8دسمبر کو آر یا پار تو نہیں ہوا، البتہ پی ڈی ایم کی جماعتوں میں استعفوں کے معاملے پر اختلافات کھل کر سامنے آئے اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے میاں نواز شریف و مولانا فضل الرحمن کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا، میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے عزائم واضح ہیں ؎
حجرے شاہ مقیم دے اِک جٹی عرض کرے
میں بکرا دیواں فقیر دا جے سر دا سائیں مرے
ہٹی سڑے کراڑ دی، جتھے دیوا نت بلے
کُتی مرے فقیر دی، جیڑھی چوں چوں نت کرے
پنج ست مرن گوا نڈھناں، رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے
مولانا فضل الرحمن کی خواہش بھی شائد یہی ہو، پارلیمنٹ کے فراق سے زیادہ انہیں عمران خان سے چڑ ہے، عمران خان نے پچھلے سات آٹھ سال سے مولانا فضل الرحمن کو زبان کے جو زخم لگائے وہ مندمل ہونے میں نہیں آ رہے۔ عمران خان کو شائد احساس نہ ہو مگر "ڈیزل" کی تکرار نے سیاسی اور مذہبی رہنما کے درمیان اختلافات کو دشمنی میں بدل دیا ہے۔ عربی زبان کا ایک شعر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب ہے ؎
جراحات السنان لہا لیتام
ولا بلتام، جرح اللسان
(نیزے کا لگایا زخم تو بھر جاتا ہے مگر جو زخم زبان سے لگے وہ ہمیشہ ہرا رہتا ہے)عمران خان کی زبان سے لگا یہ زخم مولانا فضل الرحمن کی خوئے انتقام کو بھڑکاتا اور تحریک انصاف کی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر مجبور کرتا ہے عمران خان اپنی خو نہ چھوڑیں گے، مولانا وضع اپنی کیوں بدلیں۔
نیب نے تنگ تو زرداری خاندان اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی کر رکھا ہے اور وہ اس کا ذمہ دار عمران خان اور ان کے سرپرستوں کو سمجھتے ہیں مگر سندھ حکومت وہ کھلونا ہے جس نے پیپلز پارٹی کو بہلا رکھا ہے، زرداری اور میاں نواز شریف کے مابین اعتماد کا فقدان ہے اور زرداری صاحب کی نظروں میں میاں صاحب کی سیاسی فراست مشکوک۔ 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حادثاتی موت کے بعد میاں نواز شریف نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا، چند ہفتے قبل وہ قاضی حسین احمد، عمران خان، محمود خان اچکزئی اور دیگر اتحادیوں کو بائیکاٹ کے معاملے پر دھوکہ دے چکے تھے مگر لاڑکانہ کی ایک ہی ملاقات میں آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا، ثابت یہ ہوا کہ میاں صاحب اہم نوعیت کے فیصلے بھی سوچ سمجھ کر سیاسی بصیرت اور عملیت پسندی کے تقاضوں کے تحت نہیں محض جوش جذبات میں کرتے اور پھر مُکر جاتے ہیں۔
آصف علی زرداری 2008ء میں پہلی بار جاتی اُمرا آئے اور دونوں لیڈروں نے باہمی تعلق کو اگلی نسلوں، مریم نواز و بلاول بھٹو تک بڑھانے کا عہد و پیمان کیا تو مداحوں نے خوشی کے شادیانے بجائے مگر چند دنوں کے اندر کاٹھ کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ گئی، جاتی امرا کی ملاقات میں میاں نواز شریف نے آصف علی زرداری کو مشورہ دیا کہ موقع مناسب ہے دونوں جماعتیں مل کر پارلیمنٹ کے ذریعے صدر پرویز مشرف کا مواخذہ کریں اور فوجی آمر کو عبرت کا نشان بنا دیں، بقول شخصے زرداری صاحب مسکرائے اور میاں صاحب سے پوچھنے لگے میرے بوڑھے باپ کا کیا قصور ہے، آپ مجھے ایسا مشورہ دے رہے ہیں۔ میاں صاحب حیران کہ بھلا اس میں قصور والی کون سی بات ہے، پوچھنے پر زرداری صاحب نے کہا کہ میں حاکم علی زرداری کا اکلوتا بیٹا ہوں، اس عمر میں اپنے باپ کو دکھ دینا نہیں چاہتا، ذوالفقار علی بھٹو ہم دونوں سے زیادہ تجربہ کار، ذہین اور مقبول سیاستدان تھے مگر ایک فوجی سربراہ ضیاء الحق سے چھیڑ چھاڑ انہیں تختہ دار پر لے گئی، میں تو کمزور آدمی ہوں نہ بھٹو کی طرح مقبول اور نہ آپ کی طرح مضبوط کہ اس حرکت سے بوڑھے باپ کو صدمے سے دوچار کروں، آپ مضبوط اور مقبول سیاستدان ہیں ہمارے بعد آپ کی باری ہے اس وقت آپ یہ بیڑا اٹھا لیجیے گا، ہم آپ کے لئے دعاگو ہوں گے۔ پرویز مشرف سے چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ 1999ء میں میاں صاحب بھگت چکے تھے مگر بم کو لات مارنے کی دیرینہ عادت سے باز آئے نہ زرداری کا مشورہ یاد رکھا۔ 2014ء میں ایک بار پھر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو نشانہ عبرت بنانا چاہا اور پہلے ایوان اقتدار اور پھر ملک کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوئے۔
ایک ناکارہ بم کو دولتی مارنے کا نتیجہ بھگت چکے مگر عادت سے مجبور میاں صاحب اب ایک نہیں دو زندہ(Live) بموں کے درپے ہیں اللہ خیر کرے۔
آٹھ اور نو دسمبر کے اجلاس نشتند، گفتند، برخاستند ثابت ہوئے لاہور کا جلسہ پہلے سے طے تھا، استعفوں کی ڈیڈ لائن دینے کے لئے بلائے جانے والے اجلاس میں اتفاق رائے نہ ہو سکا، پیپلز پارٹی نے یہ بات منوا لی کہ وہ سندھ حکومت سے دستبردار ہو گی نہ سندھ میں اس کے ارکان صوبائی اسمبلی استعفیٰ دیں گے، پنجاب میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی قوت کیا ہے؟ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ جوش جذبات میں بعض مسلم لیگی ارکان اسمبلی نے مریم نواز کو خوش کرنے کے لئے اپنے استعفے لکھ کر قیادت اور میڈیا کے حوالے کئے ہیں مگر اکتیس دسمبر کی ڈیڈ لائن آنے پر آشکار ہو گا کہ پنجاب کے کتنے لیگی ارکان بھی قیادت کے فیصلے سے متفق نہیں، بیرسٹر اعتزاز احسن نے قانونی پوزیشن بتا کر ارکان اسمبلی اور اپنی پارٹی کو آئینہ دکھایا ہے کہ استعفیٰ کارڈ کھیل کر اپوزیشن اپنے پائوں پر کلہاڑی مارے گی، ایسی صورت میں اول تو ضمنی انتخابات کی آپشن موجود ہے لیکن بالفرض اگر نئے انتخابات کی نوبت آئی تو یہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی نگرانی میں ہوں گے، کسی نگران حکومت کی گنجائش آئین میں نہیں۔
کیا اپوزیشن عمران خان کی زیر نگرانی نئے انتخابات کرانے کے لئے سارے جتن کر رہی ہے۔ مایوس اور جذباتی مسلم لیگی قیاد ت شائد سوچنے کے لئے تیار نہ ہو مگر عملیت پسند پیپلز پارٹی کو صورت حال کا ادراک ہے۔ انتقامی جذبے سے مغلوب پی ڈی ایم قیادت عمران خان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت کو رد کر رہی ہے، بھارتی جارحیت کے خطرے اور کورونا کی تباہ کاریوں کو نظر انداز کرنے پر تلی ہے اور میاں نواز شریف کے فوج مخالف بیانئے کے منفی اثرات کا درست اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔ زرداری صاحب مگر میاں صاحب کی راہیں مسدود کرنے کے لئے بم کو لات مارنے کی حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی قیادت کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ 2014ء میں یہ سارے لیڈر کسی لانگ مارچ، دھرنے اور احتجاجی استعفوں کے ذریعے نواز حکومت کی رخصتی کے مخالف تھے، استدلال یہ تھا کہ جتھوں کے گھیرائو سے حکومتیں تبدیل ہونے لگیں تو پاکستان میں کوئی حکومت سال چھ ماہ سے زیادہ نہیں نکالے گی، اسٹیبلشمنٹ اس منطق سے متفق تھی اور آج تک ہے مگر اب سب کے سب جمہوریت پسند محض بغض عمران میں اپنے موقف سے دستبردار، حکومت کی غیر آئینی، غیر جمہوری، غیر روائتی رخصتی پر تیار ہیں۔ بے اصولی، باہمی ناچاکی اور عزم کی کمی کے باعث پی ڈی ایم کی کشتی بیچ منجدھار ہچکولے کھا رہی ہے۔
پچھلے سال مولانا اکیلے اسلام آباد سے مایوس لوٹے تھے اس بار شائد ہجوم عاشقان کو مایوسی و ندامت کا سامنا کرنا پڑے کہ خواہشات اگر گھوڑے ہوتے تو ہمیشہ احمق ان پر سواری کرتے۔ پی ڈی ایم جلسے، جلوسوں، لانگ مارچ اور دھرنے تک تو شائد متحد رہے، استعفوں کے معاملے پر جوتیوں میں دال بٹے گی کہ پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت سے پیار ہے اور ارکان اسمبلی کو محنت اور سرمایہ کاری سے جیتی نشستیں عزیز، وہ انہیں پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے بے روزگاروں کی خواہشات پر قربان کیوں کریں۔