برادرم حفیظ قریشی کے توسط سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ارشاد حسن خان نے اپنی خود نوشت سوانح"ارشاد نامہ" ارسال کی ہے، جسٹس منیر، جسٹس انوار الحق کی طرح جسٹس ارشاد حسن خان بھی ہماری عدالتی تاریخ کے متنازعہ کردار ہیں، سیاستدانوں نے اپنی غلطیوں، کمزوریوں اور دوغلے پن کا ملبہ فوجی اور عدالتی کرداروں پر ڈال کر ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا میں ان سے زیادہ معصوم، مظلوم اور بے یارو مددگار مخلوق اور کوئی نہیں۔ ارشاد نامہ میں ارشاد حسن خان نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے جس سے اختلاف اور اتفاق کا حق ہر پاکستانی کو ہے لیکن کتاب دلچسپ ہے اور قابل مطالعہ۔ چند اقتباسات قارئین کی نذر۔"
صدر ضیاء الحق سے چند معاملات پر میرا اختلاف ہو گیا۔ ان میں سے ایک اہم معاملہ یہ تھا ججز کی تعیناتی کیسے کی جائے۔ ان کا نکتہ نظر یہ تھا کہ آٹھویں ترمیم کے بعد ججز کی تقرری وہ اپنی صوابدید پر کریں گے اور اس کے لئے انہیں کسی سے رائے لینے کی ضرورت نہیں۔ میرا یہ کہنا تھا کہ سارے پروسیجر پر عمل کیا جائے اور اس زمانے کے دستور کے مطابق، وزیر اعظم سے مشورہ کئے بغیر کسی جج کی تقرری نہ کی جائے۔ اس حوالے سے وہ ناراض تھے کہ ارشاد نے میرا کہنا نہیں مانا۔ ہمارے تعلقات میں تو کوئی فرق نہیں آیا۔ جب بھی کسی میٹنگ میں ملتے تھے بڑے اچھے انداز میں ملتے تھے لیکن ساتھ یہ طعنہ بھی دیتے تھے کہ تم نے میری بات نہیں مانی۔ تم سے کہیں بڑے گروئوں کے گرو، اے کے بروہی اور شریف الدین پیرزادہ جیسے لوگوں کا کہنا تھا کہ میں ایسا کر سکتا ہوں، لیکن تم کہتے رہے کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ اس پر ایک دفعہ میں نے کہا کہ اگر آپ موقع دیں تو میں کچھ بیان کروں۔ آپ کا کیا پروگرام ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، نہیں میں تو آج مری جا رہا ہوں۔ میں نے کہا: یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔ راستے میں باتیں کرتے جائیں گے۔ انہوں نے کہا: نہیں نہیں، آپ کی فیملی لاہور میں ہے۔ وہاں آپ کے بیوی بچے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ وہاں جائیں۔ جب جونیجو حکومت کو تحلیل کئے جانے کا اعلان ہوا تو رات ساڑھے بارہ بجے میں نے انہیں (صدر ضیائ) فون کیا۔ رابطہ ہوا تو میں نے کہا: جناب، اسمبلی ٹوٹ گئی۔ آئین کی تشریح پر میرے اور آپ کے اختلافات رہے۔ آپ ہمیشہ مجھے کہتے بھی رہے کہ تم نے یہ کام غلط کیا ہے۔ آپ کے ساتھ میں نے چار ساڑھے چار سال بطور سیکرٹری قانون کام کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ صحیح موقع ہے کہ میں ہائی کورٹ واپس چلا جائوں اور اپنا کام کروں۔ انہوں نے اپنی مخصوص حاضر جوابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ چونکہ حکومت سیاسی تھی اور آپ اسے خوش کرنا چاہتے تھے، تو آپ نے وہ رائے دے دی۔ کوئی بات نہیں۔
میں نے کہا: نہیں، وہ میری آزادانہ رائے تھی اور آج بھی میری رائے وہی ہے۔ اب میں واپس جانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا:ٹھیک ہے، لیکن آپ ابھی نہ جائیں۔ جانے سے پہلے اپنا کوئی متبادل ہمیں دیں۔
میری جگہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس ناصر اسلم زاہد کو چن لیا گیا۔ اس کے بعد علماء کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کو لے کر ہمیں سعودی عرب جانا تھا۔ یہ وہی علماء تھے جن کے ساتھ بیٹھ کر میں نے اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالے سے ڈرافٹ تیار کیا تھا۔ جانے سے دو روز پہلے صدر ضیاء الحق کا فون آیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بڑی ہچکچاہٹ کے ساتھ آپ کی درخواست قبول کر لی ہے۔ ہم تو چاہتے تھے کہ آپ کام کریں۔ لیکن جانے سے پہلے آپ اس وفد کو حج کے لئے لے کر جائیں۔
یہ کہہ کر جس انداز میں انہوں نے میری عزت رکھی، وہ میں کبھی بھول نہیں سکتا اور اس کے ساتھ ان کی یہ بات بھی کہ ارشاد صاحب، یہ دنیا کے کام ہیں، حکومتیں آتی ہیں، جاتی ہیں، یہ سیاسی معاملات ہیں، آپ کی اپنی رائے ہے، میری اپنی رائے ہے۔ کانفرنس ختم ہونے کے بعد آپ کو عمرہ بھی کرنا ہے۔ اللہ کے گھر میں وقت لگا کے آئیے گا۔ کوئی جلدی نہیں ہے۔ آپ کی جگہ آنے والے نئے سیکرٹری قانون، جسٹس ناصر اسلم زاہد، اس وقت چارج لیں گے جب آپ آئیں گے۔ باقاعدہ چارج کی منتقلی ہو گی۔ آپ کو استقبالیہ دیا جائے گا۔ اس کے بعد آپ جائیے گا۔
میرے سعودی عرب میں قیام کے دوران ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا۔ تعارفی تقریب کے دوران سعودی فرمانروا شاہ فہد کے ساتھ متعدد ممالک کے سربراہان موجود تھے جن سے غیر ملکی وفود کے سربراہان کا تعارف کرایا جا رہا تھا۔ میں نے شاہ فہد سے ہاتھ ملایا۔ ان کے ساتھ ترک صدر کنعان ایورن کھڑے تھے۔ ان سے ہاتھ ملایا تو انہوں نے میری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا: "تم اتنے سال کہاں رہے؟ میں نے تمہیں تلاش کرنے کی کوشش کی۔" میرا جواب تھا۔"آپ بھی تو بڑے مصروف ہو گئے تھے۔" ان کے مجھے یاد رکھنے پر میں ششدر تھا لیکن حاضر جوابی سے معاملہ سنبھل گیا۔ انہوں نے کہا کہ کھانے کی ٹیبل پر تم میرے ساتھ بیٹھو گے، باقی باتیں وہیں ہوں گی۔ ترک صدر کے ساتھ ڈیڑھ دو منٹ کی گفتگو سے باقی وفود میں میری حیثیت وی وی آئی پی جیسی ہو گئی۔ اس کے بعد جس نے بھی پوچھا، میں نے کہا کہ یہ میرا دوست ہے۔ تاہم میں نے اس تقریب سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی کیونکہ ان کے ساتھ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ جاتا تو جلد راز کھل جاتا کہ وہ کسی اور کی غلط فہمی میں مجھے اپنا لنگوٹیا سمجھ رہے ہیں۔
میں، خلیل الرحمن خان اور ناصر اسلم زاہد کوئٹہ میں تھے۔ کوئٹہ میں ایک پٹیشن آئی کہ سنیارٹی کی بناء پر سجاد علی شاہ صاحب چیف جسٹس نہیں بن سکتے۔ اس معاملے میں، میں سینئر جج تھا۔ میں نے اس پٹیشن پر فیصلہ دیا۔ ہم نے حکومت پاکستان کو نوٹس دیا اور کہا کہ بادی النظر سنیارٹی کے حساب سے یہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نہیں بن سکتے تھے۔ اس کے بعد یہ کیس فل کورٹ کو ریفر ہوا۔ تمام گیارہ ججز بیٹھے اور انہوں نے فیصلہ دیا کہ انہیں سنیارٹی کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا جائے۔ اس کے بعد اجمل میاں چیف جسٹس آف پاکستان بنے۔
صدر رفیق تارڑ مجھ سے چیف جسٹس پاکستان کا حلف لینے لگے تو کہا، ارشاد! اللہ کی شان دیکھو کہ مجھے آپ سے حلف لینا پڑ رہا۔ (مطلب یہ کہ میرا بس چلتا تو میں آپ کو پاکستان کا چیف جسٹس نہ بننے دیتا) ان ریمارکس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میرے اور ان کے مابین کیسے تعلقات تھے۔ میرے ان کے درمیان کبھی اچھے تعلقات نہیں رہے۔ ہمیشہ آپس میں "لگتی" رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ کہنا سچ کے قتل کے مترادف ہو گا کہ وہ بریف کیس لے کر کوئٹہ گئے تھے۔ یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔ میں کوئٹہ بنچ کی سربراہی ضرور کر رہا تھا لیکن میرے ساتھ خلیل الرحمن خان اور ناصر اسلم زاہد بھی تھے۔ یہ دونوں جج صاحبان بھی اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یہ دونوں حضرات میرے زیر اثر نہیں تھے۔ یہ کوئٹہ بنچ کا متفقہ فیصلہ تھا نہ کہ صرف میرا۔ یہ ایک عبوری فیصلہ تھا بعد میں سپریم کورٹ کے ایک اور لارجر بنچ نے جناب سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں اس فیصلے پر مُہر تصدیق بھی ثبت کر دی تھی"۔