Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hosh Rubaa, Andeshay

Hosh Rubaa, Andeshay

ہوش امپریل کالج لندن کی رپورٹ پر یقین کرنا درکنار، پڑھنے کو دل نہیں کرتا، جو ہوشربا اندیشے رپورٹ میں ظاہر کئے گئے، ان کے بارے میں سوچ کر کلیجہ مُنہ کو آتا، انسان کا دل، دماغ اور ہمت سب جواب دے جاتے ہیں، ویسے بھی گوروں کی بات پر آنکھیں بند کر کے ایمان لانا اپنا وطیرہ نہیں، کہ یہ ناہنجار نڈر، باہمت پاکستانیوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے اعداد و شمار کا جال بچھاتے اور ہم سادہ لوح بآسانی پھنس جاتے ہیں لیکن وفاقی وزیر اسد عمر نے کورونا کے پھیلائو کی جو تصویر کشی کی وہ بھی کم ہولناک نہیں۔ امپریل کالج لندن کی رپورٹ میں بائیس لاکھ پاکستانیوں کی اموات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، جو رپورٹ کے مطابق موثر لاک ڈائون نہ کرنے کا شاخسانہ ہے لیکن اسد عمر جولائی کے اواخر تک دس لاکھ متاثرین اور موجودہ تناسب سے پچیس تیس ہزار اموات کی چتائونی سنا رہے ہیں جبکہ امپریل کالج لندن کے ماہرین کے خیال میں سخت لاک ڈائون کی صورت میں مرنے والے پاکستانیوں کی تعداد دس ہزار دو سو ہوتی یعنی اسد عمر کے اندازوں سے ساٹھ ستر فیصدکم۔

سخت لاک ڈائون کیوں نہ ہوا اور وفاقی حکومت لاک ڈائون نرم رکھنے پر مُصر کیوں تھی؟ یہ قصہ ماضی ہے جس پر بحث فضول ہے۔ کن لوگوں نے عمران خان کو لاک ڈائون کی مخالفت پر آمادہ کیا اور وہ لاک ڈائون کے نفاذ کے بعد مسلسل صوبائی حکومت کے اقدامات کو اشرافیہ کا فیصلہ قرار دے کر مسترد کرتے رہے، یہ بھی تاریخ ہے۔ جو ہونا تھا، ہو چکا، کچھ غلطیاں حکومت سے ہوئیں، مختلف طبقات روز اول سے مزاحم تھے اور "باشعور" عوام کی اکثریت مذاق سمجھ کر اس مہلک وبا کا تمسخر اڑاتی رہی۔ کورونا کے بارے میں تنزانیہ کے صدر کی ایک مزاحیہ تقریر کو جتنی پذیرائی پاکستان میں ملی اس کا عشر عشیر اپنے ملک میں نہیں۔ چند روزہ لاک ڈائون کے طفیل یہ وبا سست رفتاری کا شکار ہوئی تو عوام نے اسے خاتمے کی نوید سمجھا اور حکومت کی عائد کردہ پابندیوں کی مٹی پلید کرنے پر اُتر آئے، وفاقی حکومت تذبذب کا شکار تھی، عوام حکومت اور طبی ماہرین کی ہدایات اور مشوروں کو ان کے مُنہ پر مارنے کے لئے بے تاب۔ رمضان المبارک کے آخری ہفتے میں لاہور، کراچی سمیت ملک کے طول و عرض میں قوم نے کورونا کو حقیر جان کر جس لاپروائی، غفلت اور بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا اس کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں اور اسد عمر کے اندازے و اندیشے پچھلے بیس پچیس دن کی خرمستیوں کا نتیجہ ہیں۔ مکمل لاک ڈائون کی آپشن اب دستیاب نہیں کہ وبا پھیل چکی اور طبی عملے، ہسپتالوں اور پولیس و انتظامیہ پر جو بوجھ ڈالنا تھا، وہ پڑ چکا۔

صورتحال کی حکومت تنہا ذمہ دار نہیں کہ عامتہ الناس، تاجر برادری، علماء کرام اور عدلیہ نے کورونا کی آبیاری میں بھر پور حصہ ڈالا، بھوک سے بچنے کے شوق میں لوگوں نے کورونا کو گلے لگایا اور اب جنگل کے شیر کی طرح کورونا کی مرضی جو چاہے کرے مگر وہ اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ ملک کے بیس شہروں میں سمارٹ لاک ڈائون کا تجربہ کیا جا رہا ہے، دو ہفتے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کتنا کامیاب رہا، یہی تجربہ اگر ایک ماہ قبل کر لیا جاتا تو بہت سے بزرگوں اور نوجوانوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں، مگر حکمرانوں اور عوام دونوں پر عید کی خریداری اور ہلّے گلے کا شوق غالب تھا، رضا کارانہ احتیاطی تدابیر کی توقع اس قوم سے کی جا رہی تھی جس کے جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر موٹر سائیکل پر ون ویلنگ کے کرتب دکھانے کے عادی، پتنگ بازی سے اپنے اور دوسروں کے گلے کٹوانے کے شوقین اور ہیلمٹ پہننے کو کسر شان سمجھتے ہیں، سمارٹ لاک ڈائون بھی اس صورت میں مفید ثابت ہو سکتا ہے کہ اس پر موثر عملدرآمد ہو اور کوئی خلاف ورزی کی جرأت کرے نہ پولیس و انتظامیہ اجازت دے، بال کی کھال اتارنے والے قنوطی ذہنوں کو ڈر یہ ہے کہ جو پولیس اور انتظامیہ پٹرول کی قلت اور ذخیرہ اندوزی پر قابو پا سکی نہ آٹا، گندم، ماسک، اوکسی میٹر، آکسیجن سلنڈر اور دیگر سرجیکل سازوسامان کی مہنگائی کو روک سکی اور جس نے ٹرانسپورٹ و مارکیٹوں میں ایس او پیز کی مٹی پلید ہوتے دیکھ کر غصّ بسر سے کام لیا، کسی سے تعرض کیا بھی تو صرف حصہ رسدی وصول کرنے کی غرض سے وہ اس کام میں کتنی دلچسپی لے گی۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر خدانخواستہ دیگر شہر، قصبے اور علاقے بھی آفت زدہ نکلے تو سمارٹ لاک ڈائون کا دائرہ وسیع ہو گا یا پہلے کی طرح عوام کی صوابدید پر چھوڑ کر حکومت یہی رال الاپے گی کہ زیادہ سختی کی تو غریب لوگوں کے بھوک سے مرنے کا اندیشہ ہے، لہٰذا لوگ خود ہی احتیاط کریں، نہیں کرتے تو وہ جانیں اور کورونا جانے، ہمارا ذمہ اوش پوش۔ گزشتہ پچاس سال کے دوران قوم کا مزاج بگاڑا گیا، قانون شکنی، من مانی اور موج میلہ کی عادت پختہ ہوئی، مختلف مافیاز مضبوط ہوئے اور ریاست کے ادارے کمزور سے کمزور تر، اس بنیادی حقیقت کو فراموش کر دیا گیا کہ اگر عوام خود ہی اپنا اور معاشرے کا اچھا بُرا سوچنے اور قاعدے قانون کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے اہل ہیں تو پھر ریاست اور حکومت کا کیا جواز ہے، جس کے بالمقابل فرد اپنے حقوق سے دستبردار ہوتا اور اس کی عائد کردہ پابندیوں کو قبول کرتا ہے، جس معاشرے کے افراد سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ ٹریفک قوانین کی از خود پابندی کریں، ٹریفک سگنل، سی سی ٹی وی کیمروں اور سپیڈ بریکروں پر کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے بعد ٹریفک پولیس کی ضرورت پیش آتی ہے، امریکہ میں احتجاجی مظاہروں کو قانون کے دائرے میں رکھنے کے لئے نیشنل گارڈ اور فوج کو بلانا پڑتا ہے وہاں یہ سوچنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کہ عام شہری قانون اور پولیس کے خوف سے بالاتر ہو کر ایس او پیز کی رضا کارانہ پابندی کریں گے، ایں خیال است و محال است و جنوں۔ اللہ کرے سمارٹ لاک ڈائون کا تجربہ کامیاب رہے، متاثرین کی تعداد، دس لاکھ تک نہ پہنچے۔ امپریل کالج لندن کی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرنے والوں کے مُنہ میں خاک، ہم اگست کا مہینہ بھی اپریل اور مئی کے مہینوں کی طرح ہنستے کھیلتے گزار لیں مگر قوم کی اجتماعی بے احتیاطی، بے حسی بلکہ سنگدلی اور حکومت کی "غریب پروری" کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ سارے اندازے، اندیشے غلط ثابت ہوں کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ ہاتھوں کی لگائی گانٹھیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں، جو خرمستیاں ہم نے عیدالفطر پر کیں ان کا اعادہ عیدالاضحی پر ہوا اور ہم سنبھلے نہ ہمارے حکمران تو کفارہ کون ادا کرے گا؟ ؟