یہ ناقص مشاورت کا نتیجہ ہے یا محض پوائنٹ سکورنگ کی مجنونانہ خواہش؟ سینٹ کے انتخاب میں اوپن بیلٹنگ کی حکومتی تجویز بیک فائر کر گئی ہے۔ روز اوّل سے واضح تھا کہ آئین میں ترمیم کے بغیر سینٹ کے انتخابات شو آف ہینڈ یا اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کرانا ممکن نہیں، آئین اس معاملے میں واضح ہے اور آئینی سکیم سے چھیڑ چھاڑ پارلیمنٹ کو زیبا ہے۔ کوئی عدالت ازخود اس آئینی سکیم کو تبدیل کر سکتی ہے نہ حکومت کے پاس قومی اسمبلی اور سینٹ میں مطلوبہ اکثریت موجود کہ وہ اپوزیشن کے تعاون کے بغیر آئینی ترمیم کا کوہ ہمالیہ سر کر سکے، اس کے باوجود پہلے حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور اب عدالتی فیصلے کا انتظار کئے بغیر قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کا بل پیش کر دیا، دونوں بار عجلت اور بے حکمتی۔ حکومتی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا اور وفاقی کابینہ کو قائل کیا کہ وہ آئین میں ترمیم کے بغیر محض الیکشن ایکٹ میں ردوبدل کے ذریعے سینٹ کے انتخابات اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کرا سکتی ہے، حکومت کے حامی قانون دان اب یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ عدالت عظمیٰ سے یہ استفسار مقصود تھا کہ کیا حکومت کو اوپن بیلٹنگ کے لئے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی یا محض الیکشن ایکٹ میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ردوبدل کافی ہو گا؟
عام تاثر یہ ہے کہ بڑے مناصب پر فائز افراد ہر فن مولا ہوتے یں اور انہیں ہر چیز کا نہ صرف علم ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے فیصلوں اور اقدامات کے نتائج و عواقب سے بھی واقف ہوتے ہیں، اس مفروضے کی بنا پر اچھے خاصے سمجھدار لوگ ان کے لغو بیانات اور دعوئوں کا دفاع ایمانی جوش و جذبے سے کرتے اور بعدازاں خفت اٹھاتے ہیں، ان دنوں قانونی دنیا میں بیرسٹر اعتزاز احسن، فروغ نسیم، ڈاکٹر بابر اعوان، فاروق ایچ نائیک، خواجہ حارث اور اشتراوصاف علی خان جس مقام پر فائز ہیں کسی زمانے میں خالد ایم اسحق، اے کے بروہی، میاں محمود علی قصوری، یحییٰ بختیار اور خالد انور براجمان تھے۔ ان سے بالاتر صرف جدہ کے جادوگر جناب شریف الدین پیرزادہ تھے، جن کے سامنے کسی کا چراغ کم ہی جلتا۔ 1993ء میں میاں نواز شریف اور غلام اسحق خان کے مابین چپقلش شروع ہوئی تو صدر غلام اسحق خان کو شریف الدین پیرزادہ کی قانونی معاونت حاصل تھی جبکہ خالد ایم اسحق اور خالد انور وزیر اعظم نواز شریف کو کمک فراہم کر رہے تھے، جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی اور میاں صاحب کی حکومت بحال کی تو پنجاب پر میاں منظور وٹو کی حکمرانی تھی اور گورنر الطاف حسین سے مل کر وٹو صاحب نے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں وفاقی حکومت کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ اس زمانے میں میاں صاحب کی وفاقی حکومت عملا مارگلہ کی پہاڑیوں سے فیض آباد تک محدود تھی اور مخالف کالم نگار"سلطنت شاہ عالم از دلی تا پالم" کی پھبتی کستے، جو چنداں غلط نہ تھی۔
میاں صاحب پارلیمانی قوت کی بنا پر وٹو حکومت کو ختم کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے اپنے قانونی مشیروں سے رجوع کیا، جناب خالد ایم اسحق نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ایک قرار داد منظور کرائیں، اس قرار داد کی روشنی میں پنجاب اسمبلی اور وٹو حکومت کو معطل کریں اور صوبے میں ایمرجنسی نافذ کر کے ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیں، دوران مشاورت یہ سوال اٹھا کہ ایڈمنسٹریٹر کون ہو تو سابق گورنر میاں محمد اظہر کے نام پر اتفاق ہوا۔ خالد ایم اسحق اور خالد انور کی اس تجویز کی مسلم لیگ اور میاں صاحب کے دربار سے وابستہ دیگر قانونی ماہرین نے بھی مکمل تائید کی مگر حاجی سیف اللہ خان نے جنہیں 1973ء کے آئین کاحافظ قرار دینا بے جا نہ ہو گا اختلاف کیا اور وزیر اعظم سے کہا کہ یہ آئین اور قانون کی رو سے ناقابل عمل تجویز ہے، وفاقی حکومت کسی قرار داد کے بغیر بھی ایمرجنسی لگا کر صوبے میں ایڈمنسٹریٹر مقرر کر سکتی ہے مگر یہ ایڈمنسٹریٹر سرکاری اہلکار مثلاً چیف سیکرٹری ہو گا کوئی ایسا شخص نہیں جو ازروئے آئین و قانون ریاست کے ایگزیکٹو اور ایڈمنسٹریٹو اختیارات استعمال کرنے سے قاصر ہے، خالد ایم اسحق نے حاجی سیف اللہ کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ آپ کا پارلیمانی تجربہ اپنی جگہ مگر آئین اور قانون کو جتنا میں جانتا ہوں کوئی اور نہیں۔ میاں صاحب نے بڑے نام کے مشورے کو اہمیت دی، قرار داد کی منظوری کے بعد وفاقی گزٹ میں میاں محمد اظہر کے بطور ایڈمنسٹریٹر پنجاب تقرر کا نوٹیفکیشن شائع ہوا۔ میاں محمد اظہر کو رینجرز کی حفاظتی چھتری میں لاہور کے سول سیکرٹریٹ جا کر اختیارات سنبھالنے کا حکم دیدیا گیا۔ ادھر گورنر الطاف حسین نے چیف سیکرٹری جاوید قریشی اور اس وقت کے آئی جی پولیس کو حکم دیا کہ وہ وفاقی حکومت کے احکامات اور پارلیمنٹ کی قرار داد کی پروا کئے بغیر وٹو حکومت سے وفاداری نبھائیں اور میاں محمد اظہر کو سول سیکرٹریٹ میں داخل نہ ہونے دیں چنانچہ یہی ہوا، خالد ایم اسحق کا قانونی مشورہ، پارلیمنٹ کی قرار داد، وفاقی حکومت کا نوٹیفکیشن سب دھرے کے دھرے رہ گئے، میاں محمد اظہر گھر پر بیٹھے، رینجرز کی آمد کا انتظا کرتے رہے اور میاں منظور وٹو کی حکومت، غلام اسحق کی صدارت ختم کرنے کی خواہش میں مبتلا نواز شریف ایک بار پھر وفاقی حکومت سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے، "ڈکٹیشن نہیں لوں گا، اسمبلی نہیں توڑوں گا، استعفیٰ نہیں دوں گا" کا نعرہ بلند کرنے والے وزیر اعظم نے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کی مداخلت پربذات خودڈکٹیشن لی، اسمبلی توڑی اور استعفیٰ دیا، باقی تاریخ ہے۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد آج کل فروغ نسیم اور خالد جاوید خان کی قانونی مہارت کے گن گانے والوں کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ اردو کے محاورے "نام بڑے اور درشن چھوٹے" کو مت بھولیں، جو صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہے، عدالت میں زیر سماعت ریفرنس کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر پارلیمنٹ سے رجوع کا مطلب یہی ہے کہ حکومت کی ناقص قانونی ٹیم کو کامیابی کی ذرہ برابر اُمید نہیں، جبکہ اپوزیشن سے درپردہ مشاورت اور اتفاق رائے کے علاوہ دونوں ریفرنسوں میں دو تہائی اکثریت کے بغیر آئینی ترمیم کا بل پیش کرنے کا مقصد محض پوائنٹ سکورنگ ہے، گناہ بے لذت، لیکن پوائنٹ سکورنگ کا یہ انداز الٹا حکومت کے گلے پڑ سکتا ہے، بلکہ میرے خیال میں گلے پڑ گیا ہے۔ آئینی ترمیم کا بل پیش کر کے حکومت نے سپریم کورٹ کو راستہ دیدیا ہے کہ وہ ریفرنس واپس کر دے جبکہ پارلیمنٹ سے یہ بآسانی مسترد ہو سکتا ہے تب اپوزیشن عوام اور سنجیدہ حلقوں کو بآسانی یہ باور کرا سکتی ہے کہ حکومت اہم ترین آئینی اور قانونی معاملات پر بھی غورو فکر کی اہلیت رکھتی ہے نہ اس کے قانونی دماغ مفید مشورہ دینے کے قابل ہیں۔ اپوزیشن یہ پروپیگنڈا تو تسلسل سے کر رہی ہے کہ حکومت کی اپنی صفوں میں بے چینی کے آثار ہیں، ارکان اسمبلی وزیر اعظم اور پنجاب و خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے طرز عمل اور انداز کار سے مطمئن نہیں اور وہ موقع ملنے پر اپنی بے اطمینان کا اظہار سینٹ کے انتخابات میں کر سکتے ہیں، وزیر اعظم کی طرف سے ارکان اسمبلی کے لئے پچاس پچاس کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز کے اعلان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یوں اوپن بیلٹنگ کی تجویز پر خوب غورو فکر کئے بغیر فروغ نسیم، خالد جاوید جیسے وکیلوں کے مشورے پر عدالت عظمیٰ اور پارلیمنٹ سے بیک وقت رجوع نے عمران خان کی "سیاسی جارحیت" کو عملاً اندرونی خوف اور احساس شکست کے تاثر میں تبدیل کر دیا ہے اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ تاثر بسا اوقات حقیقت سے زیادہ طاقتور ثابت ہو تا ہے۔ عمران خان نے اوپن بیلٹنگ کی تجویز پیش کر کے اپوزیشن کو اخلاقی سطح پر چاروں شانے چت کر دیا تھا، یہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی کیفیت تھی مگر عجلت پسند اور ناقص قانونی ٹیم نے اس پیش قدمی کو پسپائی میں بدل دیا، مجھے تو خالد جاوید خان اور خالد ایم اسحق کے مشورے میں مطابقت نظر آتی ہے۔ یا پھر مرحوم یحییٰ بختیار یاد آتے ہیں جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھٹو کے وکیل تھے اور مقدمے کے قانونی پہلوئوں سے زیادہ سیاسی حالات کا تجزیہ کرتے رہے نتیجہ معلوم۔ نام بڑے درشن چھوٹے۔