اللہ تعالیٰ میری اس خوش گمانی کی لاج رکھے، ادارے آہستہ آہستہ مضبوط ہو رہے ہیں اور ان پر شخصیات و گروہوں کی بالادستی دم توڑ رہی ہے، شریف اور زرداری خاندان کے شور شرابے کے باوجود نیب اپنی روش پر قائم ہے، اپوزیشن اور حکومت دونوں کے اہم ستون اس کی زد میں ہیں۔ وہ مقام ابھی نہیں آیا کہ سوفیصد غیر جانبداری، انصاف اور نتائج کی اُمید بر آئے لیکن سیف الرحمن اور قمر الزمان چودھری کے نیب سے موجودہ نیب کافی حد تک مختلف ہے، تازہ انگڑائی الیکشن کمشن آف پاکستان نے لی ہے، این اے 75کا ضمنی الیکشن کالعدم قرار دے کر اس نے اپوزیشن کے مطالبے کو پذیرائی بخشی۔ ایک لحاظ سے حکومت کو مایوس کیا ہے یا کم از کم حکومت کی صفوں میں موجود ان عناصر کو جو تئیس پولنگ سٹیشنوں کے پولنگ بیگز اور انتخابی عملے کی گمشدگی کو بھی معمول کا واقعہ قرار دے رہے تھے۔
1950ء کے عشرے سے 2018ء تک پاکستان میں ہونے والے ہر انتخاب پر انگلیاں اٹھیں، جھرلو اور دھاندلی کے شواہد سامنے آئے اور قتل و غارت گری کے واقعات ہوئے مگر کبھی متنازعہ انتخابات کو نتائج کے اعلان سے قبل کالعدم قرار دیا گیا نہ ایسی بے لاگ تحقیقات ہوئیں جس کے نتیجے میں کسی ذمہ دار شخص کو سزا مل سکے، 1977ء میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے پورا الیکشن ہی چرا لیا، اس بدترین تاریخی دھاندلی کے خلاف فقید المثال احتجاجی تحریک چلی جس کے نتیجے میں بھٹو صاحب نے دھاندلی کا اعتراف کرتے ہوئے دوبارہ الیکشن کا وعدہ کیا مگر ایفائے عہد کے بجائے ٹال مٹول اور حیل و حجت سے کام لینے لگے، اگر اس دور میں الیکشن کمشن آزاد، خود مختار اور غیر جانبدار ہوتا تو ازخود نئے انتخابات کا اعلان کر کے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا راستہ روک دیتا اور بھٹو بھی اقتدار سے محروم ہوتے، جان نہ گنواتے، تاریخ مختلف ہوتی، ایک غاصب حکومت کو بچاتے بچاتے اس وقت کے الیکشن کمشن نے ملک کو فوجی آمریت کے حوالے کر دیا جو اگلے گیارہ سال تک کوس لمن الملک بجاتی رہی۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے تحریک انصاف کے اُمیدوار اسجد ملہی کو الیکشن کمشن آف پاکستان کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی ہدائت کی ہے، میری ناقص رائے میں اپوزیشن کے مقابلے میں یہ عمران خان کی اخلاقی شکست کا آئینہ دار فیصلہ ہو گا۔ عمران خان کی شہرت چیلنج قبول کرنے والے کرکٹر، سوشل ریفارمر اور سیاستدان کی ہے بھارتی کھلاڑی سری کانت نے آئوٹ ہونے کے بعد چوں چرا کی تو عمران خان نے اوپنر بیٹس مین کو واپس بلا کر اگلی گیند پر آئوٹ کر دیا، مشہور زمانہ کرکٹ ایمپائر ڈکی برڈ کے غلط آئوٹ دینے پر بھی عمران خان چپ چاپ پویلین لوٹ گئے اور کہا جاتا ہے کہ اسی ایک غلط فیصلے پر پاکستان 1987ء کا ورلڈ کپ میچ ہار گیا۔ بعدازاں ڈکی برڈ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور عمران خان کی سپورٹس مین شپ کی تعریف۔ اب بھی تحریک انصاف اور اس کے امیدوار کو الیکشن کمشن کا فیصلہ چیلنج کرنے کے بجائے 18مارچ کو مقابلے میں اترنا اور ضمنی انتخاب جیت کر دکھانا چاہیے۔ الیکشن کمشن کے فیصلے سے اپوزیشن کے موقف کی تائید ہو ئی اور دھاندلی کے الزام کو تقویت ملی، مگر سیاسی طور پر اس کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچے گا، 19فروری کا ضمنی انتخاب مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی سید افتخار الحسن عرف زارے شاہ کی وفات کے بعد منعقد ہوا۔ سید افتخار الحسن برصغیر پاک و ہند کے نامور خطیب اور جمعیت علماء پاکستان کے طویل عرصہ تک صدر رہنے والے عالم دین سجاد ہ نشین آلو مہار شریف صاحبزادہ سید فیض الحسن کے صاحبزادے تھے اور وسیع سیاسی و روحانی حلقہ اثراور دھن دولت کے مالک، سید افتخار الحسن کے بار بار منتخب ہونے کے باعث یہ مسلم لیگ ن کی ناقابل تسخیر نشست سمجھی جاتی تھی اور ضمنی انتخاب کے دوران یہ تاثر عام تھا کہ مسلم لیگی امیدوار نوشین افتخار سید زادی، زارے شاہ کی صاحبزادی اور خاتون ہونے کے باعث آسانی سے الیکشن جیت جائیں گی۔ اگرچہ نوشین افتخار کو اپنے بھائی کی درپردہ مخالفت کا سامنا تھا مگر اسے کسی نے درخور اعتنا نہیں سمجھا، تحریک انصاف نے نوشین افتخار کے مقابلے میں اسجد ملہی کو میدان میں اتارا تو صرف غیر جانبدار حلقے ہی نہیں تحریک انصاف کے اہم وابستگان بھی اسے کمزور اُمیدوار قرار دیتے رہے جو پیسہ خرچ کرنے کا عادی ہے نہ سید خاندان کی طرح سوشل اور نہ مختلف طاقتور دھڑوں کی خوش دلانہ تائید و حمائت اسے حاصل ہے، سوچا یہ جا رہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) یہ نشست آسانی سے جیت لے گی۔ زیادہ سے زیادہ جیت کا مارجن کم ہو جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ اس کے ہمنوا تجزیہ کار اس خوش فہمی کا شکار بھی تھے کہ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام عمران خان سے بدلہ لینے کے جذبے سے نکلیں گے اور شیر پر مہر لگا کر انتخابی تاریخ بدل دیں گے۔ ہوا مگر اس کے بالکل برعکس۔
اب اگر تحریک انصاف قانونی چارہ جوئی کے بجائے میدان میں مقابلے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کے اُمیدوار کارکن اور ووٹر نئے جوش وجذبے اور جارحانہ تکنیک سے انتخابی مہم کا آغاز کریں گے، نوشین افتخار کو اسجد ملہی پر اب نفسیاتی برتری حاصل نہیں، ایک لاکھ سے زائد ووٹ لے کر اسجد ملہی نے نوشین افتخار اور مسلم لیگ(ن) کے ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر ختم کر دیا۔ اسے سرکاری اُمیدوار ہونے کا ایڈوانٹج حاصل ہے اور پیر مدنی جیسے کئی دوسرے بااثر افراد کا تعاون حاصل کرنا آسان۔ الیکشن کمشن یقینا اس بار پولنگ ڈے پر بہتر انتظامات کرے گا اور پولیس و انتظامیہ بھی نسبتاً پہلے سے زیادہ چوکس ہو گی۔ تحریک انصاف کو اپنی حکمت عملی میں موجود خامیاں بالخصوص اندرونی چپقلش ختم کرنے کا بہترین موقع مل رہا ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ قانونی چارہ جوئی سے امکانی شکست کا تاثر پختہ ہو گا اور اپوزیشن بالخصوص مریم نواز یہ پروپیگنڈا کرنے میں آزاد ہو گی کہ تحریک انصاف میدان سے بھاگ گئی۔
این اے 75کے انتخابات اب سینٹ الیکشن کے بعد ہوں گے اور کرم کی نشست جیت کر تحریک انصاف نے ارکان قومی اسمبلی میں ایک کا اضافہ کر لیا ہے، جس کا نقصان مخدوم یوسف رضا گیلانی کو ہو گاجس کے دو پکے ووٹ چھن گئے مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم الیکشن کمشن کے فیصلے سے خورسند ہے۔ الیکشن کمشن نے یہ فیصلہ کر کے سینٹ انتخابات کو تنازعہ سے بچا لیا ہے اور 18مارچ کے ضمنی انتخاب کے نتائج کو دوبارہ چیلنج کرنا مشکل ہو گا، اگر تحریک انصاف ضمنی انتخاب جیت گئی تو اپوزیشن کس منہ سے دھاندلی کی رٹ لگائے گی؟ یہ اہم سوال ہے۔ پنجاب میں سینٹ اُمیدواروں کی بلا مقابلہ کامیابی سے ان حلقوں کو خاصی مایوسی ہو گی جو چودھری صاحبان کے آصف علی زرداری کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی بنا پر کسی بڑے اپ سیٹ کی توقع کر رہے تھے، جن ارکان صوبائی اسمبلی نے موقع غنیمت جان کر حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا وہ بے چارے اب اپنے زخم چاٹیں، تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کو حصہ بقدر جثہ مل گیا، پرائی جنج میں ناچنے والے احمق اب 3مارچ کا انتظار کریں۔ تب تک میاں شہباز شریف بھی شائد مسلم لیگ(ن) پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر چکے ہوں۔