Kuj Shehar De Lok Vi Zalim San
Irshad Ahmad Arif116
مسلم لیگ(ن) سے تحریک انصاف کا رخ کرنے والے ارکان اسمبلی پر طنز اور تنقید کے تیر برسانے کا شوق بجا جنہیں مگراللہ تعالیٰ نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے وہ اس بات پر غور کیوں نہیں کرتے کہ یہ "لوٹے" اور "فصلی بٹیرے" اچانک ایک جماعت چھوڑ کر دوسری میں جانے کا فیصلہ کیوں کرتے، اور ہمیشہ ان کا فیصلہ درست کیوں ثابت ہوتا ہے؟ قیام پاکستان کے وقت پنجاب کے تین سیاستدانوں کو مرغ بادنما کا نام دیا جاتا تھا دو کا تعلق مظفر گڑھ اور ایک کا رحیم یار خان سے تھا۔ عبدالحمید دستی مرحوم، ابراہیم برق مرحوم اور چودھری عبدالسلام کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جس جماعت کا رخ کریں، سمجھو اقتدار اس کی جھولی میں پکے پھل کی طرح گرنے والا ہے بعدازاں ملک خدا بخش بچّہ مرحوم کو بھی یہ شہرت ملی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو ایک پارٹی کی حمائت ترک کرنے اور دوسری کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے پر کیسے آمادہ کر لیتے ہیں۔؟ اس ایک سوال کے جواب میں سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی کامیابی و ناکامی کا راز پنہاں ہے۔ ہم شہری بابو اور بسم اللہ کے گنبد میں بند دانشور اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ واہگہ سے چمن اور طورخم سے کراچی تک الیکٹ ایبلز ہماری دانش سے استفادہ کرتے اور پروپیگنڈے سے مسحور ہوتے ہیں۔ جبکہ عوام ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر پارٹی تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ الیکٹ ایبلز چوراہوں، چوپالوں کے تجزیوں اور عوام کے موڈ کی روشنی میں وفاداری بدلنے کا فیصلہ کرتے ہیں جب تک کسی الیکٹ ایبل کو یقین نہ ہو کہ اس کا ووٹر مجھ سے اور میری پارٹی سے اکتا کر ذہن تبدیل کر چکا، وہ وفاداری تبدیل کرنے کے بارے میں نہیں سوچتا۔ الیکٹ ایبلز سے زیادہ عوام کا کوئی نبض شناس ہے نہ ان سے بڑھ کر کوئی بدلتے موسموں کا راز داں۔ رہے عوام تو یہ ہمیشہ اس شخص اور جماعت کو ووٹ دان کرتے ہیں جو اقتدار میں آ کر ان کی خواہشیں، ضرورتیں پوری اور شکایات دور کر سکے۔ گزشتہ روز پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں میاں شہباز شریف کو اپنے ارکان اسمبلی کے سخت سوالات کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کہ الیکٹ ایبلز نے اپنے حلقوں میں عوام کا موڈ دیکھ لیا اور انہیں اندازہ ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کا بیانیہ اب مسلم لیگ کا اثاثہ نہیں، کشتی کا بوجھ ہے اور عقلمند عجب کشتی ڈوبنے لگتی ہے، تو بوجھ اتارا کرتے ہیں چالاک حلقہ جاتی سیاستدان عوام کا موڈ دیکھ کر پارٹی بدلنے کا فیصلہ کر لیں تو پھر اس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب ان کی قیادت خود ہی انخلا کی راہ ہموار کر دے میاں نواز شریف نے 2000ء میں جدہ روانگی اور 2018میں فوج، عدالت، نیب اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا کر انہیں موقع فراہم کیا۔ 1999ء میں میاں نواز شریف کا ہیوی مینڈیٹ میاں اظہر، ایم حمزہ، سید فخر امام اور کئی دیگر آزاد منش ارکان اسمبلی کے لیے بوجھ بن گیا اور ہیوی مینڈیٹ کے بطن سے خاندانی و شخصی آمریت جنم لیتی نظر آئی تو ہم خیال گروپ وجود میں آیا مگر اسے بھر پور پذیرائی اس وقت ملی جب میاں صاحب نے پرویز مشرف سے ڈیل کر کے جدہ کی راہ لی۔ اپنی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کو فوجی آمر کے رحم و کرم پر چھوڑ کر میاں صاحب سرور محل کے مکین ہوئے تو پس ماندگان کو عافیت فوجی حکومت سے ڈیل میں نظر آئی اور وہ اپنے قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پرویز مشرف کو پیارے ہو گئے۔ چودھری شجاعت حسین کا اس صورت حال پر تبصرہ یہ تھا کہ میاں صاحب نے ڈیل میں جلا وطنی کو ترجیح دی ہم نے حکومت میں شمولیت کو، حساب برابر۔ اب بھی صورتحال 2000ء سے مختلف نہیں۔ میاں صاحب نے حسب عادت بم کو لات مار کر الیکٹ ایبلز کے لیے صورت حال مشکل کر دی ہے اور وہ بے چارے اپنے ووٹروں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ میاں شہباز شریف کے سامنے انہوں نے یہی رونا رویا کہ وہ کس منہ سے حلقوں میں جائیں، ووٹر ختم نبوت سے متعلقہ قوانین میں چھیڑ چھاڑ کا سبب پوچھتے، اپنی ریاست، فوج اور خفیہ اداروں کے خلاف میاں صاحب کی گواہی کی وجہ جاننا چاہتے ہیں؟ وہ سوال کرتے ہیں کہ میاں صاحب ہر بار ہمارے ووٹ کو عزت دینے اور ہمارے درد کا درماں کرنے کے بجائے قومی اداروں سے لڑائی چھیڑ کر جمہوریت کو دائو پر کیوں لگا دیتے ہیں، میاں نواز شریف کے جس بیانیے سے برادر خورد میاں نواز شریف اور چودھری نثار علی خاں متفق ہیں نہ پارلیمانی پارٹی، اسے ہمارے بعض تجزیہ نگار اور دانشور نسخہ کیمیا قرار دے کر مسلم لیگ کی کامرانی کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ الیکٹ ایبلز کو فصلی بٹیرے کہیں یا لوٹے، وہ سیاسی ہوا کا رخ پہچانتے ہیں اور عوام کے موڈ سے بخوبی آگاہ اس بنا پر انہوں نے گزشتہ روز اجلاس میں شور مچایا اور خواجہ سعد رفیق نے آصف کرمانی کو کھری کھری سنائیں۔ اگر خواجہ سعد رفیق کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے اور خواجہ آصف، میاں صاحب کے سامنے خواجہ سعد رفیق کی سائڈ لے رہے ہیں تو اندازہ کیجیے کہ احتساب عدالت کے فیصلوں اور میاں صاحب کی جیل یاترا کے بعد مسلم لیگ (ن) کا مستقبل کیا ہو گا۔ میاں نواز شریف نے ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے، اپنے خلاف احتساب سے عوام اور میڈیا کی توجہ ہٹانے اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے سیرل المیڈا کو انٹرویو دیا، وہ ایک لٹیرے اور مجرم نہیں بلکہ ریاست کے باغی کی حیثیت سے جیل جانا چاہتے ہیں خیال اُن کا یہ ہو گا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل نوید مختار، چیف جسٹس ثاقب نثار اور چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال اس جھوٹے الزام سے ڈر کر دست بستہ ان کی خدمت میں حاضر، تلافی مافات کے طلبگار ہوں گے مگر اس انٹرویو نے مسلم لیگ کی صفوں میں بھگدڑ مچا دی، میاں صاحب پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے اور شاہد خاقان عباسی کی لن ترانیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ طلال چودھری، رانا ثناء اللہ اور ایک آدھ دوسرے ان گائڈڈ میزائل کے سوا سب پریشان میاں صاحب کے خودکش حملے پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے کے بجائے اپنے اپنے بچائو کی تدبیریں سوچ رہے ہیں۔ البتہ جن لوگوں کے مفادات میاں نواز شریف سے جڑے ہیں یا جنہیں سیاسی حرکیات کا ادراک نہیں وہ دھوپ میں رکھی برف کے وزن کا اندازہ لگا رہے ہیں اور نہیں سوچتے کہ میڈیا میں زندہ رہنے اور اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی شریفانہ تدبیریں الٹی پڑ چکی ہیں گزشتہ آٹھ نو ماہ میں میاں صاحب نے مسلم لیگ سے وہ کیا جو آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی اور الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے ساتھ۔ دونوں کی غلطیاں میاں صاحب کے ایک انٹرویو کے برابر ہیں جس کا اہتمام کرنے والے کو میاں شہباز شریف نے برادر بزرگ کا بدترین دشمن قرار دیا۔ لیکن یہ بدترین دشمن کون ہے؟ خواہش میاں صاحب کی تھی، اہتمام مریم نواز نے کیا، کسی اور کو قصور وار ٹھہرانا تجاہل عارفانہ ہے یا ارکان اسمبلی کو مزید بے وقوف بنانے کی سعی۔ چلو مان لیا انٹرویو میاں صاحب کے کسی بدترین دشمن نے کرایا مگر اس پر ڈٹ جانا کس کی غلطی ہے ؎کجھ شہر دے لوک وی ظالم سنکجھ سانوں مرن دا شوق وی سی