بھی ہے۔ عمران خان نے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اپنی عوامی طاقت، سیاسی ساکھ اور مستقبل کی سیاست کو دائو پر لگا کر وسیم اکرم پلس کی پس پشت پناہی کی، پانچ چھ چیف سیکرٹری اور اس سے زیادہ آئی جی، نسیم صادق ٹائپ قابل بیورو کریٹس اور کئی قابل اعتماد ساتھی کارکنوں کی قربانی دے کر عثمان بزدار کا کلہ مضبوط کیا مگر تاحال وہ گڈ گورننس کے دعوئوں پر پورے اترے نہ مہنگائی پر قابو پانے اور تحریک انصاف کے کارکنوں کی اشک شوئی میں کامیاب رہے، پنجاب کے اثرات وفاقی سطح پر نمایاں ہیں اور مہنگائی کے موضوع پر اپوزیشن کو وفاقی حکومت کے خلاف دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع مل رہا ہے۔ میاں شہباز شریف جیل میں بیٹھے اپنی کارکردگی رپورٹیں چھاپ کر قابل ذکر حلقوں تک پہنچا رہے ہیں۔ حامی مخالف کی تخصیص کے بغیر ہر ایک کو متاثر کرنے کے درپے ہیں اور یہ رپورٹیں پرکشش اعداد و شمار پر مبنی ہیں جبکہ حکمران بسم اللہ کے گیند میں بند اپنے اتحادیوں سے فاصلے پر ہیں۔ مہنگائی سے نالاں عوام کے جذبات کا عمران خان اور ان کے مشیروں کو علم ہو نہ ہو ان حلقوں کو ضرور ہے جو طورخم سے چمن اور کراچی تک افتادگان خاک کی نبض شناسی کے دعویدار ہیں اپوزیشن نے اگر ان ہائوس تبدیلی کا آپشن اختیار کیا اور آغاز پنجاب سے ہوا تو عمران خان کی وفاقی حکومت شائد حالات کا مقابلہ نہ کر سکے، جہانگیر ترین کی وطن واپسی کے بعد سازشی کہانیاں تیزی سے گشت کرنے لگی ہیں اور نیب کے قیدی میاں شہباز شریف کی خفیہ ملاقاتوں کا چرچا ہے، چودھری برادران نے عمران خان کے عشائیے کا بائیکاٹ بے سوچے سمجھے کیا نہ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن ارکان کے چہروں پر بے سبب خندہ استہزا کی جھلک نظر آئی، وفاقی حکومت اگر پنجاب سے ہاتھ دھو بیٹھے تو وہ بہادر شاہ ظفر کی حکمرانی کا نمونہ بن جاتی ہے ؎
سلطنت شاہ عالم
از دلی تابہ پالم
میاں منظور وٹو اور عارف نکئی کے دور میں بھی بظاہر مرکز اور صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکمرانی تھی مگر بے بس و بے اختیار، 18ووٹوں والے میاں منظور وٹو اور ایک ووٹ والے عارف نکئی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیسے بنے یہ دلچسپ اور عبرت ناک داستان ہے اور کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے کب اور کیسے؟ یہ ہوا کے گھوڑے پر سوار عمران خان اور ان کے سیاسی مشیروں کا درد سر ہے جو فی الحال خوشامدیوں کے نرغے میں "ایک ہی صفحے پر" کا راگ الاپ رہے ہیں۔ چناب کی طغیانی سے بے خبر اور سوہنی کی نند کے تیار کردہ گھڑے پر سوار۔