اقتدار سنبھالتے ہی قومی اقتصادی کونسل میں عاطف میاں کی شمولیت، چند ہفتے قبل قومی اقلیتی کمشن میں بلاوجہ قادیانی رکن کی نمائندگی اور اب اسلام آباد میں ہندوئوں کے مندر کی سرکاری خرچے پر تعمیر؟ ریاست مدینہ کے علمبردار یہ کس راستے پر چل نکلے۔ ؎
ہاتھ بے زور ہیں الحادسے دل خوگر ہیں
اُمتی باعث رسوائی پیغمبرؐ ہیں
بت شکن اُٹھ گئے، باقی جو رہے بُت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں
بادہ اَشام نئے، بادہ نیا، خُم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا، بُت بھی نئے، تم بھی نئے
پاکستان جدید طرز کی مسلم جمہوری ریاست ہے، جہاں اقلیتوں کو اسلام اور آئین کے تحت جملہ شہری حقوق حاصل ہیں، اپنی عبادت گاہوں میں مذہبی رسوم ادا کرنے کی مکمل آزادی شہری حقوق میں سرفہرست ہے، مختلف اقلیتوں کو اپنی عبادت گاہیں، گرجا گھر، مندر اور گوردوارے تعمیر کرنے کا حق ہے اور کوئی شخص رکاوٹ ڈالنے کا مجاز نہیں، حکمران نہ مذہبی پیشوا۔ مسلم ریاست میں غیر مسلم شہریوں کی طرح عبادت گاہوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے اور رسول اللہ ﷺ کے اس عہد کی تکمیل جو آپ نے غیر مسلموں کے ساتھ کیا اور اپنے اُمتیوں کو تاقیامت اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنے کی تلقین فرمائی۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے نئے دارالحکومت کی تعمیر کا منصوبہ بنایا تو مجوزہ شہر کے نام کے لئے بھی تجاویز طلب کیں اتفاق رائے سے نوتعمیر شہر کا نام اسلام آباد طے پایا جو قومی اُمنگوں کا مظہر تھا، اسلام کے نام پر آباد ہونے والے اس شہر میں ہندو دو اڑہائی ہزار سے زیادہ نہیں، سید پور میں فوڈ سٹریٹ کے قریب ایک ہندو مندر موجود ہے جس کی تزئین و آرائش چند سال قبل ہوئی۔ لیکن پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق لال چند ملہی نے حکومت اور وزیر اعظم عمران خان کو یہ تاثر دے کر کہ وفاقی دارالحکومت میں ہندو برادری کی عبادت گاہ ہے نہ شمشان گھاٹ، ایک نئے مندر کی سرکاری خرچے پر تعمیر کا منصوبہ منظور کرا لیا۔ وفاقی وزیر مذہبی پیر نور الحق قادری نے دو ہفتے قبل اپنے دست مبارک سے کارخیر کا آغاز فرمایا، ایک اخباری اطلاع کے مطابق وفاقی وزیر نور الحق قادری مذہبی ہم آہنگی پارک کے نام سے ایک ہی علاقے میں تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کی تعمیر کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مسجد، مندر، گرجا گھر، گوردوارہ، کنیسیہ وغیرہ وغیرہ ایک ساتھ، دیوار بدیوار۔ اپوزیشن عمران خان پر شیخ چلی کی پھبتی کستی ہے تو ان کے مداح بُرا مناتے ہیں لیکن پیر نور الحق قادری کے حوالے سے یہ خبر پڑھ کر مجھے بھی یہ شیخ چلی کا منصوبہ لگا، تردید چونکہ ابھی تک نہیں آئی جس کا مطلب ہے کہ یہ سوچ موجود ہے۔
دو اڑہائی ہزار کی تعداد میں ہندو برادری کے لئے ایک نئے مندر کی بلاضرورت تعمیر پر سوال یوں اٹھا کہ سید پور کے مندر میں مذہبی رسومات کی باقاعدگی سے ادائیگی کے لئے اقلیتی رہنما کبھی پرجوش نظر نہیں آئے۔ چند سال قبل میں ایک دوست کے ہمراہ سید پور کی فوڈ مارکیٹ گیا تو اس مندر کا نظارہ کیا جو اپنے عبادت گزاروں کی راہ تک رہا تھا، حکومت نے دس کروڑ روپے کی لاگت سے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا آغاز کیا تو علماء کرام نے صدائے احتجاج بلند کی کہ اس کی ضرورت ہے نہ اسلام اور مسلمانوں کا نرم چہرہ دکھانے کا یہ کوئی سود مند طریقہ، اس وقت جبکہ بھارت میں مسجدیں شہید کی جا رہی ہیں، مسلمان بطور اقلیت اپنے حقوق سے محروم ہیں، کشمیری مسلمان گیارہ ماہ سے فوجی محاصرے کی اذیت سے دوچار ہیں اور پاکستان میں یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں پاکستان کے آئین اور قوانین سے منحرف قادیانیوں کو مسلمانوں کی صف میں گھسیڑنے کی خواہش مند ہے، مندر کی تعمیر کا فیصلہ مناسب نہیں مگر ان کی کسی نے نہیں سنی، گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے جو اتفاق سے موجودہ حکومت کے اتحادی اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما ہیں مندر کی تعمیر کو مسلم اکثریت کے جذبات مجروح کرنے اور ریاست مدینہ کے اُصولوں کے منافی قرار دیا، استد لال ان کا یہی تھا کہ جہاں جہاں ہندو موجود ہیں مثلاً سندھ اور جنوبی پنجاب میں وہاں مندر ضرور تعمیر ہوں مگر جہاں پہلے سے موجود مندر ویران پڑا ہے وہاں نیا مندر تعمیر کرنا گناہ بے لذت کے سوا کیاہے۔؟
فواد چودھری نے حسب عادت چودھری پرویز الٰہی کے بیان پر پہلے تو ایک زور دار ٹویٹ کیا مگر پھر غلطی کا احساس ہونے پر یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا، جس کا مطلب ہے کہ فواد چودھری ایسے شخص کو چودھری پرویز الٰہی کا موقف درست لگا اور مذہبی عناصر کو نیچا دکھانے کے بجائے خاموشی کو ترجیح دی۔
عمران خان اٹھتے بیٹھتے ریاست مدینہ کا ذکر کرتے ہیں تو پاکستان کو اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے طور پر پھلتا پھولتے دیکھنے کے آرزو مند شہریوں کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے لیکن اچانک ان خوش گمان لوگوں کو جب عاطف میاں کی نامزدگی، اقلیتی کمشن میں قادیانیوں کی نمائندگی اور اسلام آباد میں بلا ضرورت مندر کی تعمیر کا پتہ چلتا ہے تو وہ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کہیں ان کے ساتھ کوئی واردات تو نہیں ہونے لگی۔ اقلیتوں کے حقوق اور جدید ریاست کے تقاضے اپنی جگہ لیکن ایک حقیقی کلمہ گو شہری اور حکمران کا مقصد حیات محض امریکہ، یورپ اور ملک میں لامذہب و لادین حلقوں کی خوشنودی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کی تعلیمات پر کاربند رہنا اور اپنی عاقبت سنوارنا ہے، مسلمان بت شکن ہے بتکدوں کا معمار نہیں، یہ بھی طے ہے کہ اسلام آباد میں مندروں، گرجا گھروں اور گوردواروں کی تعمیر سے ہم عالمی برادری کو خوش کر سکتے ہیں نہ پاکستان کو عالمی معیار کی روشن خیال ریاستوں میں شامل کرانے میں کامیاب۔ جب تک پاکستان پر اسلامیہ جمہوریہ کا ٹیگ لگا ہے، اس کے آئین میں صدر کا مسلمان ہونا لازم اور سرکاری مذہب اسلام پاکستان دنیا کی واحد نیو کلیئر مسلم ریاست ہے امریکہ و یورپ ہم سے کبھی خوش ہو سکتے ہیں نہ انتہا پسند، تنگ نظر، نریندر مودی اور نہ پاکستان میں ان کے شردھالو، روز قیامت شائد یہ فیصلہ کرنے والوں کو حضور سرور کائنات شفیع المذنبین رحمت للعالمین ﷺ کے روبرو بھی ندامت کا سامنا ہو کہ ریاست مدینہ کے دارالحکومت میں بتکدے کی تعمیر کا موقع محل تھا نہ ضرورت اور نہ وقت کا تقاضا۔ قرآن مجید میں مسلمانوں کو سمجھایا گیا کہ "غیر مسلم آپ سے کبھی بھی خوش نہیں ہو سکتے تاوقتیکہ آپ ان کے طے کردہ راستے پر چلنے کے لئے تیار نہ ہوں " مگر ریاست مدینہ کے دعویدار شائد اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنے عوام کی طرح نام نہاد عالمی برادری کو بھی بول بچن سے متاثر کر سکتے ہیں۔ پرویز مشرف نے روشن خیال جدیدیت کا ڈھول آٹھ سال تک پیٹابالآخر دوغلی پالیسی کا الزام سہہ کر ایوان اقتدار سے نکلا، خدا عمران خان کو اپنے مشیروں سے بچائے جو انہیں بار بار ریاست مدینہ کے بجائے جنت شداد کی راہ دکھاتے ہیں۔ ؎
ترسم نرسی بہ کعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است