ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں بیس پریذائیڈنگ افسروں کی پولنگ بیگز سمیت گمشدگی سے 1977ء کے انتخابات کی یاد تازہ ہو گئی، 1985ء کے بعد جنرل ضیاء الحق کی نرسری اور موروثی سیاست کے پنگھوڑے میں تربیت پانے والے سیاستدان جب "تاریخی دھاندلی" اور" ووٹ چوری "کا شور مچاتے ہیں تو 1977ء کے انتخابات میں بدترین جھرلو کا نظارہ کرنے والے لوگ سرپیٹ کر رہ جاتے ہیں، انہیں بونے سیاستدانوں اور ان کے ہمنوائوں کی بیان بازی پر دکھ ہوتا ہے کہ 1988ء سے 2018ء تک استعمال ہونے والے ہتھکنڈوں کو بھول کر یہ کس تاریخی دھاندلی کا ذکر کرتے ہیں، 1988ء سے 2018ء تک ہونے والے انتخابات میں درجنوں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے، پری پول رگنگ کے الزامات میں بھی کافی وزن ہے اور مداخلت کی دہائی بھی بے جا نہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پولنگ ڈے پر وسیع پیمانے پر دھاندلی کا ارتکاب 1977ء میں ہوا یا پھر 2013ء میں جسے آصف علی زرداری نے آر اوز کا الیکشن قرار دیا تھا۔ 1977ء کے انتخابات کو تو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے جن کی جمہوری خدمات اور ایمانداری کا ڈھنڈورا پیپلز پارٹی کے علاوہ اب میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور ان کے پیروکار بھی ڈھٹائی سے پیٹتے ہیں، پورا الیکشن ہی پولیس، انتظامیہ اور غنڈوں کے ذریعے اچک لیا جس کا اعتراف اس وقت کے نیک نام چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سجاد احمد جان نے ان الفاظ میں کیا"ہم نے محنت سے دکان سجا ئی تھی، ڈاکوئوں نے آ کر دھونس دھاندلی سے لوٹ لی، ہم کیا کرتے" ڈسکہ کے تئیس سٹیشنز کے پولنگ بیگز اور پریذائیڈنگ افسروں کی گمشدگی کا موازنہ 1977ء کے انتخابات سے کیا جائے تو گمشدہ سرکاری اہلکار ہی نہیں جیتنے اور ہارنے والے دونوں امیدوار اور ان کے حامی پرلے درجے کے اناڑی نظر آتے ہیں، جواحمق اب تک گمشدگی کا معقول بہانہ بھی پیش نہیں کر سکے۔
1977ء کے انتخابات میں پریذائیڈنگ افسر کے طور پر خدمات انجام دینے والے ایک نیک نام استاد نے بعدازاں بتایا کہ ہم ضلع راجن پور کے جس دور دراز قصبے میں پولنگ کی دکان سجانے پہنچے وہاں ہمارا استقبال مقامی انتظامیہ کے علاوہ علاقے کے بڑے جاگیردار اور پیپلز پارٹی کے اُمیدوار کے سپورٹرز نے کیا، ہمارے قیام کا انتظام ایک سکول میں کیا گیا تھا جس کے دوسرے حصے میں پولنگ سٹیشن قائم تھا، نماز مغرب سے پہلے ہمیں بتایا گیا کہ عشائیہ کا اہتمام سردار صاحب کے ایک سپورٹر کی طرف سے کیا گیا ہے ہم نے انکار کیا کہ یہ ہماری غیر جانبداری کے منافی ہے مگر مقامی انتظامیہ نے ہمیں دلاسہ دیا کہ کوئی حرج نہیں، مقامی روایات کے مطابق کھانے کی دعوت کو رد کرنا سردار صاحب کی توہین کے مترادف ہے، کھانا کھلانے والوں کی طرف سے آپ پر دبائو ڈالا جائے گا نہ کوئی فرمائش ہو گی، مرتے کیا نہ کرتے عملے کے ارکان نماز مغرب پڑھ کر ڈیرے پر پہنچ گئے، وہاں جا کر پتہ چلا کہ صرف عشائیے ہی نہیں ہمارے قیام کا پرتکلف اہتمام کیا گیا ہے، کھانا کھا کر رخصت چاہی تو ہمیں بتایا گیا کہ آپ یہاں آرام کریں کل پولنگ سٹیشن پر جانے کی بھی چنداں ضرورت نہیں، البتہ پولنگ مکمل ہونے پر نتیجہ فارم پر آپ کے دستخطوں کی ضرورت ہو گی جو آپ سے لے لئے جائیں گے، آپ شریف آدمی ہیں، استاد کے طور پر قابل احترام، پولنگ سٹیشن پر غنڈے بدمعاش آپ کو پریشان کر سکتے ہیں لہٰذا اس محفوظ قیام گاہ پر قیام زیادہ مناسب ہے، وزیر اعظم اورچاروں وزراء اعلیٰ اس انتخاب میں بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مدمقابل امیدوار مولانا جان محمد عباسی تو باقاعدہ اغوا ہوئے تاکہ کاغذات جمع نہ کرا سکیں اس دور میں لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر خالد کھرل بعدازاں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں وفاقی وزیر رہے، اس قدر وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی کہ پی این اے سے مذاکرات کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے اعتراف کر لیا اور نئے انتخابات کرانے پر آمادہ ہو گئے مگر طے شدہ معاہدہ سے مکرنے کے چکر میں مارشل لاء لگوا بیٹھے، اقتدار کے ساتھ جان بھی گنوائی۔
1977ء کے انتخابات میں تاریخی جھرلو کا خوف تھا کہ کسی حاضر وزیر اعظم کے بجائے آئندہ انتخابات نگران حکومت کے ماتحت کرانے کا فیصلہ ہوا، الیکشن کمشن کو اختیارات دیے گئے اور نگران حکومت کے ارکان کو انتخابات میں حصہ نہ لینے کا پابند کیا گیا ورنہ اندیشہ یہی تھا کہ ہر بار وزیر اعظم، وزراء اعلیٰ اور کابینہ کے ارکان بلا مقابلہ کامیابی کو ترجیح دیں گے، 1988ء اور 1990ء کے انتخابات میں ایسا ہوا بھی کہ نگران حکومتوں کے وزیر مشیر سرکاری وسائل اور اختیارات کو بروئے کار لا کر الیکشن جیت جاتے، 1988ء کے انتخابات میں مثبت نتائج حاصل کرنے کے لئے سرکاری سرپرستی میں آئی جے آئی کا متحدہ محاذ تشکیل دیا گیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل زندگی بھر اس کی تخلیق میں اپنے بنیادیکردار کا اعتراف کرتے رہے لیکن چونکہ ان انتخابات کا فائدہ شریف خاندان اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں نے اٹھایا بنا بریں کوئی تذکرہ نہیں کرتا۔ 2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں فرق یہی ہے کہ اول الذکر میں میاں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے اور مولانا فضل الرحمن ان کے اتحادی قرار پائے جبکہ آصف علی زرداری نے اسے آر اوز کا الیکشن قرار دینے کے باوجود عمران خان کی طرف سے دھاندلی کے الزامات، احتجاج، لانگ مارچ اور دھرنے کی مخالفت کی اب مگر وہ بھی میاں صاحب کے ہمنوا ہیں، سیاستدانوں کی اسی دوعملی کے باعث اپوزیشن اخلاقی ساکھ سے محروم ہے۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب بھی اسی طرح کے روائتی انتخابات تھے جیسے ہمارے ہاں رواج ہے، جوڑ توڑ، دھن، دھونس، دھاندلی، غنڈہ گردی، قتل و غارت گرمی اور پولنگ بیگز کی گمشدگی، پریذائیڈنگ افسروں کا اغوا، وغیرہ وغیرہ۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے ابھی تک اغوا اور گمشدگی کے حوالے سے کوئی مصدقہ تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آئی، کسی جماعت، گروہ، امیدوار یا سپورٹر کی ذمہ داری فکس نہیں ہوتی، حکومت کو اس قدر بھونڈا قدم اٹھانے کی ضرورت پیش کیوں آئی اور یہ پریذائیڈنگ افسر دھندکے باعث بروقت ریٹرننگ آفس پہنچنا تو درکنار فون پر تاخیر کا سبب کیوں نہ بتا سکے؟ یہ اہم سوال ہے جس کے جواب سے حقیقت حال منکشف ہو گی لیکن دھاندلی، غنڈہ گردی اور ووٹ چوری کا ارتکاب کسی ایک فریق کی طرف سے ہوا نہ نتائج کو "ووٹ کو عزت دو" کے نعرے سے جوڑا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے پولنگ ایجنٹ کو قتل کرنے والا گروہ ووٹ کی عزت کا دعویٰ کر سکتا ہے نہ سارے دن کے شرمناک واقعات کو بیانیے کی کامیابی کا آئینہ دار قرار دینا ممکن ہے۔ ووٹ کی عزت میں اضافہ اپوزیشن نے کیا نہ حکومت نے، بیانیہ دونوں کا پٹ گیا کہ کسی نے بھی انتخابی شفافیت میں اضافہ حصہ ڈالا نہ اخلاقی برتری کے اصول کی پاسداری کی، پی ڈی ایم اور تحریک انصاف دونوں دھاندلی کے حمام میں ننگی ہیں اور دونوں نے دھن، دھونس سے یہ نشست جیتنے کی کوشش کی، کوئلوں کی دلالی میں دونوں نے ہاتھ کالے کئے اور یہ ثابت ہوا کہ 1977ء سے اب تک ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا، جمہوریت کے علمبردار اور بقول اپوزیشن غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار دونوں کے انداز فکر و انداز کار میں کوئی فرق نہیں، جب اور جہاں جس کا دائو لگتا ہے وہ اپنی سی کر گزرتا ہے، سیاست میں اخلاقیات کا عمل دخل ختم کر دیا جائے تو یہی کچھ ہوتا ہے اقبالؒ کو تبھی کہنا پڑا تھا ع
جدا ہو ودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی