اپنے وقت کے بے مثل خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری اسلامیہ کالج لاہور کے طلبہ سے محو کلام تھے، دنیا جہان کے موضوعات پر تبادلہ خیال کے دوران شاہ جی کو نجانے کیا سوجھی، شریک محفل طلبہ سے کہنے لگے۔ عزیز بیٹو! آپ لوگ اس اُمہ کا مستقبل ہو، مذہب سے شیفتگی اور اُمہ کا درد تمہاری باتوں سے عیاں ہے، داڑھی سنت رسول (ﷺ)ہے اپنے چہروں پہ سجا کیوں نہیں لیتے؟ طلبہ خاموش ہو گئے ایک تیز طرار طالب علم نے اس خاموشی کو توڑا اور کہا حضرت!اسلامیہ کالج میں داڑھی رکھنا مشکل ہے۔ حاضر جواب شاہ جی نے ترنت جواب دیا ہاں بیٹا خالصہ کالج میں داڑھی رکھنا آسان ہے، اسلامیہ کالج میں مشکل۔
مجھے یہ واقعہ حکومت پنجاب کی طرف سے صوبے کی سرکاری یونیورسٹیوں میں قرآن مجید باترجمہ پڑھائے جانے کی پابندی پر بعض احباب کے تنقیدی تبصرے پڑھ کر یاد آیا، اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست پر یہ وقت بھی آنا تھا کہ حکومت اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فہم قرآن کی تدبیر کرے گی، باترجمہ قرآن مجید کی تدریس لازم قرار پائیگی اور کلمہ گو دانشور و اہل قلم اس اقدام کا مذاق اڑائیں گے۔ مرا اے کا شکے ماورنہ زادے۔
علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کے عقیدے، روایات، معاشی و سماجی حقوق کے تحفظ کے لئے الگ ریاست کا تصوّر پیش کیا، قائد اعظمؒ نے اسلام کو قیام پاکستان کا جذبہ محرکہ قرار دیا۔ کہا "اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں " پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ قرآن فہمی کے بغیر بن نہیں سکتا اور جس کسی نے یہ کوشش کی وہ ہدف تنقید واستہزابنا کیوں؟ محض اس لئے کہ اگر مسلمانوں کی نسل نو نے قرآن مجید کو براہ راست پڑھنا اور سمجھنا شروع کر دیا تو صرف اہل مذہب کی اجارہ داری ختم نہ ہو گی بلکہ نام نہاد روشن خیالوں کے لئے جدیدیت، سیکولرازم اور لبرلزم کی آڑ میں مذہب بیزار تصوّرات اور نفسانی خواہشات کی ترویج بھی مشکل بلکہ ناممکن ہو گی۔ حیرت ہے کہ ایک طرف مذہب پر مولوی کی اجارہ داری کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر جونہی یہ اجارہ داری ختم کرنے کے لئے ملک میں قرآن و سنت کی براہ راست تعلیم و ترویج کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو، مختلف تاویلات کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، خوئے بدرا بہانہ بسیار
یہ روش افسوسناک ضرور ہے، ناقابل فہم نہیں، اسلام یہاں بہت سوں کے جی کا روگ ہے، یہ اسلام اور شعائر اسلام کے علاوہ اسلامی تہذیب و ثقافت، عظمت رفتہ اور نشاۃ ثانیہ کی فطری آرزو سے یک گو نہ گریزاور تنفّرکے سوا کیا ہے؟ کہ جونہی پی ٹی وی پر ترکی ڈرامہ ارطغرل غازی چلنا شروع ہوا ہمارے لبرل اور سیکولر حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی، عشق ممنوع اور میرا سلطان بھی ترکی ڈرامے تھے، بھارتی فلموں اور ڈراموں نے ہماری شوبز انڈسٹری کا بوریا بستر گول کر دیا مگر بیگانی ثقافت کی ترویج سے خائف فنکاروں، فلمسازوں، قلمکاروں میں سے کسی کی رگ حمیت نہ پھڑکی، پاکستانی ڈراموں میں سسر، بہو، دیور، بھابھی، بہنوئی سالی کے مابین معاشقوں کو پروموٹ کیا جا رہا ہے مگر مجال ہے کہ کسی کی غیرت جاگی ہو، ارطغرل غازی نے قومی تہذیب و ثقافت کے ان علمبرداروں کو "تتے توے" پر لاکھڑا کیا ہے حالانکہ ارطغرل ڈرامے میں مرد و خواتین کا لباس گلگت و بلتستان، چترال، کشمیر، چولستان اور بلوچستان میں بسنے والے پاکستانی باشندوں سے مختلف ہے نہ رہن سہن ہمارے قبائلی علاقوں سے متضاد۔ کھانے پینے کا انداز بلکہ مینو تک مختلف مسلم معاشروں کے روز مرہ سے ہم آہنگ ہے۔ البتہ مرد و خواتین کی گفتگو میں اللہ تعالیٰ، رسول اکرم ﷺ، حضرت علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم اور ممتاز صوفی ابن العربیؒ کے تواتر سے ذکر، شہدا کی نماز جنازہ، اذان و نماز اور وضو کے علاوہ حضور اکرم ﷺ کی سینے پر ہاتھ رکھ تعظیم و احترام سے بعض لوگوں کا سینہ شق اور دل و دماغ مجروح ہوتا ہے جس کا کوئی علاج ہے نہ تالیف قلب ممکن۔
یونیورسٹیوں میں قرآن مجید کی باترجمہ تدریس پراعتراض بھی ایسے ہی کسی تنگ نظر کو ہو سکتا ہے ورنہ یہ کام اب برسوں پہلے کرنے کا تھا۔ قرآن مجید کی باترجمہ تدریس سے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت میں مدد مل سکتی ہے جس کا ہمارے تعلیمی اداروں میں بدقسمتی سے فقدان ہے۔ فرقہ پرستی، نسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات کی ترویج کے سبب تعلیمی ادارے دانش گاہیں کم، سیاسی اکھاڑے زیادہ بن چکے ہیں، اس زہر کا خاتمہ بھی قرآنی تعلیمات سے ممکن ہے جبکہ سماجی برائیوں کی روک تھام بھی قرآن فہمی کے نسخہ کیمیا میں مضمر ہے۔ حکومت پنجاب ایک مسودہ قانون تیار کر چکی ہے جس کے تحت سرکاری جامعات کو محکمہ تعلیم کا تابع مہمل بنانے اور وائس چانسلرز، اساتذہ کرام کو نجی بورڈ آف گورنرز کی اردلی میں دینے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی خود مختاری سلب، درسگاہوں میں حریت فکر کی رہی سہی شمع گل کرنے کی یہ کاوش تاحال ہمارے اہل دانش، اہل قلم کی چشم بصیرت سے پوشیدہ ہے یا وہ جان بوجھ کر بے نیازی برت رہے ہیں، واللہ اعلم بالصواب۔ قرآن مجید کی باترجمہ تدریس البتہ باعث پریشانی ہے، سید عطاء اللہ شاہ بخاری اسلامیہ کالج میں طالب علموں کو باریش دیکھنا چاہتے تھے انہوں نے شائد سوچا نہ ہو کہ اقبال ؒاور قائد ؒکی فکری تگ و تاز اور سیاسی جدوجہد کے ثمر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دانش و بصیرت قرآن فہمی کے تصور سے الرجک ہو گی۔ مرا اے کاشکے مادرنہ زادے!