اپوزیشن کی اے پی سی اور میاں نواز شریف کی انقلابی تقریر دو خفیہ ملاقاتوں کی مار ثابت ہوئی جس میں سے ایک کو اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے مان لیا، دوسری ملاقات شیخ رشید احمد منوانے پر تُلے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ فی الحال مسلم لیگ اس ڈر سے انکار پر مجبور ہے کہ جونہی اس نے آرمی چیف یا آئی ایس آئی چیف سے دوسری ملاقات کا اقرار کیا، کایاں شیخ صاحب تیسری ملاقات کا ذکر لے بیٹھیں گے یہ شیخ صاحب کا پرانا طریقہ کار ہے۔ 1988ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کو نجانے کیا سوجھی اپنے سیکرٹری جنرل اور سابق آرمی چیف جنرل(ر) ٹکا خان کو راولپنڈی میں شیخ صاحب کے مدمقابل امیدوار نامزد کر دیا، سیاست میں نووارد ٹکا خان کو زچ کرنے کے لیے شیخ نے ایک تو ان کا نام بگاڑ کر ٹوکا خان رکھ دیا یہ مشرقی پاکستان میں ٹکا خان کے کردار پر طنزتھا، دوسرے روزانہ انہیں چیلنج کرتے کہ وہ بغیر گائیڈ کے راولپنڈی کے فلاں چوک میں پہنچ کر دکھائیں، جنرل صاحب یہ ثابت کرنے کے لیے کہ مجھے راولپنڈی کے طول و عرض کا بخوبی علم ہے، چوک میں پہنچ کر اعلان کرتے کہ شیخ رشید آ کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو، ایک بار شیخ رشید نے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ٹکا خان کسی غریب ووٹر سے ہاتھ ملانے کے بعد لکس صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں تو جنرل نے تردیدی بیان جاری کیا کہ شیخ رشید غلط کہتا ہے میں لکس صابن استعمال نہیں کرتا۔
خیر یہ جملہ معترضہ تھا! خفیہ ملاقاتیں افشا ہونے کے بعد عوام تو درکنار مسلم لیگ کے باشعور اور دیانتدار کارکن بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہمیں انقلاب اور سول بالادستی کا فلسفہ پڑھانے والے خود اپنے اور قائد قوم، قائد انقلاب کے لیے فوجی قیادت سے رعایتیں مانگتے پھرتے ہیں۔ ؎
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا مانگتے ہیں
باغیانہ گفتگو کا مقصد بھی رائے عامہ منظم کرنا یا خاکی اسٹیبلشمنٹ کو دبائو میں لا کر سیاست سے بے دخل کرنا نہیں بلکہ احتساب کی بساط لپیٹنا، عمران خان کی منتخب حکومت کا بوریا بستر گول اور ماورائے عدالت نواز شریف و مریم نواز کو انتخابی عمل میں شرکت کا موقع فراہم کرنا ہے، جس پر تاحال راولپنڈی تیار ہے نہ اسلام آباد۔ ماضی میں دو تین بار شریف خاندان کی Good cop Bad cop پالیسی کامیاب رہی، میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھا تے، قلمی کارندے انہیں عہدِ جدید کے چی گویرا کے طور پر پیش کرتے اور شہباز شریف چودھری نثار علی خان کے ساتھ مل کر رات کے اندھیرے میں کبھی جی ایچ کیو اور گاہے کسی دوسرے طاقتور کے در دولت پر حاضری دیتے، اپنی وفاداری کا یقین دلاتے، آئندہ کوئی غلطی نہ کرنے کا عہد کرتے اور میاں صاحب کو سمجھانے بجھانے کا "ہوم ورک" لے کر کامرانی کے شادیانے بجاتے واپس آ جاتے۔ جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر کے بعد ایک محفل میں بتایا کہ جاتی عمرا میں ایک خفیہ اجلاس میں مجھے ہر صورت میں برطرف کرنے کا فیصلہ ہوا، میاں شہباز شریف اور نثار علی خان میرے پاس آئے اور بتایا کہ بڑے میاں صاحب(میاں محمد شریف مرحوم) نے ہمیں یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ آج کے بعد تمام اختلاف ختم، ایک نے کہا میں وضو سے ہوں، کبھی جھوٹ نہیں بولتا میاں نواز شریف کے دل میں آپ کے خلاف کوئی بغض نہیں، دوسرے کا کہنا تھا رزق میرے سامنے پڑا ہے میں سچی بات کروں گا میاں نواز شریف نیک نیتی سے آپ کے ساتھ مل جل کر چلنا چاہتے ہیں۔ آپ بھی اپنے دل سے ساری باتیں نکال دیں۔ یہ واقعہ سنا کر جنرل نے کہا: "یہ دونوں مجھے بے وقوف بنا رہے تھے، نہیں جانتے تھے کہ جاتی عمرا کے اجلاس کی ساری کارروائی میرے علم میں ہے اور میں ان کی کسی بات پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں "۔
حالیہ ملاقاتوں میں بھی یہ حربہ آزمایا گیا، خیال یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے تنگ آ چکی ہے، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومتی بل کی میاں نواز شریف نے اپنے "ووٹ کو عزت دو" بیانیے پر خاک ڈال کر غیر مشروط حمایت کی اور کسی رکن کو ایوان تو درکنار پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سوال اٹھانے کی اجازت نہ دی اور FATFکے حوالے سے قانون کی منظوری ریاست کی مجبوری ہے۔ یوں ریاستی اداروں کو منتخب حکومت سے دور کرنے اور زیادہ سے زیادہ مراعات کے حصول کا یہ بہترین موقع ہے مگر موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق سیکھا ہے، وہ چکنی چپڑی باتوں میں آئی نہ وفاداری کے دعوئوں پر یقین کیا اور نہ کھلی محاذ آرائی کی صورت میں اندرون و بیرون ملک دما دم مست قلندر کی دھمکیوں کی پروا کی، چودھری نثار علی خان کی جگہ اب خواجہ آصف لے چکے ہیں مگر اہالیان راولپنڈی و اسلام آباد پارٹی میں دونوں کی ساکھ، گرفت اور میاں نواز شریف و مریم نواز کے روبرو وقعت سے واقف ہیں سو حالیہ ناکام ملاقاتوں کا احوال سن کر میاں نواز شریف نے ہرچہ بادا باد اور اے پی سی کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا مگر ایک خفیہ ملاقات کا راز فاش ہونے پر اے پی سی کی ساری کارروائی اور میاں صاحب کی انقلابی تقریر کے اثرات زائل ہوگئے، عوام نے جان لیا کہ انقلابی تقریروں کے مخاطب ہم نہیں، شہری جمہوری حقوق کے طلبگار ان کے اپنے بقول غیر جمہوری قوتوں سے مراعات کے طلبگار ہوتے ہیں اور نہ حقیقی جمہوریت پسند ہاتھی کے دانت ہوتے ہیں، کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ محلاتی سازشیں اور رات کے اندھیرے میں ملاقاتیں کسی جمہوریت پسند کو زیب نہیں دیتیں، یہ سول بالادستی اور جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کا حصہ نہیں۔ فریب دہی کی وارداتیں ہیں۔
جماعت اسلامی اور سراج الحق نے غالباً اسی بنا پر اے پی سی سے کنارہ کشی اختیار کی کہ اسلام آباد کے ایک میس میں ہونے والی ملاقات میں انہیں اسٹیبلشمنٹ کا پیغام سمجھ آ گیا اور دونوں بڑی جماعتوں کے اصل عزائم، ذاتی و خاندانی مفادات کے تحفظ کی جدوجہد کا پتہ چل گیا۔ کشمیر، افغانستان اور شرق اوسط میں جاری کشمکش اور پاکستان پر اس کے مثبت و منفی اثرات سے جماعت کی قیادت آگاہ ہے اور وہ نیب کو مطلوب بھی نہیں، کوئلوں کی دلّالی سے دور رہیں، مریم نواز شریف نے آرمی چیف سے مسلم لیگی لیڈروں کی ملاقات کو یہ کہہ کر رد کیا کہ ان میں سے کوئی نواز شریف کا نمائندہ نہیں تھا، یہ بھی کہا کہ سیاستدانوں کو جی ایچ کیو جانے کی ضرورت نہیں، سکیورٹی امور پر تبادلہ خیال پارلیمنٹ میں ہونا چاہئے، جس کا مطلب ہے کہ وہ میاں شہباز شریف، احسن اقبال، خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی میں سے کسی کو نواز شریف کا نمائندہ سمجھتی ہیں نہ ان کی کسی یقین دہانی کو قابل اعتبار، میاں صاحب نے اے پی سی کی باغیانہ تقریرمیں شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کی دو سالہ جدوجہد پر پانی پھیرا تھا، مریم نواز نے آئندہ کے لیے سبھی دروازے بند کر دیئے۔ شریف خاندان کے بیرونی ضامن پہلے ہی اپنا ذمہ توش پوش کر چکے ہیں۔ گویا بڑے میاں صاحب کے پاس آل آئوٹ وارکے سوا کوئی آپشن باقی نہیں، کیا مسلم لیگی ارکان اسمبلی بھی اس بیانیے سے متفق ہیں اور میاں شہباز شریف کے علاوہ ان کے قریبی ساتھی خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور رانا تنویر بھی کشتیاں جلا کر ریاستی اداروں کے خلاف کھلی جنگ میں قائد محترم کا ساتھ دیں گے یا شیخ رشید کے بقول واقعی نون سے شین کا ظہور قریب ہے؟ یہ ہنڈرڈ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ ریاستی اداروں کے خلاف کھلی جنگ مسلم لیگ کا مزاج ہے نہ پنجاب کے عوام کی سرشت، میاں صاحب عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کو لندن سے ہی للکاریں گے کہ وطن واپسی اور جیل یاترا پر ان کی طبیعت آمادہ ہو گی نہ صحت اجازت دیتی ہے۔ جس تحریک کی قیادت مولانا فضل الرحمن کریں گے اس کا انجام معلوم۔ ؎
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملّا ہوں غازی