Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hath Kangan Ko Arsi Kya

Hath Kangan Ko Arsi Kya

 میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف احتساب عدالت کے فیصلے کی معطلی کی اطلاع ہمیں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے ساتھ ملاقات کے دوران ملی۔ حیران کن طور پر کسی نے بھی تعجب ظاہر کیا نہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے موضوع بدل کر کوئی رائے دی۔ ایسا لگا کہ اخبارات و جرائد کے مدیران اور حکومت پنجاب کے کارپردازان ذہنی پر یہ فیصلہ سننے کے لیے تیار تھے۔ یہ فیصلہ اس عدلیہ نے دیا ہے جس پر شریف خاندان اور اس کے چاہنے والے گزشتہ ایک سال سے طعن و تشنیع میں مصروف ہیں۔ پی سی او عدالتیں، لکھے لکھائے فیصلہ پڑھنے والے جج اور انتقامی فیصلے وغیرہ وغیرہ۔ سپریم کورٹ سے حدیبیہ پیپرز مل کیس خارج ہوا جس میں پورا شریف خاندان ملزم تھا، خواجہ آصف کو عدالت عظمیٰ نے ریلیف دیا اور اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے باپ بیٹی اور داماد کو احتساب کورٹ سے ملنے والی سزا معطل کر دی۔ آزاد عدلیہ مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کو خوش کرنے کے لیے مزید کیا کرے؟ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا!دیکھتے ہیں کہ عدالتی ریلیف ملنے پر مسلم لیگی قائدین عدلیہ کے شکر گزار ہوتے ہیں یا فاتحانہ انداز میں مزید دبائو بڑھاتے اور الزام تراشی کی روش اپناتے ہیں۔؟ نواز شریف کی رہائی عمران خان اور سردار عثمان بزدار دونوں کے لیے سیاسی آزمائش کا پیش خیمہ ہے حکومت کو سرمنڈاتے ہی اولے پڑے۔ گھمسان کا رن اگر پنجاب میں پڑا تو کھلے مقابلے میں بزدار کی حکومتی اور سیاسی صلاحیتوں کا امتحان ہو گا، سخت امتحان۔ فیصلے پر مسلم لیگی کارکنوں کی خوشی دیدنی ہے اللہ کرے کہ وہ جس عدالتی بنچ کے عبوری فیصلے پر جشن منا رہے ہیں وہ اپیلوں پر حتمی فیصلے کو بھی صدق دل سے قبول کریں اور جے آئی ٹی بننے پر مٹھائیاں بانٹنے والے رہنمائوں و کارکنوں کی طرح سینہ کوبی نہ کریں۔ فیصلے سے ثابت ہوا کہ ہر ملزم اور سزا یافتہ کو ریلیف عدلیہ سے مل سکتا ہے اور پاکستان کی عدلیہ واقعی آزاد ہے، شور شرابے، الزام تراشی، احتجاج اور ہنگامہ آرائی سے وہ متاثر ہوتی، نہ طاقتوروں کا دبائو قبول کرتی ہے۔ اگر فوجی آمروں کی طرح سول جمہوری حکمران بھی عدلیہ پر ترغیب اور دبائو کے حربے نہ آزماتے، ان کے آئیڈیل جسٹس قیوم، جسٹس عبدالحمید ڈوگر نہ ہوتے اور عدالتوں کو آزادی سے کام کرنے کا موقع ملتا تو آج پاکستان میں مثالی عدلیہ وجود میں آ چکی ہوتی۔ منفی حربوں کے باوجود عدلیہ نہ صرف آزاد ہے بلکہ وہ طاقتور حلقوں اور مافیاز کی خواہش کے برعکس عوامی حقوق و مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ یہ اور بات کہ مفاد پرست عناصر صرف اس فیصلے کو عدل و انصاف پر مبنی تصور کرتے ہیں جو ان کے مقاصد کی آبیاری کرے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز کی پنجاب کمیٹی کے ارکان کی ملاقات اخباری صنعت کو درپیش مسائل و مشکلات کے حوالے سے تھی مگر ؎ذکر جب چھڑ گیا قیامت کابات پہنچی تیری جوانی تکتحریک انصاف کے سو روزہ ایجنڈے سے لے کر وزیر اعلیٰ پنجاب کی بائیس روزہ کار گزاری تک ہر موضوع پر کھل کر بات ہوئی اور ڈیرہ غازی خاں کے غریب تمن کے مڈل کلاسیے تمندار نے ہر سوال کا جواب اعتماد سے دیا۔ کہنا بزدار صاحب کا یہ تھا کہ کچھ دن انہیں لاہور کے راستوں، اقتدار کی راہداریوں اور ماضی کے منصوبوں کے مثبت، منفی نتائج و عواقب سے آگاہ ہونے میں لگے۔" میں جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرنے کا قائل ہوں نہ عجلت میں کوئی قدم اٹھا کر اسے واپس لینے کا عادی۔ ہم عمران خان کے ویژن کے مطابق جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام، عوامی فلاح و بہبود اور اخباری صنعت کی تعمیر و ترقی سمیت ہر وہ کام کریں گے جس کی قوم ہم سے توقع کرتی ہے"۔ انہوں نے سینئر صحافیوں اور مدیران جرائد کے تابڑ توڑ سوالات کا تحمل سے مگر اختصار سے جواب دیا اور کسی موقع پر جذباتی ہوئے نہ گریز پا۔ وہ کب تک ایسے رہتے اور وعدے کے مطابق صحافیوں سے قریبی رابطہ برقرار رکھتے ہیں؟ یہ وقت ہی بتائے گا، کہ تخت لاہور کی بھول بھلیوں میں گم شدگی دیرینہ روائت ہے جس میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ سی پی این ای کی پنجاب کمیٹی کے ارکان لاہور میں میٹ دی ایڈیٹرز پروگرام میں شرکت کے لیے جمع ہوئے تھے۔ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان سے تبادلہ خیال کی یہ نشست بھر پور رہی، دبنگ چوہان نے بار بار یہ بات کہی کہ میرے اور میری حکومت کے خلاف ہر کسی کو بولنے، لکھنے کی آزادی ہے مجھے کوئی دبائو میں لا سکتا ہے نہ میرے محکمے سے ناجائز مراعات سمیٹ سکتا ہے البتہ مذہب، فوج، عدلیہ اور سماجی حسیّات کے بارے میں طے شدہ آئینی و قانونی حدود سے کسی کو تجاوز کی اجازت نہیں اور اشتہارات ہم ذاتی پسند و ناپسند کی بنا پر نہیں میرٹ پر دیں گے۔ ماضی میں جو لوگ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کر کے وزارت اطلاعات سے مراعات سمیٹتے رہے انہیں اب مایوسی ہو گی۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر مدیران گرامی کو سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے عشائیے اور گورنر چودھری محمد سرور نے چائے پر بلا لیا۔ چودھری پرویز الٰہی دس سال بعد ایوان اقتدار میں واپسی پر خوش تھے اور اخبار نویسوں سے پوچھ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے عہد حکمرانی کا مزہ خوب چکھ لیا؟ یا ابھی کوئی کسر باقی ہے؟ ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ میڈیا سے بحیثیت مجموعی ہمیشہ انہوں نے رہنمائی لی۔ دوران اقتدار کئی فیصلے اور اقدامات ہم نے محض اس بنا پر واپس لیے کہ ان کے منفی نتائج و عواقب سے ہمیں اخبار نویسوں اور میڈیا نے آگاہ کیا۔ یہ دوستانہ محفل تھی جس میں زیادہ تر اخبار نویس بولے اور چودھری صاحب سنا کیے البتہ چودھری محمد سرور بہت سے موضوعات پر بولے اور حسب عادت جملہ بازی بھی کی۔ میڈیا کے حوالے سے انہوں نے جب یہ کہا کہ تحریک انصاف سب سے انصاف کرے گی اور زیادتی کسی سے نہیں ہو گی تو سینئر صحافیوں نے کہا کہ تحریک انصاف، انصاف اور میرٹ کی بات ضرور کرے مگر ماضی میں جن کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا ان کا احتساب ہونا چاہیے کہ یہ بھی تقاضائے انصاف ہے۔ چودھری محمد سرور کی ایک نشست لاہور کے کالم نگاروں کے ساتھ ہوئی جس کا خوشگوار پہلو یہ تھا کہ اس میں وہ کالم نگار اور صحافی بھی شریک تھے جو تحریک انصاف کے ناقد، موجودہ حکمرانوں بالخصوص عمران خان کے مخالف اور سابقہ حکومت سے قربت کی شہرت رکھتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے دور اقتدار میں اس فراخدلی کا مظاہرہ کبھی نہیں ہوا۔ میاں شہباز شریف کے پہلے پانچ سالہ دور میں تو پھر بھی کسی راندہ درگاہ کو شرف بازیابی مل جاتا تھا مگر جونہی میاں نواز شریف اقتدار میں آئے، آزاد منش صحافیوں اور تجزیہ نگاروں پر شاہی محلات کے دروازے بند ہو گئے۔ ان خوددارصحافیوں نے بھی بندش اور شاہانہ بے اعتنائی کو غنیمت جانا کہ چلو اچھا ہوا، تم روٹھے، ہم چھوٹے۔ اخبار نویس کو حکمران لفٹ نہ کرائیں، وہ وضعداری، منہ ملاحظے اور حضور شرمی کے تکلف سے آزاد ہو، اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں۔ موجودہ حکمرانوں نے اگر سابقہ حکومتوں سے سبق سیکھا اور گورنر ہائوس کے دروازے عوام پر وا کرنے کے علاوہ ایوان اقتدار میں ہر نقطہ نظر اور مکتب فکر کے صحافیوں کا داخلہ ممکن بنایا تو یہ خوش آئند پیش رفت ہے۔ سابقہ اور موجودہ حکومت میں فرق تو نظر آیا۔ علامتی فرق ہی سہی، فرق تو فرق ہوتا ہے۔ آزاد عدلیہ، آزاد میڈیا، مضبوط و فعال جمہوریت اور بے لاگ احتساب قوم کی دیرینہ خواہش ہے موجودہ دور حکمرانی میں اس کے آثار نظر آتے ہیں مگر دودھ کی جلی یہ قوم چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتی، حکمرانوں کو وعدوں اور دعوئوں نہیں عمل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتی ہے۔ عمران خان کے پیرو کاراور وفادار سردار عثمان بزدار، چودھری محمد سرور اور فیاض الحسن چوہان کچھ کر گزرنے کا دعویٰ کرتے اور اپنی نیک نیتی کا یقین دلاتے ہیں۔ جہاں اتنا کچھ دیکھ لیا، وہاں یہ بھی دیکھ لیتے ہیں ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔