سندھ ہائی کورٹ کا اللہ بھلا کرے، دوران سماعت فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ" جس علاقے میں بائولے کتے کے کاٹنے کا واقعہ پیش آیا وہاں کے ایم پی اے کی رکنیت معطل کی جائے گی اور وہ سینٹ الیکشن میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر پائے گا"۔ قابل احترام جج کے یہ ریمارکس اگر فیصلے کی شکل اختیار کریں اور صرف سندھ نہیں پورے ملک میں منتخب عوامی نمائندوں کو عوام کی جان و مال اور عزت کے تحفظ کی ذمہ داری سونپ کر پابند کیا جائے کہ وہ اپنے حلقے کے عوام کو صرف بائولے کتوں سے نہیں بلکہ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کو بدقماش و بدمعاش عناصر سے بھی بچائیں گے تو مجھے خاطر خواہ نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے، کئی سو سال قبل شیر شاہ سوری نے ایک اُصول طے کیا اور پورے ہندوستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر کر دی، حکم دیا کہ جس علاقے میں کوئی جرم ہو گا کوتوال علاقہ ذمہ دار قرار پائے گا، شیر شاہ سوری کو حکمرانی کے لئے صرف ساڑھے چار سال ملے، اس نے پشاور سے کلکتہ تک گرینڈ ٹرنک(جی ٹی) روڈ تعمیر کی، بندوبست اراضی اور کھتونی خسرے کا نظام نافذ کیا اور جی ٹی روڈ سمیت تمام سڑکوں پر حفاظتی چوکیوں، ڈاک کی ترسیل اور مسافروں کے لئے قیام کا قابل عمل نظام وضع ہوا، شہنشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں راجہ ٹوڈرمل نے شیر شاہ سوری کے وضع کردہ نظم اراضی میں مزید بہتری لا کر شہرت پائی، کارنامہ یہ شیر شاہ سوری کا تھا، پاکستان کیا دنیا بھر میں کرپشن، جرائم اور بے ضابطگیوں کے خاتمے کے لئے تجربات کئے جاتے ہیں اور اکثر و بیشتر یہ تجربات کامیاب رہتے ہیں ہمارے ہاں مگر قانون سازی پر زور زیادہ ہے قابل عمل تجربات کا حوصلہ نہیں۔
1950ء کے عشرے میں مرکزی کابینہ کے اجلاس میں فروغ تعلیم کی شق ایجنڈے پر تھی، بحث و تمحیص شروع ہوئی تو ماہر تعلیم رکن کابینہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قرشی نے تجویز پیش کی کہ انتخابات میں حصہ لینے والے سیاستدانوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے علاقے میں فروغ تعلیم کے لئے اقدامات کریں۔ عملی صورت یہ ہے کہ ووٹر کے لئے کم از کم پرائمری تعلیم لازمی قرار دی جائے اور ہر پانچ سال بعد کم از کم تعلیم کی سطح کو بڑھاتے جائیں چار پانچ انتخابات کے بعد سوفیصد ووٹر گریجوایٹ نہیں تو ایف اے پاس ضرور ہوں گے، آم کے آم گٹھلیوں ں کے دام ہوں گے۔ کیونکہ انتخابات میں حصہ لینے کا خواہش مند ہر امیدوار اپنے علاقے میں زیادہ سے زیادہسکول کھولنے کی کوشش کرے گا تاکہ تعلیم یافتہ ووٹر دستیاب ہوں، کابینہ نے اس تجویز کو ناقابل عمل قرار دیدیا کہ ہمارے سیاستدانوں کو پڑھے لکھے ووٹر درکار ہیں نہ سپورٹرز، جاہل ووٹر ان کے نزدیک زیادہ باشعور اور سمجھدار ہوتے ہیں نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان تو اپنے علاقے میں سکولوں کے قیام اور نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم کے خلاف تھے ایک بار انہوں نے الطاف گوہر سے کہا نوجوان پڑھ لکھ کر سرکاری نوکری کا مطالبہ بھی کرتے اور اپنے حقوق مانگتے ہیں سو ان کو جاہل رکھنا ہی احسن۔ جنرل پرویز مشرف نے معلوم نہیں کیا سوچ کر ارکان اسمبلی کے لئے بی اے پاس ہونا لازم قرار دیا۔
بی بی عابدہ حسین واحد سیاستدان تھیں جو باقاعدہ امتحانی سنٹر میں بیٹھ کر پرچے حل کرتے نظر آئیں، نوابزادہ نصراللہ خاں سے لے کر گورنمنٹ کالج کے گریجوایٹ میاں نواز شریف تک، حتیٰ کہ آکسفورڈ اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ سیاستدانوں نے اس پابندی کی مخالفت کی، کہنا ان کا یہ تھا کہ جاہل عوام کی نمائندگی بھی جاہل ارکان اسمبلی کو کرنی چاہیے، سیاستدانوں کا علم و تعلیم سے کیا لینا دینا؟ 2008ء میں جونہی جمہوریت بحال ہوئی اور اقتدار پر سیاستدانوں کا قبضہ مکمل ہوا، پہلی ہی فرصت میں بی اے کی شرط ختم کی گئی، بجا کہ رکن اسمبلی بننے کے لئے بعض روایتی سیاستدانوں نے جعلی ڈگریاں لے کر خانہ پری کی اور اسمبلیوں میں پہنچ گئے مگر یہ فیصلہ فروغ تعلیم کے علاوہ منتخب ارکان و پارلیمنٹ کا وقار بلند کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا تھا، عدالتوں نے جعلی ڈگری ہولڈرز کی رکنیت ختم کی اور ایسے جعلسازوں کو نظام سے خارج کرنے کا عمل شروع ہو گیا مگر ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کو یہ منظور نہ تھا کہ پاکستان میں بھی ارکان پارلیمنٹ اہل علم ہوں اور وہ عوام کی تعلیمی صلاحیت میں اضافہ کر سکیں۔ قومی سطح پر بحث و مباحثہ شروع ہوا تو بار بار بھارت کی مثال دی گئی جہاں چھٹے ہوئے بدمعاش، قاتل، سمگلر اور چٹے ان پڑھ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بیٹھ کر قوم کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں یہ دلیل حامل قرآن قوم کے رہبردے رہے تھے جس کے پیغمبر آخر الزمانؐ پر پہلی وحی اقرائ(یعنی پڑھ) کی صورت میں نازل ہوئی۔
پارلیمنٹ سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ عوامی مفاد میں کوئی فیصلہ کرے گی، عمران خان سے توقع تھی کہ وہ اقتدار میں آتے ہی بنیادی نوعیت کی اصلاحات پر توجہ دیں گے مگر وہ بھی روایتی سیاستدانوں کے چنگل میں پھنس کر کان نمک کے حصہ بن رہے ہیں، سینٹ کے انتخابات میں کرپشن کا خاتمہ کرنے کے لئے ان کی جدوجہد کو کسی سیاسی اور مذہبی جماعت کی طرف سے پذیرائی نہیں ملی، سندھ میں ہر سال درجنوں افراد بائولے کتے کے کاٹے سے بے وقت جان ہار جاتے ہیں، زیادہ تر شکار نوعمر بچے ہوتے ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کا علاج دستیاب نہیں اور درآمدی ویکسین بازاروں میں بک جاتی ہے حکومت بائولے کتوں کو تلف کرنا چاہے تو فارن فنڈڈ این جی اوز آڑے آتی ہیں اور اسے ظلم قرار دیتی ہیں، سیاسی سطح پر کرپشن کی روک تھام کو بنیادی انسانی حقوق کے منافی سمجھا جاتا ہے ورنہ ادویات کی خریداری کے لئے مختص وسائل اتنے کم نہیں کہ کتے کے کاٹے کا علاج ممکن نہ ہو۔ جب بھی کوئی سیاستدان اور بیورو کریٹ ادویات کی خریداری میں گھپلے کے الزام میں پکڑا جائے سیاسی اشرافیہ اور ہمنوا میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے کہ اس بے چارے کو جمہوریت پسندی کی سزا دی جا رہی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے فاضل جج نے کم از کم بائولے کتوں کے ستم رسیدہ شہریوں کی داد رسی کا مناسب اور موزوں نسخہ تجویز کیاہے مگر مجھے یقین ہے کہ یہ ریمارکس عملی شکل اختیار نہیں کر پائیں گے۔
عمران خان نے معصوم بچیوں سے زیادتی کے مرتکب افراد کو سرعام پھانسی دینے کی تجویز پیش کی، کسی نے تائید نہیں کی، مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا کہ ہم بحیثیت قوم مجرموں کے ہمدرد، ظالموں کے ہمنوا اور طاقتوروں کے غلام ہیں، کوئی ایسی تجویز یہاں پذیرائی حاصل نہیں کر سکتی جس کا فائدہ کسی مریض، مظلوم اور ستم رسیدہ کو پہنچنے کی امید ہو، نسخہ مگر یہی ہے، عوام کی نمائندگی کے دعویدار اور سرکاری خزانے سے مراعات سمیٹنے والے سرکاری اہلکار جب تک ذمہ دار نہیں ٹھہرائے جائیں گے کسی خرابی کا سدباب ممکن نہیں۔ میں عرصہ دراز سے تجویز پیش کر رہا ہوں کہ عوامی نمائندوں اور اعلیٰ سرکاری ملازمین کو مع خاندان اندرون ملک سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ اور سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کا پابند کیا جائے، تعلیم اور صحت کا شعبہ خود بخود ٹھیک سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا معیار بلند ہو گا مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی، سنگا پور سمیت کئی ممالک میں یہ قانون رائج ہے مگر ہم تیار نہیں کہ یہ آسمانی مخلوق پاکستان پر حکمرانی کے لئے پیدا ہوئی ہے، یہی ہمارا اصل المیہ ہے مگر کسی کو پروا!