"اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی" کہ قائد محترم میاں نواز شریف لاہور میں 13دسمبر کو پی ڈی ایم کا ایسا عدیم النظیر جلسہ چاہتے ہیں جس کے سامعین کی تعداد علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے میں شریک سوگواروں سے زیادہ ہو، یقین تو نہیں آتا کہ ایک تجربہ کار سردوگرم جشیدہ سیاستدان متحدہ اپوزیشن کے جلسے میں شریک سامعین کا موازنہ ایک درویش کی نماز جنازہ کے اجتماع سے کرنا چاہتے ہوں، سیاسی اجتماع اور نماز جنازہ میں کیامماثلث اور کیسا موازنہ مگر راوی کا اصرار ہے کہ بات سچ ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی کی نماز جنازہ میں شریک ہونے والے اپنے مرشد کی مقبولیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے جمع ہوئے تھے نہ انہوں نے کسی حریف کو متاثر و مرعوب کرنے کی نیت سے جوق در جوق مینار پاکستان کا رخ کیا۔ کوئی دُنیوی لالچ نہ ادنیٰ جذبات در مصطفی (ﷺ) کے چوکیدار کی الفت اور روز قیامت اپنے آقا و مولا تاجدار ختم نبوت ؐکے روبرو سرخرو ہونے کی خواہش انہیں داتا کی نگری میں کھینچ لائی اور فرض کفایہ کی ادائیگی کے بعد وہ درود و سلام کاورد کرتے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ؎
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
آپ چاہیں تو فیض صاحب سے معذرت کے ساتھ "درد "کی جگہ "عشق" پڑھ لیں۔
جس دوست نے یہ خبر دی میں نے انہیں ایک لطیفہ نما واقعہ سنایا جو ڈیرہ غازی خان میں زبان زدعام ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے سابق صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری کے مقابلے میں جس امیدوار کو ٹکٹ دی اس کا تعلق بھی لغاری قبیلے سے ہے۔ انتخابی نتائج سامنے آئے تو پیپلز پارٹی کے امیدوار کی پوزیشن تیسری تھی۔ دوسری پوزیشن پر مسلم لیگ ن کے نامزد اُمیدوار اور جمعیت اہلحدیث کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حافظ عبدالکریم رہے۔ دو اڑھائی سال بعد سردار فاروق خان لغاری فوت ہو گئے، ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کرنے کے لئے پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر اسی اُمیدوار کا انتخاب کیا، کہتے ہیں کہ ایک دن کنوینسنگ پر جاتے ہوئے اُمیدوار موصوف نے اپنے ڈرائیور سے پوچھا کہ 2008ء میں تو تیس پینتیس ہزار ووٹ پڑے تھے اس بار مجھے کتنے ووٹ ملیں گے؟ ڈرائیور نے ٹال مٹول کی تو سردار نے اصرار کیا کہ سچ سچ بتائو، اس بار مجھے زیادہ ووٹ کیوں نہیں ملیں گے جبکہ مرکز میں ہماری حکومت ہے اور یوسف رضا گیلانی صاحب نے میرے حلقے میں ترقیاتی کام بھی کرائے ہیں، ڈرائیور بے چارہ مرتا کیا نہ کرتا، بالآخر بول ہی پڑا "گودا سئیں، پچھلی واری بی بی بے نظیر بھٹو شہید تھی گئی تو تساکوں ڈھیر سارے ووٹ پے گئے، ہن تساں خودوی شہیدتھی ونجو تاں تریہہ پینتریں ہزار ووٹ نہیں مل سکدے(سردار صاحب!پچھلی بار بی بی بے نظیر بھٹو شہید ہو گئی تھیں جن کے طفیل آپ کو اتنے زیادہ ووٹ مل گئے اب آپ خود بھی شہادت کے مرتبے پر فائز ہو جائیں تو تیس پینتیس ہزار ووٹ ملنا مشکل ہے) دوست ہنس دیے۔ ہم چپ رہے۔
13دسمبر کو پی ڈی ایم کا لاہور میں جلسہ شرکاء کے اعتبار سے کتنا بڑا اور پرجوش ہو گا قبل از وقت کچھ کہنا مشکل ہے، حجام سے کسی نے پوچھا کہ میرے سر کے بالوں کا رنگ کیسا ہے، جواب دیا ابھی قینچی چلنے لگی ہے سارے بال آپ کی آنکھوں کے سامنے پڑے ہوں گے خود ہی دیکھ لینا سیاہ ہیں یا بھورے اور سفید،۔ تیرہ دسمبر کتنا دور ہے، فرض کر لیں کہ مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور جمعیت علماء اہلحدیث(اتحاد میں قابل ذکر جماعتیں یہی چار ہیں باقی تین میں نہ تیرہ میں ) ایڑی چوٹی کا زور لگا کر مینار پاکستان کا وسیع سبزہ زار سامعین سے بھر لیتی ہیں تو کیا ہو گا؟ 1986ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا جلسہ تاریخی تھا جس کی مثال 2011ء تک دی جاتی تھی(بعدازاں عمران خاں اور ڈاکٹر طاہر القادری نے بڑے اجتماعات کا ریکارڈ قائم کیا) مگر جلسے کے بعد کیا ہوا، بے نظیر بھٹو یہ مجمع دیکھ کر اس غلط فہمی کا شکار ہو گئیں کہ وہ جب چاہیں محمد خان جونیجو کی حکومت کو عوامی طاقت کے زور پر چلتا کر دیں، 1988ء آتے آتے محترمہ اپنی تمام احتجاجی تحریکوں کی ناکامی کے بعد اس وزیر اعظم کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو تیار ہو گئیں جسے دختر مشرق ضیاء الحق کی سلیکشن، غیر جمہوری اور غیر منتخب کہتے نہ تھکتی تھیں، حالانکہ محمد خاں جونیجو نہ تو عمران خان کی طرح عوامی مقبولیت کے دعویدار تھے نہ کسی مضبوط سیاسی جماعت کے بل بوتے پر اقتدار میں آئے اور نہ ان کے سیاسی پیرو کاروں کا وسیع اور پرجوش حلقہ تھا، اگر جنرل ضیاء الحق اپنے پائوں پر کلہاڑی نہ مارتے، حکومت اور پارلیمنٹ کو برخاست نہ کر دیتے تو اگلا الیکشن بھی محمد خان جونیجو جیتنے کی پوزیشن میں تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف 1988ء سے 1999ء تک باری باری ایک دوسرے کے خلاف احتجاجی تحریکیں چلاتے رہے اور عمران خان نے 2014ء میں 126دن کا دھرنا دیا مگر حکومت کو رخصت کوئی بھی مقبول سیاسی رہنما عوام کے جم غفیر، احتجاجی دھرنے اور انقلابی تقریروں سے نہ کر سکا، یہ بھاری پتھرجب بھی اٹھایا اسٹیبلشمنٹ نے اٹھایا اور کئی سال تک پاکستان جمہوریت کی تلاش میں سرگرداں رہا، چند ہفتے قبل سیاسی جماعتوں کے لیڈران کرام کی جو نشست آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کے ساتھ ہوئی اس میں گلگت بلتستان کے مستقبل کے سوال پر تبادلہ خیال کے بعد ہمارے جمہوریت پسند سیاستدانوں نے سوالات کئے اور مفصل و مدلل جواب بھی سنے، عینی شاہدین کے مطابق ہماری ٹاپ لیڈر شپ کو یہ بھی سننے کو ملا کہ سیاسی تصادم کے نتیجے میں اگر خدانخواستہ منتخب جمہوری حکومت رخصت ہوئی تو آئندہ پندرہ بیس سال تک پھر جمہوریت کو بھول جائیں، یہ جملہ سن کر کسی سیاستدان نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا نہ واک آئوٹ کی ضرورت محسوس کی، شائد اپوزیشن رہنما یہ سننے کے خواہشمند تھے یا اسی انہونی کے منتظر ہیں۔
13دسمبر کو جلسہ ہوگا چھوٹا یا بڑا، پھر لانگ مارچ ہو گا، پچھلے سال مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ سے ملتا جلتا یا اس سے کہیں زیادہ پرجوش و پرتشدد، نتیجہ مگر کیا نکلے گا؟ علامہ خادم حسین رضوی کے دونوں دھرنوں کی مثال دی جاتی ہے جو حکومت کے ساتھ معاہدے اور مطالبات کی پذیرائی پر منتج ہوئے مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ علامہ خادم حسین رضوی دونوں بار نہ تو وزیر اعظم کے استعفے اور حکومت کی رخصتی کا ایجنڈا لے کر فیض آباد پہنچے نہ ان کے کارکن عافیت پسند تھے۔ ؎
بس اتنے ہی جری تھے حریفان آفتاب
چمکی ذرا سی دھوپ تو کمروں میں آ گئے
جنگ سیاسی ہو، قانونی یا اعصابی، جیتنے کے لئے اہم ترین ہتھیار اپنے موقف کی صداقت اور اخلاقی ساکھ ہوتی ہے، پی ڈی ایم کی تمام قابل ذکر جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور موجودہ پارلیمنٹ کے وجود کی منکر، میاں نواز شریف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف آتشیں تقریریں فرما رہے ہیں جبکہ چند ماہ قبل اپنے گگھ دام ارکان پارلیمنٹ کو ان کی توسیع ملازمت کے حق میں غیر مشروط ووٹ دینے پر مجبور کر چکے اور ستمبر کے آخر تک محمد زبیر کے ذریعے فوجی قیادت سے مراعات کے طلب گار رہے، پاکستان میں ہجوم اور دھرنوں کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی کا رواج پڑ گیا تو ہر چھ ماہ سال بعد کوئی نہ کوئی لیڈر جتھہ لے کر اسلام آباد میں بیٹھا حکومت کی رخصتی کا مطالبہ کر رہا ہو گا اور حکومت و ریاستی اداروں کو سابقہ روایات کے مطابق یہ مطالبہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ لاہور کے جلسے سے عمران خان کی رخصتی کا امکان تو نہ ہونے کے برابر ہے البتہ کورونا پھیلنا یقینی، خدا نہ کرے کہ علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کے نماز جنازہ میں شریک سوگواروں کے برابر مجمع اکٹھا کرنے کے شوق میں اپوزیشن لاہور اور پنجاب میں کورونا کا موذی مرض پھیلا بیٹھے کہ جہاں سماجی فاصلہ غائب، وہاں کورونا وائرس حاضر، یقین نہ آئے تو کسی طبی ماہر سے پوچھ لیجیے۔