سینٹ انتخابات میں علانیہ رائے شماری (اوپن بیلٹنگ)کا تویہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ حکومت ہارس ٹریڈنگ کو روکنا چاہتی ہے لیکن فلور کراسنگ کو روکنے اور تارکین وطن پاکستانیوں کو نمائندگی دینے کی آڑ میں دوہری شہریت کے حامل افراد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت؟ دال میں کچھ کالا ہے، 1973ء کے آئین میں عوامی نمائندگی کے لئے پاکستانی شہریت کی شرط سوچ سمجھ کر رکھی گئی، یہ مفادات کے تصادم اور منقسم وفاداری کو روکنے کی تدبیر ہے، پاکستان کی شہریت ترک کر کے کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرنا یا پاکستان کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے ملک کی شہریت قبول کرنا ایسی معمولی بات نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کر دیا جائے، پاکستان نے ماضی میں ایک نہیں کئی بار غیر معمولی فراخدلی اور اعلیٰ ظرفی دکھائی، امریکہ اور دیگر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو اعلیٰ ترین مناصب پیش کئے، معین قریشی، شوکت عزیز کو تو وزارت عظمیٰ تک پیش کر دی مگر ان میں سے کسی نے بھی اس جذبے کی قدر کی نہ وطن کی مٹی سے وفا کے تقاضے نبھائے، جوں ہی اعلیٰ ترین منصب سے محروم ہوئے۔ غیر ملکی پاسپورٹ یا گرین کارڈ جھاڑا، پاکستانی شناخت کوڑے دان میں ڈالی، بریف کیس اٹھایا اور یہ جا وہ جا، گویا عہدہ و منصب کے سوا پاکستان سے کوئی رشتہ نہ تھا۔
تارکین وطن اور دوہری شہریت کے حامل افراد کو انتخابی عمل میں شرکت کی اجازت دینے کے حق میں دو دلیلیں شد و مد سے پیش کی جاتی ہیں، اوّل یہ کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہم اندرون ملک بسنے والوں سے زیادہ محب وطن اور جذباتی شہری ہیں، وہ پاکستان کو زرمبادلہ فراہم کرنے اور ہر نازک موقع پر مادر وطن کی خدمت کے لئے پیش پیش رہتے ہیں، دوئم جب دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو برطانیہ اور دیگر ممالک کے سیاسی و انتخابی عمل میں حصہ لینے کی آزادی ہے تو ہماری طرف سے اپنے ہی شہریوں پر پابندی کا کیا جواز ہے؟ ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تارکین وطن کی اکثریت جن ممالک میں مقیم ہے وہاں غیر ملکیوں کو شہریت دینے کا رواج ہی نہیں، عرب ممالک میں مقیم پاکستانی ہی ملک کو قیمتی زرمبادلہ بھیجتے اور خورسند رہتے ہیں امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں کی بہت کم تعداد زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی ذمہ دار ہے، دوسرے رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں تارکین وطن کی اکثریت پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے دعا گو ضرور ہے اور یہاں جدید تقاضوں کے مطابق ایماندار اور محب وطن حکمرانوں کو برسر اقتدار دیکھنے کی خواہش مند بھی مگر انتخابی عمل میں حصہ لینے اور سینٹ و اسمبلیوں میں نمائندگی کی طلب گار ہرگز نہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب حکومت نے تجرباتی بنیادوں پر تارکین وطن کی ووٹر لسٹ مرتب کی تو کسی نے دلچسپی نہیں لی، جہاں تک پاکستانی نژاد غیر ملکی شہریوں کی امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کے سیاسی عمل میں حصہ لینے کا تعلق ہے تو ہر ریاست اپنے مفادات اور سیاسی تقاضوں کے مطابق کسی شہری کو مختلف حقوق عطا کرتی ہے، مثلاً برطانیہ میں پاکستانیوں کو دہری شہریت کا حق حاصل ہے مگر امریکہ میں نہیں، امریکہ میں جو پاکستانی نژاد انتخابی عمل میں حصہ لیتے ہیں وہ خالصتاً امریکی شہری ہیں ان کا پاکستان سے قانونی تعلق برقرار نہیں، جو پاکستانی اپنی شہریت ترک نہیں کرتے، انہیں وہاں بہت سے حقوق سے محروم ہونا پڑتا ہے اور وہ بخوشی اس محرومی کو قبول کرتے ہیں۔
ڈاکٹر بابر اعوان نے گزشتہ روز پریس بریفنگ میں بتایا کہ جو تارکین وطن اسمبلیوں اور سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند ہوں گے وہ کاغذات نامزدگی تو غیر ملکی شہری کے طور پر جمع کرا سکتے ہیں مگر کامیابی کی صورت میں انہیں دوسرے ملک کی شہریت ترک کرنی پڑے گی، سوال یہ ہے کہ اگر اُسے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا حق ہے تو پھر رکن پارلیمنٹ کے طور پر بیرونی شہریت سے محروم کرنے کا کیا جواز ہے؟ ایک شخص اگر جذبہ حب الوطنی کے تحت پارلیمنٹ میں پہنچ کر اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں مادر وطن کی خدمت کے لئے وقف کرنے کا خواہش مند ہے تو وہ بیرونی شہریت کی قربانی دے، دوسرے پاکستانی امیدواروں کی طرح ہارجیت کے خوف سے بالاتر ہو کر انتخابی میدان میں اترے اور کامیابی و ناکامی کی پروا کئے بغیرووٹروں سے رابطہ کرے، ووٹروں کو یقین ہو کہ یہ شخص کسی عہدہ یا منصب اور مالی منفعت کے حصول کے لئے نہیں محض خدمت کے جذبہ سے پارلیمنٹ کے انتخاب میں حصہ لے رہا ہے اور صرف جیتنے نہیں ہارنے کی صورت میں بھی ملک و قوم کی خدمت کرتا رہے گا۔ جو شخص یہ معمولی قربانی دینے کا روادار نہیں، اسے عوامی نمائندگی کے اعلیٰ ترین ایوانوں کی رکنیت پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنا اور پھر کابینہ کا حصہ بنانا ان شہریوں کے ساتھ زیادتی ہے جو نامساعد حالات میں بھی اپنی پاکستانی شہریت پر نازاں رہتے اور اپنا مرنا جینا مادر وطن سے وابستہ کئے بیٹھے ہیں، ویسے بھی کوئی غیر ملکی شہری پاکستانی عوام کی نمائندگی کا دعویدار کیسے ہو سکتا ہے جبکہ ماضی کا تجربہ یہی ہے کہ محمد شعیب سے لے کر معین قریشی اور شوکت عزیز سے لے کر حسین حقانی تک، کسی نے منصب چھن جانے کے بعد پاکستان میں ایک دن رہنا گوارا نہ کیا۔ رہنا درکنار دفن ہونا بھی پسند نہیں۔
پاکستان سے باہر مختلف اداروں میں خدمات انجام دینے والے ٹیکنو کریٹ کی مختصر مدت کے لئے فنی مہارت اور مخصوص شعبہ جاتی خدمات مستعار لینے میں حرج نہیں لیکن یہ بھی محض اس صورت میں کہ پاکستان میں اسی قابلیت اور صلاحیت کا حامل کوئی شخص دستیاب نہ ہو لیکن محض کسی حفیظ شیخ اور اسی قبیل کسی شخص کو ملک کے اعلیٰ ترین ایوانوں کی رکنیت اور مناصب عطا کرنے کے لئے آئین میں ترمیم ملک میں موجود جوہر قابل کی حوصلہ شکنی اور غیر ملکی ایجنٹوں کو پاکستان کے اداروں میں گھسنے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے، پاکستان کی سرزمین بانجھ ہے نہ اس قدر احساس کمتری کا شکار کہ اس کی ترقی و خوشحالی تارکین وطن اور دوہری شہریت کے حامل افراد کی مرہون منت ہو، ایوب خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف اور آصف علی زرداری نے یہ تجربہ کیا مگر ناکام رہا، عمران خاں آخر کس کے دبائو یا ترغیب پر ایک ناکام اور تلخ تجربہ دہرانا چاہتے ہیں۔ ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اورعالمی استعمار کے گماشتہ دیگر اداروں کے مشورے، ترغیب یا دبائو پر پاکستان کی پارلیمنٹ اور حکومت و کابینہ میں ان افراد کو شامل کرنا جن کی وفاداری منقسم ہے اور جذبہ خدمت عہدہ و منصب سے مشروط، ان دعوئوں کی نفی ہے جو عمران خان نے اقتدار سنبھالنے سے قبل کئے، پاکستان کو غیر ملکی غلامی اور پاکستانیوں کو احساس مرعوبیت سے نکالنا عمران خان کی ترجیح اوّل تھا، مگر اب تارکین وطن کی آڑ میں ان لوگوں کو پاکستان کے اعلیٰ فیصلہ ساز ایوانوں میں داخل کرنے کی تگ و دو ہو رہی ہے جو وزیر اور رکن پارلیمنٹ بنے بغیر ملک کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں نہ وطن واپسی کا ارادہ، صاف ظاہر ہے کہ سیاسی پارٹیوں اور حکومتی عہدیداروں کو مالی معاونت فراہم کرنے والے وہ با اثر افراد ہی اس آئینی ترمیم سے مستفید ہوں گے جو بیرون ملک قیام کے دوران موجودہ و سابقہ کے علاوہ مستقبل کے حکمرانوں، ان کے عزیز و اقارب کے قیام و طعام، مشروبات اور شاپنگ پر ڈالر، پائونڈ، درہم و دینار لٹاتے اور مختلف سیاسی و دینی جماعتوں کو فنڈز فراہم کرتے ہیں، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں طاقت کے ایوانوں سے ان کے روابط کا ذریعہ بنتے اور مشکل وقت میں کام آتے ہیں۔ رہے عام تارکین وطن تو ان بے چاروں کو رزق حلال کمانے سے فرصت ہے نہ اقتدار کے ایوانوں میں جاری مکروہ کھیل سے رغبت، نام البتہ ان بے چاروں کا استعمال ہو گا کہ ؎
رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے