انور عزیز چودھری مرحوم کے بارے میں کالم پر بعض دوستوں نے خواجہ صفدر مرحوم کی ناکامی اور سید فخر امام کی کامیابی کی وجوہات جاننے پر اصرار کیا کہ آخر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کا اُمیدوار شکست سے دوچار کیسے ہوا، جبکہ محمد خان جونیجو کو پوری اسمبلی نے بلا مقابلہ منتخب کیا اور بعدازاں اتفاق رائے سے اعتماد کا ووٹ بھی دیا۔ سوال واقعی وزنی ہے مگر جواب بہت ہی دلچسپ ہے۔ بعض سرپھرے منتخب ارکان اسمبلی نے اپنی اہمیت جتلانے اور قوم کے علاوہ معروف سیاسی و جمہوری قوتوں کے روبرو اپنا اختلاف رجسٹر کرانے کے لئے سید فخر امام کو پنجابی محاورے کے مطابق "چک چکا کر" سپیکر قومی اسمبلی کے اُمیدوار کے طور پر میدان میں اتار دیا اور چاروں صوبوں کے ارکان اسمبلی سے ووٹ بھی مانگا مگر اپنی اپنی سیاسی جماعتوں سے بے وفائی کر کے یا پہلی بار منتخب ہو کر اسمبلی پہنچنے والے نومنتخب ارکان کی اکثریت اس بات سے خوفزدہ تھی کہ ناراض ہو کر فوجی آمر کہیں مارشل لاء کا ڈنڈا استعمال نہ کر دے اور انتخابات کو کالعدم قرار دے کر سب کو گھر نہ بھیج دے اس لئے دوسروں صوبوں کے بالعموم اور پنجاب کے بالخصوص ارکان فخر امام کی مہم چلانے والوں سے سوال کرتے کہ کیا جنرل ضیاء الحق کسی ایسے شخص کو سپیکر بننے دیں گے جو ان کے نامزد اُمیدوار کے مدمقابل کھڑا ہے اور کل تک ضیاء کابینہ کا رکن تھا۔ سوال میں وزن تھا اور آٹھ سال بعد وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کے مستقبل کے حوالے سے برمحل۔
خواجہ صفدر کے خلاف انتخابی مہم چلانے والوں نے خوفزدہ ارکان اسمبلی کے تجسس اور اندیشہ ہائے دور دراز کا علاج یہ ڈھونڈا کہ جہاں ضرورت پڑی سید فخر امام کو بھی ضیاء الحق کا اصل اُمیدوار قرار دیدیا، مخدوم جاوید ہاشمی اور طارق چودھری ایک روز پہلے تک آرمی ہائوس میں مقیم اور جنرل ضیاء الحق کے مہمان تھے، بی بی عابدہ حسین کے گھر اجلاس کے بعد دونوں نے چپکے سے اپنا سامان سمیٹا اور سٹیٹ سیمنٹ کے گیسٹ ہائوس منتقل ہوگئے، موبائل فون ان دنوں ہوتے نہیں تھے کہ رابطے کا ڈر ہو اور ڈاکٹر بشارت الٰہی مرحوم کو انہوں نے اپنے ارادوں سے آگاہ کر دیا تھا، تاثر یہ دیا گیا کہ جنرل ضیاء الحق نے دیرینہ تعلقات اور مجلس شوریٰ کے چیئرمین کی حیثیت سے احسن کارکردگی کے باعث مروتاً خواجہ صفدر کو اپنا اُمیدوار تو نامزد کیا ہے مگر دل ان کا فخر امام کے ساتھ ہے جس نے چیئرمین ضلع کونسل کا انتخاب ہارنے کے بعد وفاقی کابینہ سے استعفیٰ دیا اور مثالی سیاسی و جمہوری کردار کا مظاہرہ کیا، مہم چلانے والے ارکان بطور ثبوت مخدوم جاوید ہاشمی، طارق چودھری کو پیش کرتے جن کی آرمی ہائوس روزانہ آمدورفت اور صرف ضیاء الحق نہیں بلکہ ان کے اہلخانہ سے گہرے تعلقات کسی سے مخفی نہ تھے، مخدوم جاوید ہاشمی حلف برداری سے ایک روز قبل، جنرل صاحب کے گھر میں ڈنر کر چکے تھے، جس میں بیگم شفیقہ ضیاء الحق نے ہاشمی صاحب کی پسندیدہ ڈش ساگ بطور خاص تیار کرائی تھی اس موقع پر جب بیگم ضیاء الحق نے ساگ کی ڈش آگے بڑھائی تو ڈاکٹر بشارت الٰہی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ملتان کا مخدوم کچھ ناراض ہے جس کا ضیاء الحق نے سنجیدگی سے نوٹس لینے کے بجائے مسکرا کر جواب دیا کہ اس کی وزارت پکی ہے ناراضی کا کیا سوال۔ ویسے بھی گھر کا بندہ ہے ناراض ہو کر کہاں جائیگا۔
ارکان اسمبلی میں سے کسی کو جنرل ضیاء الحق کے انداز نامزدگی پر اعتراض تھا، کچھ اپنے منتخب نمائندہ ہونے کا ثبوت دینے کے درپے تھے اور باقی بے چارے اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ شائد فخر امام بھی اسٹیبلشمنٹ کا اپنا بندہ ہے۔ جس نے دو امیدوار کھڑے کئے ہیں کہ مقابلے کا تاثر پیدا ہو اور پارلیمنٹ سے باہر بیٹھی اپوزیشن کو یہ پراپیگنڈا کرنے کا موقع نہ ملے کہ غیر جماعتی انتخابات کی طرح وزیر اعظم، سپیکر اور دیگر مناصب بھی نامزدگیوں کے ذریعے سونپے جا رہے ہیں یہ نسخہ کارگر ثابت ہوا، ابتدا میں تو جنرل ضیاء الحق نے اسے بچوں کا کھیل سمجھا مگر دوسری شام جب انہیں خفیہ ایجنسیوں اور دیگر ذرائع سے یہ معلوم ہوا کہ نمبر گیم میں خواجہ صفدر، سید فخر امام سے پیچھے ہیں تو ان کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے باغی ارکان کے علاوہ سید فخر امام سے بھی براہ راست رابطوں کا فیصلہ کیا مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا اور فخر امام کی کامیابی نوشتہ دیوار تھی، خواجہ صفدر کی ناکامی سے جنرل ضیاء الحق برہم تو تھے اور جاوید ہاشمی پر یہ کہہ کر انہوں نے اپنی برہمی ظاہر کی کہ میں نے 1978ء میں آپ کو کابینہ میں شامل کر کے غلطی کی مگر فوجی حکومت نے اپنی اس شکست کو بھی بہترین حکمت عملی کے ذریعے کیش کرایا، تسلسل سے یہ پراپیگنڈا ہوا کہ نومنتخب اسمبلی ربڑ سٹمپ ہے نہ غیر جماعتی ارکان اسمبلی ضیاء الحق کے گھڑے کی مچھلی۔
نئی پارلیمان میں سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیر اعظم کے انتخاب کا مرحلہ مکمل ہو گیا تو صدر جنرل ضیاء الحق اور نومنتخب وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے مابین رسمی ملاقات طے پائی، جنرل ضیاء الحق نے اپنے سٹاف کو ہدائت کی کہ ایوان صدر میں وزیر اعظم کے شایان شان استقبال کی تیاری کی جائے، وقت مقررہ پر جونیجو جھنڈا لہراتی کار میں ایوان صدر پہنچے، ملاقات شروع ہوئی اور رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد وزیر اعظم نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے پوچھا "صدر صاحب آپ مارشل لاء کب اٹھا رہے ہیں؟ " جنرل کے ایم عارف کے بقول جو چیف آف سٹاف کے طور پر ملاقات میں موجود تھے، سوال سن کر ضیاء الحق چند ثانیوں کے لئے خاموش ہو گئے، انہیں اپنے نامزد وزیر اعظم سے اس سوال کی توقع نہ تھی مگر جواب دینا پڑا، ضیاء الحق نے کہا "جونیجو صاحب!اب مارشل لاء آپ کی منتخب حکومت کے استحکام اور مضبوطی کے کام آئے گا، جب تک آپ اس کی ضرورت محسوس کریں گے، بغیر ضرورت مارشل لاء ایک لمحے کے لئے بھی نافذ نہیں رہے گا" جونیجو صاحب نے ترنت جواب دیا "صدر صاحب جمہوریت اور منتخب حکومت کو مارشل لاء کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں "۔
یوں نامزد وزیر اعظم سے پہلی ملاقات ہی ضیاء الحق کی توقعات اور اُمیدوں کے خرمن پر برق ثابت ہوئی، اپنے ہاتھوں سے تراشے گئے صنم کے بھگوان بننے کا یہ منظر دیدنی تھا۔
جونیجو صاحب کی قیادت میں حکمران پارلیمانی پارٹی وجود میں آئی تو اپوزیشن نے بھی آزاد پارلیمانی پارٹی تشکیل دی اور اتفاق رائے سے سرائیکی وسیب کے تجربہ کار پارلیمنٹرین، ماہر آئین و قانون حاجی سیف اللہ خان کو اپنا لیڈر منتخب کیا، سیکرٹری جنرل کے طور پر مخدوم جاوید ہاشمی کا انتخاب ہوا مگر شیخ رشید احمد نے اپنے دیرینہ دوست کے انتخاب پر خوشی کا اظہار کرنے کے بجائے یہ تجویز پیش کی کہ سیکرٹری مستقل بنیادوں پر نہیں بلکہ روٹیشن کے اُصول کے تحت کام کرے، چنانچہ مقررہ مدت پوری کرنے کے بعد ہاشمی صاحب کی جگہ شیخ رشید اور پھر ڈاکٹر شفیق چودھری سیکرٹری بنے، چند ارکان پر مشتمل اس اپوزیشن نے آٹھویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جنرل ضیاء الحق اور محمد خان جونیجو کو جو ٹف ٹائم دیا وہ تاریخ کا حصہ ہے جبکہ اگلے تین سال میں متعدد مواقع پر اپوزیشن نے حکومت کو ناکوں چنے چبوائے، محمد خان جونیجو کی آزاد روی اور پارلیمنٹ کی باغیانہ روش سے تنگ آ کر مئی 1988ء میں ضیاء الحق نے حکومت اور پارلیمنٹ دونوں کی چھٹی کرا دی، جونیجو صاحب نے اپنی رخصتی سے قبل مگر سپیکر سید فخر امام کو بھی اپنے منصب سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے معزول کرایا، اس موقع پر سید فخر امام کو 72ووٹ پڑے جبکہ حکمران جماعت کے نامزد امیدوار چودھری حامد ناصر چٹھہ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، رکن اسمبلی پیر محمد اشرف نے اس انتخاب پر تبصرہ کرتے ہوئے معنی خیز جملہ کہا، جمہوریت کی کربلا میں سیّد زادے کے ساتھ آج بھی بہتر افراد ہیں کم نہ زیادہ۔ رہے نام اللہ کا۔