واشنگٹن میں فوج بلانے کے فیصلے کی مخالفت پر اپنے سابق وزیر دفاع جیمز میٹس کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پاگل کتا کہہ کر جھاڑ دیا، اب دیکھیں موجودہ وزیر دفاع مارک ایسپر سے کیا سلوک کرتے ہیں؟ ایسپر نے دارالحکومت سے نہ صرف فوج واپس بلائی بلکہ نیشنل گارڈ کو مسلح کرنے کے صدارتی حکم کو ماننے سے انکار کر دیا، 2018ء میں جیمز میٹس نے خودسری دکھائی اور ٹرمپ کے احکامات ماننے کے بجائے استعفیٰ دیدیا، اب مارک ایسپر کی باری ہے لیکن اس نے صدارتی احکامات سے اختلاف پر استعفیٰ دینے کے بجائے مسترد کر دیا۔ ٹرمپ جیسے بددماغ صدر کے احکامات کو رد کرنا دل گردے کا کام ہے لیکن مارک ایسپر یہ کرگزرے، شائد یہ انتخابی سال کا کرشمہ ہے، ملک بھر میں جاری مظاہروں کا اثر یا امریکہ کی ڈیپ سٹیٹ کا دبائو کہ تادم تحریر صدر ٹرمپ اپنی سرشت کے مطابق مارک ایسپرکے خلاف کوئی انضباطی کارروائی تو درکنار، ٹویٹر پر بُرا بھلا بھی نہیں کہہ پائے، جو ان کا مرغوب مشغلہ ہے۔
پاکستان میں یہ حرکت کسی وزیر دفاع یا فوجی سربراہ سے سرزد ہوتی تو ہمارے جمہوریت پسند دانشور اور سول بالا دستی کے علمبردار سیاستدانوں کے قلمی کارندے آسمان سر پر اٹھا لیتے، ایسی ایسی دو راز کار دلیلیں اس جرأت انکار کے خلاف لاتے کہ معقولیت مُنہ چھپانے پر مجبور ہوتی اور عوام و ریاست کے حق میں فیصلہ صادر کرنے والے فرد یا ادارے کو لینے کے دینے پڑ جاتے، امریکہ میں مگر خاموشی کا راج ہے عوام، سیاستدان، دانشور اور میڈیا وزیر دفاع کے بجائے صدر کے فیصلے کو متنازع اور قومی مفاد کے منافی دے رہے ہیں، ریپبلکن پارٹی نے اپنے صدر کے ساتھ کھڑا ہونا پسند نہیں کیا کہ یہ امریکہ کی سب سے پرانی سیاسی پارٹی ہے کسی فرد یا خاندان کا وفادار و تابعدار فین کلب نہیں، آئین کی تابع، قانون کی پابند اور جمہوری روایات پر کاربند سیاسی پارٹی۔
سیاہ فام شہری کی ہلاکت پر ٹرمپ انتظامیہ کا ابتدائی ردعمل نسلی امتیاز کا آئینہ دار تھا اور ٹرمپ کی بوئی ہوئی فصل کا ثمر، ٹرمپ نے گوری اکثریت کے جذبات بھڑکا کر کامیابی حاصل کی اور اپنی سیاسی و اقتصادی پالیسیوں میں اس کامیابی کے جرثومے داخل کئے، ہٹلر کی طرح اس نے گورے امریکیوں کی نسل برتری کا جذبہ پروان چڑھایا جو اب برگ وبار لا رہا ہے، بھارت میں یہی کام نریندر مودی نے انجام دیا، ٹرمپ اور نریندر مودی میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر کے پیشرو لیڈر منافق نہ تھے جبکہ نریندر مودی سے پہلے جو بھارتی لیڈر برسر اقتدار آئے جواہر لال نہروسے واجپائی تک ان کا سیکولرازم دھوکہ دہی کی واردات اور متحدہ قومیت(ہندو مسلم بھائی بھائی) کا نعرہ فراڈ تھابغل میں چھری مُنہ میں رام رام۔ قدر مشترک دونوں میں یہ ہے کہ اکثریت میں نسلی تفاخر کا جذبہ ابھار کر اقتدار میں آئے اور اب اپنے آپ کو قوم کا مسیحا بلکہ دیوتا اپنے سیاسی ناقدین دونوں احمق اور نظریاتی مخالفین کو ملک و قوم دشمن سمجھتے ہیں۔ نریندر مودی کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک چائے والے کا بیٹا ہے جسے سیاست میں قدم قدم پر مخالفت اور تحقیر کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی کامیابی کو وہ سیاسی جدوجہد کے انعام سے زیادہ نظریے سے پرجوش وابستگی کا ثمر اور بھگوان کی غیر معمولی کرپا سمجھتا ہے، ٹرمپ اور مودی میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ امریکی صدر ایک کامیاب کاروباری شخصیت کے طور پر سیاست میں کامرانی و ناکامی کے نتائج و عواقب سے واقف ہے اور حکمرانی کو نفع و نقصان کی ترازو میں تولتا ہے جبکہ نریندر مودی جیسے لوگ مسلسل کامیابی کے نشے میں دھت ہر طرح کی مہم جوئی پر تلے رہتے ہیں اور کامرانی کو اپنے گھر کی باندی سمجھتے ہیں، ہٹلر اور نریندر میں یہ مشابہت ہے۔
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے تاریخی موقع فراہم کیا ہے، خود بیں ٹرمپ کی توجہ کا مرکز اب امریکہ ہے، جنوبی ایشیا سے وہ اکتا گیا ہے، چین کی اقتصادی ترقی اور دفاعی شعبے میں پیش رفت سے وہ پریشان ضرور ہے مگر کسی بڑی مہم جوئی کے حق میں نہیں، ایران تک سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش سے ٹرمپ کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے، کورونا کی وبا نے چین کو علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی ساکھ مزید بہتر بنانے اور معیشت کے علاوہ سائنس و ٹیکنالوجی حتیٰ کہ دفاع کے شعبے میں قیادت کے منصب پر فائز ہونے کا موقع فراہم کیا ہے پاکستان اس کا روایتی اور قدرتی حلیف ہے اور بھارت افغانستان سے بوریا بستر گول کرنے کے بعد لداخ میں بھی اپنے زخم چاٹ رہا ہے امریکہ کی طرح بھارت میں اندرونی انتشار سر اٹھا چکا ہے جو اس کی داخلی خود مختاری، سیاسی استحکام اور سلامتی کے لئے خطرناک ہے۔ پاکستان تیس برس تک، سگ باش برادر خورد مباش کے نتائج بھگتنے کے بعد انگڑائی لے رہا ہے۔ کہاں وہ 1999ء کا زمانہ جب ہمارا قیمتی جہاز بھارت نے مار گرایا اور ہم ڈھنگ سے احتجاج نہ کر سکے اور کہاں آج کا پاکستان کہ 27فروری کو ہم نے جہاز مار گرایا، پائلٹ پکڑ لیا، گزشتہ دس دن کے دوران تین بھارتی ڈرون شکار کئے، مودی سرکار کو جوابی کارروائی کی جرأت نہ ہو ئی، سرجیکل سٹرائیکس اور فالس فلیگ آپریشن کی تدبیریں ہو رہی ہیں مگر جرأت مفقود کہ انیٹ کا جواب پتھر کے ملنے کی اُمید ہے۔
پاکستان اس وقت تذبذب اور مخمصے کی کیفیت سے دوچار نہیں، سول اور فوجی قیادت کے مابین اعتماد کا فقدان ہے نہ پاکستانی قیادت جرأت رندانہ سے محروم۔ سول بالادستی کے موہوم تصور کے بجائے اخلاقی بالادستی کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے مسئلہ کشمیر، اقلیتوں سے سلوک اور ہمسایوں سے تعلقات کے ضمن میں پاکستان کو اخلاقی برتری حاصل ہے قومی سلامتی سے لے کر جمہوریت کے فروغ و استحکام اور کورونا کی مہلک وبا کے خاتمے سے لے کر کرپشن، ٹڈی دل اور مہنگائی کے سدباب تک ریاست کے تمام اداروں کی ترجیحات واضح ہیں، بھارت اور روس کے سرپرستوں کو علم ہے اور یہ بھی کہ چین و پاکستان اب واقعتاً یک جان دو قالب ہیں۔ اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھا کر ہم پاکستان کو حقیقی اسلامی جمہوری، فلاحی ریاست نہ بنا سکیں تو ہم سے زیادہ بدقسمت کون؟