Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Muft Khori Ki Waqalat

Muft Khori Ki Waqalat

پاکستان سٹیل ملز کے دس ہزار کارکنوں کی بے روزگاری واقعی سنجیدہ معاملہ ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک میں جہاں روزگار کے مواقع محدود اور غربت و افلاس ملک کے طول و عرض میں موجود ہے دس ہزار لوگوں کی ملازمت سے برطرفی پر کون رنجیدہ نہ ہو گا، ہونا چاہیے مگر یہ دس ہزار کارکن ماہانہ تنخواہ اور مراعات کے عوض کرتے کیا ہیں؟ محنت، مزدوری اور قومی ترقی کے عمل میں شراکت؟ کچھ بھی نہیں، 2015ء سے گھروں میں بیٹھے ہیں یا کسی سیاسی جماعت کے کارکن کے طور پر زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگانے میں مگن، ہزاروں لازماً جزوقتی ملازمتیں ڈھونڈ کرچپڑی اور دو دو کے مزے اٹھا رہے ہوں گے اور باقی اپنے ذاتی کاروبار میں مصروف، ایسے ایماندار، جفا کش اور پیشہ ور کارکنوں کی موجودگی سے انکار نہیں جن کی آمدنی کا واحد وسیلہ سٹیل ملز کی ملازمت ہے اور جب تک مل چلتی رہی وہ دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے مگر وہ کتنے ہوں گے، آٹے میں نمک کے برابر، یہ اکثریت میں ہوتے تو اتنی بڑی اور 2008ء تک منافع میں چلنے والی مل اربوں روپے ماہانہ کے خسارے کا شکار کیوں ہوتی؟ اور 2015ء میں بالآخر اسے بند کرنے کی نوبت کیوں آتی؟ مل کو بند کس نے کیا؟ بطور وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جن کا سٹیل مل چلانے کا تجربہ کسی سے مخفی ہے نہ اداروں کی بندش کے بجائے پرائیویٹائز کرنے کی مہارت پر دو آرائ۔ لیکن میاں صاحب نے بھی بندش ہی مناسب سمجھی۔

پاکستان سٹیل ملز کا قیام قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے قومی کارناموں میں سے ایک ہے، ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی کا عمل شروع ہوا تو ملک میں سٹیل مل کے قیام کی تحریک نے زور پکڑا، سٹیل مل کے قیام کے حامیوں کا موقف یہ تھا کہ قومی صنعت کو اس شعبے میں غیروں کا محتاج نہیں ہونا چاہیے۔ قوم پرست بھٹو نے روس کے تعاون سے سٹیل مل قائم کی تو اسے قومی ضرورت قرار دیا گیا، ایک خرابی ابتدا ہی میں پیدا ہوئی کہ عوامی حکومت نے افتاد طبع کے مطابق بھرتیوں میں میرٹ کو ملحوظ رکھا نہ ضرورت کو، ایک کمرشل پراجیکٹ کو سیاسی ضرورتوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جہاں دس کارکنوں کی ضرورت تھی وہاں سو بھر دیے اور ان میں سے نوّے نکمّے، نکھٹو اور دوسروں کے کام میں روڑے اٹکانے والے اس، پر مستزاد ٹریڈ یونین۔

1988ء تک یہ مل اپنا بوجھ آپ اٹھانے کے قابل اور لوہے کی قومی ضرورتیں پوری کرتی رہی مگر جنرل ضیاء الحق کی ناگہانی موت کے بعد ملک میں جمہوریت بحال ہوئی، عوام کے مقبول و منتخب رہنمائوں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے اقتدار کو شرف باریابی بخشا تو دیگر قومی اداروں پی آئی اے وغیرہ کی طرح سٹیل مل کا مقدر بھی خسارہ ٹھہرا۔ سفارشی اور نا اہل سربراہ ضرورت سے کئی گنا زیادہ مزدور و کارکن، کرپشن، بدانتظامی اور ہڑتالیں، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے کارکن تنخواہ سٹیل مل سے لیتے، کام کچھ اور کرتے، جو سربراہ انہیں ڈسپلن میں لانے کی سعی کرتا دھمکیوں اور بلیک میلنگ کا شکار ہوتا۔ ہمارے دوست میجر جنرل (ر) محمد جاوید دوبار سٹیل مل کے سربراہ رہے یونین اور سیاسی قائدین کے چہیتے کارکنوں کی کئی کہانیاں سناتے اور کف افسوس ملتے ہیں کہ عظیم قومی سرمایہ یوں بے دردی سے تباہ کر دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سٹیل مل خسارے سے نکل کر ایک بار پھر منافع کے سفر پر نکلی، سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نے اس منافع بخش ادارے کی سربراہی چھوڑی تو معقول منافع، کھربوں روپے کے اثاثوں کے علاوہ محتاط اندازے کے مطابق پانچ ارب روپے اکائونٹ میں موجود تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے ماضی کے تجربے کے پیش نظر سٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ کیا، بین الاقوامی شہرت کی کمپنیوں نے نجکاری میں حصہ لیا، معقول معاوضے پر فروخت کا فیصلہ ہو گیا مگر جیسا کہ ہوتا ہے سونے کی اس چڑیا کو ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر مفاد پرست حلقے نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا، چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدالتی فعالیت زوروں پر تھی، انہوں نے چند سماعتوں کے بعد نجکاری کے عمل کو غیر قانونی قرار دے کر روک دیا، ان دنوں پرائیویٹائزیشن کمشن کے سیکرٹری ایک نیک نام بیورو کریٹ زاہد عزیز تھے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے معتقد اور نامور ایٹمی سائنس دان سلطان بشیر الدین محمود کے حاشیہ نشین، ایک دن فائل بغل میں دبائے اخبار کے دفتر میں تشریف لائے اور زیر سماعت مقدمے میں چیف جسٹس صاحب کی ذاتی دلچسپی، نجکاری کے فوائد اور نجکاری کے خلاف فیصلے کی صورت میں ملک و قوم کو پہنچنے والے نقصان کی تفصیل بیان کی۔ مجھے یاد ہے انہوں نے کہا " اگر چیف جسٹس صاحب نے محض پرویز مشرف اور شوکت عزیز کو نیچا دکھانے، نجکاری سے متاثرہ فریقوں کو خوش کرنے اور کارکنوں کی واہ واہ سمیٹنے کے لئے نجکاری کا عمل روکا تو یہ پاکستان کو معاشی میدان میں کئی عشرے پیچھے دھکیلنے کی سازش ہو گی۔ سرمایہ کاری کا عمل رک جائے گا۔ سفید ہاتھی کی دیکھا دیکھی دیگر ادارے بھی خسارے کی راہ پر گامزن ہوں گے، ملک کی بین الاقوامی کی ساکھ مجروح ہو گی اور ایک دن آئے گا کوئی سٹیل مل کا خریدار ہو گا نہ کسی دوسرے ادارے کا۔ ریاست کے پاس تنخواہوں کے پیسے ہوں گے نہ سٹیل مل کے پاس سکریپ خریدنے اور بجلی و گیس کے بل ادا کرنے کی سکت۔"آج یہ کڑوا سچ ہے۔

2015ء سے سٹیل مل بند پڑی ہے، کارکن گھروں میں بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں اور بلاول بھٹو کے علاوہ مسلم لیگ کے قائدین کا فرمان ہے کہ ریاست ان مفت خوروں کو باقاعدگی سے ادائیگی کرتی ہے۔ یہ سوال پوچھنا کارکن دشمنی کے مترادف کہ ریاست اگر سٹیل مل کے ملازمین کو بغیر تنکا توڑے ماہانہ تنخواہ اور مراعات دینے کی مکلف ہے تو باقی سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کیوں خون پسینہ ایک کریں، صبح سے شام تک محنت مزدوری سے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالیں۔ کیا آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، میاں شہباز شریف اور ان کے ہمنوا اپنی شوگر ملوں میں کسی کارکن کو بغیر حاضری لگائے، آٹھ گھنٹے کام کیے، ایک دن کی تنخواہ دینے کے روادار ہیں؟ یہ حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ پڑھنے کا وہ کلچر ہے جس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ڈالی، ایوب دور کی صنعتی ترقی کا بیڑا غرق کیا اور ان کے ہونہار پیروکاوں کے علاوہ میاں نواز شریف جیسے متاثرین و مرعوبین نے اس مفت خور، کام چور کلچر کو مزید پروان چڑھایا، مگر بہت ہو چکی۔ سوویت یونین کے انہدام میں افغان مجاہدین کے ہاتھوں شکست کے علاوہ قومی معیشت کے زخموں سے رسنے والے خون کا کردار اہم تھا جو کام چوری کے کلچر نے لگائے۔ حکومت کے زیر انتظام اداروں کا خسارہ غیر ملکی قرضوں کی طرح قومی معیشت کو لگنے والا وہ زخم ہے جو بالآخر ریاست کو بدحال اور قریب المرگ کر سکتا ہے۔ عمران خان کی طرف سے سٹیل مل کے ملازمین کو تین سال کی تنخواہیں دے کر فارغ کرنے کا فیصلہ صائب ہے جس کی مخالفت عوام دشمنی ہے دس ہزار کارکنوں پر بیس کروڑ عوام کا مفاد قربان کرنا سنگدلی ہے، اس ذہنیت کا خاتمہ ازبس لازم۔