ایک بار پاک فوج کے ویژنری جرنیل حمید گل مرحوم سے دوران ملاقات ان کی ریٹائرمنٹ پر بات چل نکلی، کہنے لگے تین عشرے سے زائد فوج میں خدمات انجام دینے کے باوجود ایک لمحے کے لیے میں یہ بھول گیا کہ فوجی ڈسپلن کیا ہے؟ میں صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم نواز شریف دونوں کا چہیتا تھا اور جب آرمی چیف جنرل آصف نواز نے میرا تبادلہ ملتان کور سے آرڈی ننس فیکٹری میں کیا تو دونوں نے مجھے تھپکی دی کہ فوری جوائننگ کی ضرورت نہیں ہم آرمی چیف سے بات کرتے ہیں۔ شاندار فوجی کیریئر، ادارے اور حکومت میں اثرورسوخ اور نوجوان افسروں میں مقبولیت نے مجھے یہ سوچنے کا موقع ہی نہ دیا کہ آرمی چیف کے سامنے لیفٹیننٹ جنرل اور لیفٹیننٹ دونوں برابر ہیں دونوں کو ریٹائرمنٹ کا خط ایک پھٹپھٹی والا لانس نائیک پہنچاتا ہے اور فوجی کیریئر ختم۔ آئی ایس آئی کی سربراہی کسی کو یاد رہتی ہے نہ آرمرڈ کور کی کمانڈ۔ ایک ہی لمحے میں سب قصۂ پارینہ، حمید گل مرحوم جب موڈ میں ہوتے تھے تو فوجی زندگی کی داستان مزے لے کر سناتے، اس ملاقات میں کہنے لگے جب میں بعض سابق فوجی افسروں کے انٹرویوز میں یہ پڑھتا ہوں کہ انہوں نے کور کمانڈر کانفرنس یا کسی محفل میں جنرل ضیاء الحق کی فلاں بات کو سب کے سامنے رد کر دیا، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکے منہ پر فلاں سخت بات کہہ دی تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔ فوج میں بلاشبہ مشاورت کار درج ہے، معاملات پر خوب بحث تمحیص ہوتی ہے مگر چیف کی کسی بات کو رد کرنا اور سخت بات منہ پر کہہ دینا یہ دیوانے کا خواب ہے۔
حمید گل مرحوم کی یاد مجھے گزشتہ روز سابق آئی جی پنجاب شعیب دستگیر اور لاہور پولیس کے سربراہ عمر شیخ کے مابین چپقلش اور بالآخر شعیب دستگیر کی لاہور بدری پر آئی، مجھے نہیں معلوم کہ عمر شیخ کی لاہور تعیناتی کے فیصلے پر شعیب دستگیر کو کیا تحفظات تھے اور وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے عمر شیخ کی تعیناتی پر پنجاب پولیس سے مشاورت کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی؟ مشاورت میں حرج کیا تھا، مگر ایک سینئر پولیس افسر کے طور پر ڈاکٹر شعیب دستگیر نے جو طرزعمل اختیار کیا وہ ناقابل فہم تھا، تعیناتی پر تحفظات کا قانونی اور اخلاقی حق شعیب دستگیر کو حاصل تھا، وہ تحریری طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکتے تھے، اپنے تحفظات کو اہمیت نہ ملنے پر اپنے منصب سے علیحدگی کی درخواست کرنا بھی ایک اصول پسند افسر کے شایان شان ہے مگر بچوں کی طرح روٹھ کر گھر بیٹھ جانا اور عمر شیخ کے خلاف جتھہ بندی کرنے والے ماتحت افسروں کی حوصلہ افزائی کرنا؟ نظم و ضبط کی پابند فورس کے سربراہ کو زیب دیتا ہے نہ کوئی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اس باغیانہ طرز عمل کو برداشت کر سکتا ہے۔ عمر شیخ کی طرف سے معافی تلافی کی کوششوں اور کھل کر معذرت خواہی کے بعد ویسے بھی ڈاکٹر شعیب دستگیر کو اپنے جونیئر افسر پر اخلاقی برتری حاصل نہیں رہی تھی لیکن آخری روز ان کا رویہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا اور عمران خان کو ایک ایسے نیک نام آئی جی پولیس کے بارے میں تلخ فیصلہ کرنا پڑا جسے سات ماہ قبل انہوں نے بڑے چائو سے پنجاب کے اکھاڑے میں اتارا تھا، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ دونوں کے لیے یہ فیصلہ آسان نہ تھا، وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت بلکہ زیادہ درست الفاظ میں عمران خان اور عثمان بزدار، اس حوالے سے بدنام ہیں کہ پنجاب میں وہ کسی اعلیٰ افسر بالخصوص چیف سیکرٹری اور آئی جی کو ٹک کر کام نہیں کرنے دیتے اور بیورو کریسی و پولیس میں مسلسل اکھاڑ پچھاڑ سے محکموں کی کارکردگی زوال پذیر، سرکاری افسروں کا مورال ڈائون اور تحریک انصاف کا ووٹر و ہمدرد کنفیوز ہے لیکن اس صورتحال کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کا مطلب رٹ آف گورنمنٹ کا خاتمہ اور باغیانہ روش کی حوصلہ افزائی ہوتا۔
عمران خان اور عثمان بزدار نے اپنا وزن ایک سینئر افسر کے مقابلے میں جونیئر افسر کے پلڑے میں نہیں ڈالا بلکہ اپنے احکامات کی خوش دلانہ تعمیل نہ کرنے والے اعلیٰ پولیس و انتظامی افسروں کو یہ پیغام دیا کہ ان میں سے کوئی ناگزیر ہے نہ حکم عدولی کے بعد قابل برداشت جبکہ میری ناقص رائے میں سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو بھی یہ اشارہ دیا ہے کہ انہیں اب بہترین کارکردگی سے اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنا ہو گا، آئی جی کی قربانی دے کر حکومت نے سی سی پی او لاہور کو فری ہینڈ دیا ہے وہ انعام نہیں امتحان ہے۔ لاہور میں قبضہ گروپوں، منشیات فروشوں، جوئے کے اڈوں کی سرپرستی صرف بااثر افراد نہیں کرتے بلکہ کرپٹ سیاسی مافیا بھی ان کا حصے دار اور پشت پناہ ہے۔ یہی قانون شکن بعض سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کے علاوہ پھنے خان پولیس افسروں کی مالی ضرورتیں پوری کرتے اور اپنا غیر قانونی، غیر اخلاقی کاروبار جاری رکھتے ہیں۔ عمر شیخ کو ان کے خاتمے کے لیے کرپٹ سیاسی مافیا کے علاوہ پولیس میں موجود ان کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالنا پڑے گا جو خاصہ مشکل کام ہے۔ میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز کی گرفتاری اور مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر لاہور پولیس کا جو طرزعمل سامنے آیا وہ ہرگز اطمینان بخش نہ تھا، قانون کی مٹی پلید ہوئی، پولیس کی بے بسی کا تاثر ابھرا اور ناقدین نے اسے ملی بھگت کا نتیجہ قرار دیا، یہ تاثر ابھرا کہ پولیس فورس اب صرف غریبوں اور کمزوروں کی سرکوبی کے قابل رہ گئی ہے۔ کسی طاقتور پر ہاتھ ڈالنا تو درکنار اسے منت سماجت کر کے پرامن طریقے سے نیب اور عدالت کے روبرو پیش کرنا بھی اس کے بس میں نہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے آئی جی پنجاب کے تبادلے کا معاملہ ہائی کورٹ میں اٹھا کر شعیب دستگیر اور ذوالفقار حمید کے نادان دوست کا کردار ادا کیا ہے معلوم نہیں کیوں؟
سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ایک با اصول آئی جی کے مقابلے میں سی سی پی او لاہور کو ترجیح دی اور نیا آئی جی ایسا افسر تعینات کیا جس کے ساتھ ایک سینئر افسر طارق مسعود یاسین نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سوال کا جواب مگر کسی دوست کے پاس نہیں کہ فوج میں اصول پسندی کا مظاہرہ کرنے والے افسر عدم مشاورت، سپر سیڈہونے پر چار دن گھر میں بیٹھتے ہیں نہ کسی دوسری جگہ پوسٹنگ کی درخواست کرتے ہیں۔ وہ اپنی اصول پسندی کی قیمت رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی صورت میں ادا کرتے ہیں اور یہی پیشہ وارانہ دیانتداری کا تقاضہ ہے۔ جس کا ہمارے سول اداروں میں فقدان ہے۔ کرپشن، ڈسپلن کی خلاف ورزی اور خلاف قاعدہ اعمال و افعال پر فوج میں جبری ریٹائرمنٹ سے لے کر مراعات کی ضبطگی اور دیگر سخت سزائوں کا رواج ہے مگر سول اداروں میں کڑوا کڑوا تھو میٹھا میٹھا ہپ سکہ رائج الوقت ہے نتیجہ معلوم۔ قانون طاقتوروں کے گھر کی لونڈی ہے اور پولیس ان کے روبرو بے بس۔ نئے آئی جی انعام غنی اگر سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر قانون شکن طاقتوروں اور دولت مندوں کو قانون کے شکنجے میں کس سکیں تو ہم خوش ہمارا خدا خوش۔ یہی توقع لاہور کے باسیوں کو عمر شیخ سے ہے۔ گریہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں۔