میاں نواز شریف کی "انقلابی" تقریر پر متوالے خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ خاموشی کا روزہ ٹوٹا، میاں صاحب کی رضاکارانہ زبان بندی ختم ہوئی، مداحوں اور متوالوں کو اور کیا چاہیے؟ ۔ مخالفین تقریر کو پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے بیانیے سے ہم آہنگ قرار دے رہے ہیں۔ پریشان مگر وہ بھی نہیں بعض ستم ظریفوں کا خیال ہے عمران خان اور آصف زرداری دونوں میاں صاحب سے ہاتھ کر گئے، فوج، عدلیہ، نیب اور دیگر قومی اداروں سے میاں صاحب کی نفرت ڈھکی چھپی نہیں۔ 12۔ اکتوبر 1999ء کے واقعہ نے میاں صاحب کے دل و دماغ کو بُری طرح متاثر کیا، آٹھ سالہ جلا وطنی نے نفسیات پر منفی اثرات ڈالے اور 2013ء میں اقتدار ملنے کے باوجود ان کی تحلیل نفسی نہیں ہوئی۔
آصف علی زرداری کو اندازہ تھا کہ میاں صاحب دل میں طوفان چھپا ئے بیٹھے ہیں، موقع ملا تو پھٹ پڑیں گے۔ چالاک سیاستدان نے اپنے برخوردار بلاول بھٹو کو آمادہ کیا کہ وہ میاں صاحب کو اے پی سی میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت اور تقریر کی دعوت دیں، اے پی سی کا اعلان کئی ہفتے قبل ہوا، دعوت نامے جاری کئے گئے مگر میاں صاحب کو زبانی دعوت مسلم لیگ(ن) کے وفد میں ردوبدل اور مریم نواز کی شرکت کے فیصلے کے بعد دی گئی۔ عمران خان کو اپوزیشن ہمیشہ سیاسی دائو پیچ سے نابلد حکمران ثابت کرنے پر کمربستہ رہتی ہے مگر یہ اطلاعات موصول ہونے کے بعد کہ میاں صاحب کے نادان مشیر جو انہیں بھاری مینڈیٹ کے باوجود وزیر اعظم ہائوس سے نکال کر قانون اور عوام کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتے ہیں، لندن پہنچ کر انہیں ہلّہ شیری دے رہے ہیں اور چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا، کا سبق پڑھا رہے ہیں عمران خان نے بھی ماسٹر سٹروک کھیلا اور انقلابی تقریر ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی بظاہر آصف علی زرداری اور عمران خان کا مقصد ایک ہی تھا۔ قومی اداروں فوج، عدلیہ اور دیگر کو یہ باور کرانا کہ ع
یہی شاہکار ہے تیرے ہنر کا
ایک مایوس، ضدی اور خود پرست شخص نے تہتر سالہ پاکستانی تاریخ میں ناکامیوں کا سارا ملبہ قومی سلامتی کے اداروں پر ڈالا، ہر مشکل اور ابتلا میں قوم جن کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھتی اور جھولیاں بھر کر دعائیں دیتی ہے، الزام یہ لگایا کہ یہی ادارے انتخابات سے قبل کسی کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ کرتے اور انتخابی جھرلو پھیرتے ہیں۔ 73ء میں سے پچاس سالہ تاریخ (1970ء سے 2018ئ) میں بھٹو زرداری خاندان کو مرکز اور صوبے میں سات اور شریف خاندان کو چھ بار اقتدار ملا، شریف خاندان جب بھی ابتلا کی زد میں آیا کبھی ایک اور کبھی دوسرے ادارے کے سینے میں دودھ اُترا اور وہ جیل و حوالات سے نکل کر پرتعیش محلات میں جابراجے۔ آج بھی وہ کسی ادارے کے جذبہ انسانی ہمدردی کے طفیل لندن کی آزاد فضائوں میں بیٹھ کر ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں مار رہے ہیں۔ انقلابی تقریر سے یہ تاثر ابھرا کہ شریف خاندان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے دروازے بند ہیں، ڈیل کا کوئی امکان باقی نہیں رہا اور مایوسی میں میاں صاحب نے دل کا سارا غبار نکالنے کے لئے وہ کچھ کہہ ڈالا جو نجی محفلوں میں کہتے اور خوشامدی مشیروں سے داد پاتے تھے ؎
میر ؔجمع ہیں احباب، درد دل کہہ لے
پھر التفات دل دوستاں رہے نہ رہے
یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ میاں صاحب کی تقریر پر سب سے زیادہ خوشی کے شادیانے بھارتی میڈیا بجا رہا ہے یا پاکستان میں فوج اور دیگر قومی اداروں سے ازلی بغض رکھنے والے اینکر و دانشور، مولانا فضل الرحمن کی ناراضگی قابل فہم ہے، جس حکومت میں وہ موجود نہ ہوں اس کے خلاف خروج کو وہ شرعی فریضہ سمجھتے ہیں۔ عمران خان نے جنرل اسمبلی میں اسلامو فوبیا پر تنقید کی، امریکہ و یورپ کے دوغلے پن کو آشکار کیا اور ناموس رسولﷺ پر عالمی قانون سازی کی تجویز پیش کی تو مولانا دھرنا دینے اسلام آباد پہنچ گئے۔ اب بھی اپوزیشن کی باسی کڑھی میں ابال اس وقت آیا جب امریکی صدر ٹرمپ الیکشن جیتنے کے لئے فلسطینی عوام کو قربانی کا بکرا بنانے پر تلے ہیں۔ یکے بعد دیگرے عرب ریاستیں صہیونی نیتن یاہو کی بیعت کر کے ٹرمپ کے لئے امن کا نوبل پرائز یقینی بنا رہی ہیں۔ عمران خان نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا برملا اعلان کیا، اسے قائد اعظم سے بے وفائی قرار دیا اور یہ تک کہہ ڈالا کہ میں روز قیامت اپنے اللہ کو کیا مُنہ دکھائوں گا، عمران خان کے اس موقف سے صرف امریکہ اور بھارت نہیں، اسرائیل اور اس کے نئے یار بھی ناراض ہیں اور ایک ایسی حکومت کو جسے ریاست کے تمام اداروں کا خوشدلانہ تعاون حاصل ہے عدم استحکام سے دوچار کرنا ہمارے دشمنوں کی اولین ترجیح۔ زبوں حال معیشت کے پیدا کردہ مسائل اور کورونا کی وبا سے نمٹنے کے بعد مختلف شعبوں میں موجودہ حکومت کی کارکردگی بہتر ہونے لگی ہے اور مارچ میں سینٹ الیکشن کے بعد پارلیمانی میدان میں حائل رکاوٹوں کو کامیابی سے پھلانگنے کے قابل ہو گی جس کا احساس ایک ایسی تجربہ کار مگر ناکردہ کار اپوزیشن کو ہے جس نے چھ سات بار اقتدار میں آ کر ملک کو دیوالیہ کر دیا۔ ماضی میں سینٹ کے انتخابات ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے پریشانی کا سبب بنتے تھے اس بار اپوزیشن حیران و سرگرداں ہے۔ اپوزیشن کی بدحواسی کا عالم یہ ہے کہ تین بار وزیر اعظم رہنے والے مقبول سیاستدان نے اپنی تقریر میں لاہور پولیس کے سربراہ عمر شیخ پر تنقید کر ڈالی اور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین عاصم سلیم باجوہ کو بھی نہ بخشا جو کوئٹہ میں صوبائی حکومت کی تبدیلی کے دوران اپنی والدہ کے علاج کے لئے امریکہ میں تھے اور جن کے بطور سی پیک سربراہ تقرر کو چینی حکومت اور سفیر ایک سے زاید بار سراہ چکے ہیں۔ ویسے بھی کوئٹہ میں تبدیلی کا کریڈٹ آصف زرداری لے چکے ہیں اور مولانا ان کے ساتھ تھے۔
اس اے پی سی اور میاں صاحب کی انقلابی تقریر کو اسٹیبلشمنٹ کے کسی مخصوص گروہ کی اشیر باد حاصل نہیں تو انجام مولانا کے دھرنے اور صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے مختلف نہ ہو گا۔ انقلابی تقریر نے عمران خان کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے اور بڑے میاں صاحب نے چھوٹے میاں کی بیڑی میں "وٹے" ڈال دیے، ان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔ میاں صاحب ملک میں واپس نہیں آتے اور مریم نواز بھی جیل اور عمر شیخ کے ڈر سے لاہور کی سڑکوں پر نہ نکلیں جس کا غالب امکان ہے تو پنجاب کی حد تک احتجاجی تحریک کو ع
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مر جھا گئے
کی تصویر سمجھیے۔ اجتماعی استعفوں سے انکار مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی غیر سنجیدگی کا مظہرہے اس بار شائد مولانا کے علاوہ میاں صاحب کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑے کہ پالا ان کا مقبول حکمران، تجربہ کار اسٹیبلشمنٹ اور شاطر اتحادیوں سے پڑا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے اذا یئس الانسان طال لسانہ(جب انسان مایوسی کا شکار ہو تو زبان درازی پر اتر آتا ہے) اسلام آباد ہائی کورٹ میں مفرور اور اشتہاری قرار دینے کی کارروائی میاں صاحب کی مایوسی کا اہم سبب ہے بیانئے کو تبدیل کرنے کے لئے اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف اختیار کرنا شائد مجبوری ہے کہ اندرونی نہ ہی بیرونی اسٹیبلشمنٹ دست شفقت بڑھائے، میاں صاحب کے نادان مشیروں نے اُن سے وہ غلطی کرائی ہے جو الطاف حسین سے سرزد ہوئی، باقی تاریخ ہے۔