اسرائیلی اخبار کی خبر جزوی طور پر درست لگتی ہے، سعودی عرب کی حکومت نے تردید کی ہے مگر تردید میں ایک ملاقات کا حوالہ دیا جس میں امریکی حکام شریک تھے، عرب امارات اور بحرین کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنا، سعودی حکومت کے مشورے اور رضا مندی کے بغیر ممکن نہ تھا، ان دونوں ریاستوں کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو پنجابی شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا ؎
تیری، میری اک جندڑی
تینوں تاپ چڑھے تے میں ہونگاں
عربی قہوہ پینے، شاہی دسترخواں سے لطف اندوز ہونے اور شاہ سلیمان یا شہزادہ محمد سلیمان کی باتیں سننے کا شوق کسی اسرائیلی یا امریکی اہلکار کو ریاض یاترا پر آمادہ نہیں کر سکتا، بوریا بستر سمیٹنے میں مصروف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عربوں کو کیا پٹی پڑھائی اور نیتن یاہو نے کیا خواب دکھائے کہ اچانک انہیں صہیونی اسرائیلی چچا زاد بھائی نظر آنے لگے، کسی کو مظلوم فلسطین یاد رہا نہ 1949ء سے اب تک ستم رسیدہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اور نہ وہ مقبوضہ علاقے جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے باوجود اسرائیل چھوڑنے کو تیار نہیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان کی پھرتیلی شخصیت اور عجلت پسندانہ اقدامات دیکھ کر مجھے لیبیا کے مرد آہن معمر القذافی کا جواں سال صاحبزادہ سیف الاسلام یاد آ جاتا ہے، تعلیم یافتہ، جدت پسند اور امریکہ و یورپ کی آنکھوں کا تارا، سیف الاسلام قذافی نے امریکہ کی پڑھائی ہوئی پٹی کے مطابق باپ کو آمادہ کیا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام ختم کر کے ملک میں ترقی پسندانہ اصلاحات کرے، امریکہ دشمنی چھوڑ دے اور توجہ کا مرکز لیبیا کو بنائے، لیبیا فرسٹ۔ حکمرانی کا چالیس سالہ تجربہ رکھنے اور امریکہ و یورپ کی چالبازیوں سے واقف ہونے کے باوجود معمر القذافی بیٹے کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئے، ایٹمی پروگرام رول بیک کیا، لیبارٹریوں میں پڑا تحقیقی سازو سامان جہازوں میں بھرا اور امریکہ روانہ کر دیا ؎
سپردم بتو، مایہ خویش را
تو دانی، حساب کم و بیش را
رضا شاہ پہلوی کا انجام یاد رکھا نہ صدام حسین کے حشر سے عبرت حاصل کی، چند برسوں میں لیبیا عراق کی طرح کھنڈرات کا ڈھیر نظر آنے لگا، خوشحال اور خود کفیل لیبیا عدم استحکام اور معاشی پسماندگی کا نمونہ بن گیا۔ سعودی عرب کے موجودہ حکمران شاہ فیصل جیسی ترقی پسندانہ سوچ کے مالک ہیں نہ اسلامی استقامت اور عرب دلیری کا مرقع مگر حرمین الشریفین کے صدقے عالم عرب اور عالم اسلام میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، سعودی حکمرانوں کی عزت و وقار اس خاندان کی اسلامی شعائر سے وابستگی اور حرمین کی تقدیس و احترام برقرار رکھنے کے سبب ہے مگر شہزادہ سلمان ہر وہ اقدام کرنے پر تُلے نظر آتے ہیں جس کا نتیجہ سعودی عرب کو متحدہ عرب امارات، اور قطر کی سطح پر لانا ہے، جوئے کے اڈوں، شراب خانوں کی تعمیر اور عرب جاہلیت کے زیر اثر اسلام دشمن صیہونی یہودیوں کو چچا زاد بھائی جبکہ کلمہ گو ایران کو دشمن ماننے اور منوانے کی تدبیر۔
ترکی میں کمال اتاترک کے جانشینوں نے اسرائیل کو ابتدا ہی میں تسلیم کر لیا تھا، بعدازاں اردن، مصر اور کئی دیگر مسلم ممالک نے بھی مگر ان میں سے کوئی یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ انہیں کیا سیاسی، معاشی اور اقتصادی فائدہ پہنچا۔ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد امریکہ کو تو شائد خوش کرے مگر عالم اسلام کی قیادت سے خود کو معزول سمجھے اور غالب امکان یہ ہے کہ شائد امریکہ کی یہودی لابی یہ معرکہ سر کرنے کے بعد مضبوط و مستحکم سعودی حکومت کو صدام حسین اور معمر القذافی کے انجام سے دوچار کرنے میں آسانی محسوس کرے کہ اپنے مرکز سے کٹ کر، کوئی قوم اور ریاست اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہتی، یہ صدیوں کا تجربہ ہے اور تاریخ کا چشم کشا سبق ؎
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنان شہر
اتنے نہ در بنائو کہ دیوار گر پڑے
صیہونی یہودیوں کے زیر اثر امریکہ و مغرب کا اسلام اور مسلمانوں سے تعصب اور بغض اگرچہ ماضی میں بھی ڈھکا چھپا نہ تھا، 9/11کے بعد مگر یہ دوپہر کے سورج کی طرح آشکار ہوا، فیس بک سماجی رابطے کا پلیٹ فارم ہے مگر اس کے تعصب کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی کے انتقال پر پوسٹ کرنے والے لاکھوں عاشقان رسولؐ کے اکائونٹ معطل کر دیے ہیں۔ یہی سلوک کشمیر، طالبان کا لفظ لکھنے پر جاری ہے جبکہ مسلمانوں کے آقا و مولاﷺ اور اسلام کے خلاف توہین آمیز پوسٹوں پر کوئی پابندی نہیں اور آزادی اظہار کی آڑ میں اس شر انگیزی کو خوش دلی سے برداشت کیا جاتا ہے۔ نسلی امتیاز کے عالمی قوانین تعبیر و تشریح کے مطابق ایسے مضامین، تصاویر اورخاکوں کی اشاعت ممنوع ہے جس سے کسی فرد یا قوم کی توہین کا پہلو نکلتا ہو مگر اس کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہوتا ہے کسی اسلام دشمن پر نہیں۔ ع
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ صفاجات
سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو پاکستان پر دبائو بڑھے گا، عین ممکن ہے کہ پاک سعودی تعلقات میں حالیہ سرد مہری اور شریف و زرداری خاندان کی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے عمران خان کی حکومت کے علاوہ پاک فوج کی قیادت کے خلاف مہم جوئی کے ڈانڈے بھی اسرائیل سعودی عرب تعلقات میں گرم جوشی سے ملتے ہوں کہ میاں نواز شریف، بلاول اور مولانا فضل الرحمن بار بار حکومت پر دوست ممالک سے تعلقات بگاڑنے کا الزام عائد کر رہے ہیں، امریکہ اور سعودی عرب کے مشترکہ دبائو کا مقابلہ کرنا آسان نہیں لیکن اگر عمران خان اور فوجی قیادت نے مادی مفادات کے بجائے اصولی موقف اپنایا اور روز قیامت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے روبرو جوابدہی کے احساس سے سرشار رہے تو یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا، امریکہ، بھارت کی طرح اپنے اندرونی تضادات کی بنا پر زوال پذیر ہے اور اسرائیل امریکی پشت پناہی کے بغیر کاغذ کا پھول۔ بے رنگ و بو، محض سراب، فقط فریب نظر ؎
کاغذ کے پھول، سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برون شہر تو بارش نے آ لیا
فی الحال مگر ہمارے عرب دوستوں کو کاغذی پھول سر پر سجا کر دنیا کے سامنے اٹھلاتے، لہراتے، بل کھاتے رونمائی کا شوق ہے، خدا خیر کرے، آدمی خودکشی پر تل جائے تو کون روک سکتا ہے، سیف الاسلام قذافی کو کون روک سکا، اور معمر القذافی دردناک انجام سے کیسے بچتا۔ اب معلوم نہیں کس کی باری ہے۔