لاہور میں مینار پاکستان کے زیر سایہ پی ڈی ایم کے جلسہ کو کامیاب اور متاثر کن اجتماع صرف وہی شخص قرار دے سکتا ہے جس کی بینائی کمزور، دانائی مشکوک ہے اوربڑے جلسوں کی تاریخ سے واقفیت واجبی۔ گیارہ جماعتوں کی شبانہ روز محنت، دو ماہ سے جاری جارحانہ احتجاجی تحریک اور کثیر اخراجات کے باوجود پی ڈی ایم بے نظیر بھٹو، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے جلسوں کی یاد تازہ نہ کرسکی اور مریم نوازشریف کو دوران تقریر یہ کہنا پڑا " سخت سردی میں ان کی قلفی جم گئی جبکہ 2011ء میں عمران خان کے جلسہ کی کامیابی میں جنرل احمد شجاع پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام کا ہاتھ تھا"۔ جلسے کے اختتام پر مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء ِاسلام کے حامی تجزیہ کاروں کو بھی وہ وجوہات گنوانی پڑیں جو متاثر کن اجتماع کے راستہ میں حائل رہیں لیکن ان وجوہات میں پولیس انتظامیہ کی طرف سے ڈالی گئی رکاوٹوں کا ذکر تھا نہ حکومت کی حکمت عملی کا عمل دخل، پی ڈی ایم اور پنجاب بالخصوص لاہور کی سیاسی اجارہ دار مسلم لیگ ن کی خوش فہم و ناقص سوچ، اندرونی چپقلش اور موسم و کورونا کی شدت کارونا سب نے رویا، وہ بھی جو ایک روز پہلے تک منٹو پارک کے زیر سایہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے انقلاب کا گوہر نایاب برآمد کرنے کو بے تاب تھے۔
اتوار کے روز سردی شدید، کورونا اور دہشت گردی کا خوف غالب اور پی ڈی ایم قیادت کے علاوہ جلسہ کے منتظمین کی حکمت عملی انتہائی ناقص تھی مگر اس کا ادراک کسے ہونا چاہیے تھا؟ عمران خان اور تحریک انصاف کو یا گیارہ جماعتی اتحاد کی تجربہ کار، بے مثل سیاسی بصیرت کی دعویدار قیادت کو؟ لیکن کیا واقعی لاہور اور پنجاب کے عوام کی عدم دلچسپی کا سبب صرف سخت سردی تھی؟ ، ڈاکٹر طاہرالقادری کا جلسہ اور دھرنا اس سے کہیں زیادہ شدید سردی اور بارش میں بھر پور اورمتاثر کن رہا، پی ڈی ایم کی قیادت اگر کورونا کے پھیلائو اور دہشت گردی کے امکانات اور عوامی ردعمل پر سنجیدگی سے غور نہ کرسکی تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔
پی ڈی ایم بالخصوص پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو سب سے پہلے تو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ گیارہ جماعتی اتحاد میں کوئی ایک بھی کرشماتی اور عوامی سطح پر مقبول رہنما موجود نہیں، پاکستانی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور عمران خان کے سوا کسی سیاسی رہنما میں عوام نے کبھی کشش محسوس نہیں کی، ایسی کشش جو عام آدمی کو جلسہ گاہ پہنچنے، اپنے لیڈر کا دیدار کرنے، اس کی دلچسپ، فکر انگیز اور پرامید باتیں سننے پر مجبور کردے۔ کرشماتی لیڈر لکھی تقریر یں دہراتے ہیں نہ مصاحبین اور تقریر نویسوں کے خیالات کی جگالی کرتے ہیں۔ مریم نواز شریف جلسہ سے قبل تین روز تک لاہور میں گھومتی اور عوام کو جلسے میں شرکت کی دعوت دیتی رہی مگر تین دنوں میں کبھی لاہور کی ٹریفک جام ہوئی نہ کاروبار زندگی معطل ہوا اور نہ پرجوش عوام بالخصوص نوجوانوں نے کام کاج چھوڑ کر ان مقامات کا رخ کیا جہاں سے سابق وزیراعظم کی صاحبزادی کا قافلہ گزرا۔ 13 دسمبر کو بھی صورتحال اسی سے ملتی جلتی تھی۔ مینار پاکستان کے اردگرد ٹریفک اگر رواں دواں رہی اور داتا دربار سے لے کرشاہدرہ تک کہیں بھی منچلوں کی ٹولیاں نظر آئیں نہ گاڑیوں کی لمبی قطاریں تو اس کا کیا مطلب؟ پچھلے چار جلسوں میں پی ڈی ایم کی قیادت اور میاں نوازشریف کی ایک ہی جیسی تقریروں نے بھی سیاسی کارکنوں اور عوام میں اکتاہٹ پیدا کی۔ بلند بانگ دعوئوں اور حقائق کے منافی الزامات کو آخر لوگ کتنی بار اور کیوں سنیں۔ بلاول بھٹو کی گلہ پھاڑ کر بے ربط تقریر اور مریم نواز کے زنانہ انداز کے طعنوں سے بھلا کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ کوئی امید افزا پیغام، کوئی نیا فکر انگیز اور پرکشش ایجنڈا اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے، گریز کرنے کا وعدہ!کچھ بھی تو نہیں، تکرار، تکرار اور تکرار۔
میاں نوازشریف کی تقریر سب سے زیادہ مایوس کن رہی، پہلی بار انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کا نام نہیں لیا گویا نام نہ لینے کی فرمائش مان لی یا پی ڈی ایم کی قیادت بالخصوص پیپلزپارٹی کی نصیحت پر کان دھرا ورنہ ہوم گرائونڈ پر وہ قدم آگے بڑھانے کے بجائے اشاروں کنایوں کا سہارا نہ لیتے۔ جارحیت مفقود، مصلحت غالب نہ ہوتی، لاہور اور پنجاب کے عوام نے میاں صاحب کے بیانئے کو اہمیت دی ہوتی تو وہ سردی، گرمی، سختی نرمی، کورونا اور تھریٹ کی پروا کئے بغیر دیوانہ وار مینار پاکستان کا رخ کرتے اور تاریخ رقم کردیتے، علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے سے بڑا اجتماع جس کسی کی خواہش تھی وہ خواجہ سعد رفیق کی بات پر توجہ دے، لاہور ڈویژن کی تنظیمی قیادت کی گوشمالی ضرور کرے جس کی نالائقی کے سبب ساری محنت، سرمایہ کاری رائیگاں گئی اور پاکستان کے دل پر سیاسی اجارہ داری کا بھرم کھو دیا۔
محمود خان اچکزئی پی ڈی ایم کے لیے پورس کا ہاتھی ثابت ہورہا ہے، پاکستان، پنجاب اور پاک فوج کے خلاف نفرت اور بغض سے بھرا ایک متعصب پشتون جسے تاریخ کا علم ہے نہ دوسروں کے جذبات و احساسات کا احترام، والد گرامی عبدالصمد اچکزئی نے قیام پاکستان کی مخالفت اور مسلمانوں کی دشمن ہندو قیادت کی حمایت کی۔ خود موصوف پہلے ایک سامراجی ریاست سوویت یونین کی کابل میں کٹھ پتلی حکومت کے دسترخواں سے شکم کا دوزخ بھرتے رہے اورپھر 9/11 سے اب تک قابض امریکی فورسز کے آلہ کار کابلی حکمرانوں حامد کرزئی اور اشرف غنی کے پاکستان دشمن عزائم اور پالیسیوں کے مبلغ اور مداح ہیں۔ کراچی میں اردو کے خلاف خبث باطن ظاہر کیا اور لاہور میں پنجاب، پنجابیوں پر گرجے برسے، بھول گئے کہ سکندر اعظم سے امیر تیمور تک کئی بیرونی فاتحین بلوچستان، ظہیر الدین بابر سمیت بہت سے حملہ آور افغانستان کے راستے ہندوستان میں وارد ہوئے اور انہیں کبھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سبّی دربار کے موقع پر انگریز لیفٹیننٹ جنرل جس بگھی پر سوار ہوتے، بلوچستان کے سردار گھوڑوں کی جگہ اسے کھینچ کر منزل مقصود تک پہنچاتے اور خلعت شاہی حاصل کرتے جبکہ پنجاب کو پشاور بیچنے والے پشتون حکمرانوں کے بارے میں بھی سب کو علم ہے، میاں نوازشریف نے انہی محمود اچکزئی، عبدالغفار خان کے خانوادے اور دیگر پنجاب دشمن قوم پرستوں کے ہتھے چڑھ کر اپنی منزل کھوٹی کی۔ حیف قائداعظم کے نام لیوا مسلم لیگی قائدین اور کارکنوں پر کہ محض عمران خان کی دشمنی میں وہ ایک کینہ پرور، متعصب اور تنگ نظر پشتون رہنما کی منافرت انگیز گفتگو سنتے اور تالیاں پیٹتے رہے، کسی کی رگ حمیّت پھڑکی نہ پنجاب اور لاہور کے روادار، کشادہ قلب، مہمان نواز عوام سے وفا کا تقاضہ یاد رہا:
تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو!
شنید ہے کہمسلم لیگ کے سی ای سی اجلاس میں جلسے میں عوام کی عدم شرکت کا جائزہ لیا اور ذمہ دار رہنمائوں کی بازپرس کا فیصلہ ہوا مگر کیا مریم نواز ازسرنو تنظیم سازی کی پوزیشن میں ہیں، کیا وہ ناکامی کا ذمہ دار نوازشریف کے نامزد عہدیداروں کو قرار دے کر بڑے پیمانے پر تطہیر کرسکتی ہیں؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ لانگ مارچ، دھرنے اور استعفوں کا فیصلہ فروری میں ہوا تو ڈیڑھ دو ماہ کا جمود اب تک کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دے گا اور مینار پاکستان میں "جمع عوامی مقبولیت" کے زاد راہ کے ساتھ پی ڈی ایم نے کوئی انتہائی فیصلہ کیا تو نتیجہ معلوم، عمران حکومت تو درکنار اس جلسے سے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی بھی شاید مرعوب نہ ہوں اور وہ اپنے استعفے قیادت کے حوالے کرنے سے انکار کردیں کہ انہیں قیادت کی مقبولیت، احتجاجی تحریک میں عوام کی دلچسپی کا پتہ چل گیا۔ ارکان اسمبلی کواگلا الیکشن عزیز ہے اور اپنے حلقہ جاتی مفادات مقدم، جان بوجھ کر خودکشی کون کرتا ہے، حرام موت مرنے کا شوق کسی جنونی مہم جو کو ہو سکتا ہے مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی میں بھلادنیا و مافیہا سے بے خبر ایسے مجنوں کتنے ہیں۔؟ کوئی سوچے تو