موٹر وے پاکستان کی محفوظ ترین شاہرا ہ ہے اور موٹر وے پولیس نیک نام، مستعد اور فرض شناس سول ادارہ، گزشتہ روز مگر موٹر وے پر ایک خاتون کے ذاتی گاڑی سے اغوا اور اس کے دو بچوں کے سامنے زیادتی کے واقعہ نے تحفظ کے احساس اور فرض شناسی کے تاثر کو ملیا میٹ کر دیا، پتہ چلا کہ سندھ و پنجاب کے دور دراز علاقوں میں رائج لاقانونیت اور درندگی کے کلچر نے موٹر وے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور موٹر وے پولیس پر بھی آہستہ آہستہ پنجاب پولیس کا رنگ غالب آ گیا ہے، موٹر وے کا سیالکوٹ سیکشن کھولنے سے قبل حفاظتی انتظامات نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ گائے بھینسیں، چنگچی رکشے اور موٹر سائیکل سوار جابجا نظر آتے ہیں اور کوئی روکنے والا نہیں جبکہ موٹر وے پولیس بھی روایتی تغافل کا شکار ہے۔ ورنہ خاتون کی کال پر موٹر وے پولیس بیٹ کا سوال نہ اٹھاتی اور جب خاتون کی گاڑی پر حملے کی اطلاع ایک راہگیر نے دی تو پہنچنے میں اتنی تاخیر نہ کرتی کہ وحشی درندوں کو زیادتی کے بعد فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال عرصہ دراز سے مخدوش ہے، شہری گھروں میں محفوظ ہیں نہ کاروباری مراکز اور دفاتر میں، معصوم بچیوں کو گھر کی دہلیز سے اغوا کر کے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں کچرے کے ڈھیر سے ملتی ہیں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کی وارداتوں کے حوالے سے کراچی بدنام تھا مگر اب لاہور میں بھی یہ وبا سر اٹھا رہی ہے اور سابقہ و موجودہ حکمرانوں کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود قابو پانے کی کوئی تدبیر تاحال کارگر نہیں۔
ماضی میں چور اور ڈاکو بھی دوران واردات خواتین اور بچوں سے تعرض نہیں کیا کرتے تھے، یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا کہ ہم چور یا ڈاکو ہیں بے غیرت نہیں کہ کسی کی ماں، بہن، بیٹی کو بے عزت کریں کہ مائیں، بہنیں بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں، مگر جب خواتین جیلوں، حوالات اور تھانوں میں محفوظ رہیں نہ سرکاری نجی دفاتر میں اور نہ تعلیمی اداروں استاد شاگرد کے رشتے کا تقدس برقرار رہا، افسر اپنی ماتحت خواتین کی عزت کے رکھوالے نہیں لٹیرے بن گئے اور شہریوں کی جان و مال، عزت و آبرو کے محافظوں نے داد رسی کے لئے رجوع کرنے والی خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تو چور ڈاکو کب تک ماضی کی اخلاقی روایات پر کاربند رہتے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ مبینہ جرائم پیشہ گروہوں کو پولیس کی کالی بھیڑوں اور طاقتور سیاسی عناصر کی پشت پناہی حاصل ہو گئی، سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔
دنیا بھر میں سنگین جرائم روکنے کے لئے سخت سزائوں اور تعلیم و تربیت کا طریقہ رائج ہے مگر ہمارے ہاں تعلیم و تربیت کی سیاستدانوں اور اہل علم و دانش نے کبھی ضرورت محسوس نہیں کی اور سخت سزائوں کی بات ہو تو فارن فنڈڈ این جی اوز اور قومی اقدار و ضرورتوں سے نابلد سیاسی نابغے انسانی حقوق کی دہائی دینے لگتے ہیں گویا مقدس شخصیات کی توہین کے علاوہ خواتین اور معصوم بچیوں کی عصمت دری بھی جنسی درندوں کا بنیادی حق ہے جنہیں اگر سخت سزائیں دی گئیں تو انسانی حقوق پامال ہوں گے۔ قصور میں معصوم زینب سے درندگی کا سانحہ رونما ہوا تو پوری قوم نے سرعام پھانسی کا مطالبہ کیا مگر بااثر حلقے ڈٹ گئے اور قانونی موشگافیوں کا فائدہ اٹھا کر سرعام پھانسی کے لئے قانون سازی کا راستہ روک دیا، پارلیمنٹ سرعام پھانسی کی قرار داد ہوئی تو پیپلز پارٹی کے علاوہ وفاقی کابینہ کے بعض ارکان نے مخالفت کی اور عمران خان ان کے خودسر وزراء کا کچھ بگاڑ نہیں سکے۔ عدالتیں بھی ان عناصر سے خائف رہتی ہیں چنانچہ سخت عوامی دبائو کی وجہ سے معصوم زینب کے مجرم کو پھانسی کی سزا تو ملی مگر اُسے نشان عبرت بنانے کا موقع ضائع کر دیا گیا جبکہ عوامی رائے یہ ہے کہ قصور اور موٹر وے جیسے قبیح جرائم میں ملوث افراد کو موقع واردات پر سرعام تختہدار پر لٹکانا ہی مجرموں کی حوصلہ شکنی اور خواتین کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ قانون میں ترمیم حکومت کا فرض ہے اور مخالف عناصر کے بجائے عوامی رائے عامہ کا احترام اس کی بنیادی ذمہ داری۔ موٹر وے کے واقعہ کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے جو تین ماہ میں صوبائی دارالحکومت کو جرائم اور مجرموں سے پاک کرنے کا عزم رکھتے ہیں یہ کہہ کر اپنے مداحوں کو حیران کر دیا کہ خاتون کو رات گئے چھوٹے بچوں کے ساتھ سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی اور روانگی سے قبل پٹرول چیک کیوں نہیں کیا، موٹر وے کو روز اول سے محفوظ شاہراہ اور موٹر وے پولیس کو فعال و مستعد فورس کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے تبھی لوگ بے دھڑک رات دن اس شاہراہ کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ دیگر شاہراہوں کے بارے میں یہ تاثر نہیں، دوسرے پولیس کی ذمہ داری عام شہریوں کو صرف موٹر وے یا جی ٹی روڈ نہیں دور دراز علاقوں کی ویران شاہراہوں پر رات کی تاریکی میں جان و مال، عزت و آبرو کا تحفظ فراہم کرنا ہے، دو عشرے قبل سندھ میں ڈاکو راج تھا اور رحیم یار خان سے کراچی تک شاہراہ پاکستان پر ٹرکوں، بسوں اور کاروں کے قافلے پولیس کانوائے کی نگرانی میں چلا کرتے تھے مگر اب صورتحال مختلف ہے، پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں موٹر وے جیسی شاہراہ پر خواتین کا سفر اگر غیر محفوظ ہے تو پھر بہتر ہے کہ پولیس کا محکمہ ختم کر کے کوئی نیا انتظام کیا جائے۔ رنگ روڈ، موٹر وے اور جی ٹی روڈ ہی نہیں ملک کی ہر گلی سڑک دفتر، تجارتی مرکز اور گھر کی حفاظت ریاست، حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے لوگ اسی لئے ریاست کے سامنے اپنے حقوق سرنڈر کرتے، اپنی خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس دیتے اور چوک چوراہوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بدتمیزی برداشت کرتے ہیں، لاہور کو ماضی کا کراچی بننے سے قبل سنگین جرائم میں ملوث معدودے چند خودسر، قانون شکن عناصر کو نشان عبرت بنانا ضروری ہے ورنہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ یہ مکروہ واقعہ حکومت، پارلیمنٹ پولیس، عدلیہ، معاشرے اور ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق طبقے کے لئے ٹیسٹ کیس ہے ع
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا