Shehar Ko Barbad Kar Ke Rakh Diya Us Ne Munir
Irshad Ahmad Arif100
لاہور صرف پنجاب کا دارالحکومت اور پاکستان کا دل نہیں، شریف برادران کی سیاست کا قلعہ ہے۔ پیپلز پارٹی سے لاہور چھین کر ہی میاں نواز شریف نے قومی سطح پر اپنی سیاسی حیثیت مستحکم کی اور پھر بار بار وزیر اعظم بنے۔ 2011ء میں عمران خان نے مینار پاکستان پر تاریخی اجتماع سے مسلم لیگ (ن) کو لرزہ براندام کیا مگر 2013ء کے انتخابات میں وہ یہ قلعہ فتح نہ کر پائے۔ منگل کے روز مگر بارش نے شریف برادران کے اس سیاسی قلعے کی دیواروں میں دراڑ اور زندہ دلان لاہور کے دلوں میں بدگمانی ڈال دی۔ پہلی بار لاہوریوں نے سوچاکہ انہیں دس سال تک دلفریب نعروں اور گمراہ کن وعدوں سے بہلایا پھسلایا، بے وقوف بنایا گیا۔ پاکستان اور لاہور میں بارشیں ہر سال ہوتی ہیں اور بارشوں کے موسم میں پانی جمع ہونا اچھنبے کی بات نہیں مگر آٹھ گھنٹے کی بارش میں اتنی تباہی؟ مجھے یاد ہے 1980ء میں لاہور میں مسلسل دو روز تک زور داربارشیں ہوتی رہیں چند گھنٹے پورا شہر معطل ہو گیا اور شہر کی مساجد میں اذانیں دی جانے لگیں مگر مال روڈ پر بیس فٹ گہرا گڑھا پڑا نہ لکشمی چوک میں کشتیاں چلیں نہ شہر بدنما جھیل میں تبدیل ہوا۔ محکمہ موسمیات کے ریکارڈ کے مطابق 1980ء میں ہونے والی بارش ساڑھے تین سو ملی میٹر تھی یعنی منگل کی بارش سے ڈیڑھ گنا زیادہ۔ ان دنوں بلدیہ، ایل ڈی اے اور واسا کے پاس نکاسی آب کے جدید وسائل تھے نہ فنڈز کی بہتات مگر حکومت فعال تھی اور شہری ادارے با اختیار و مستعد۔ شہر کے ماسٹر پلان کو بھی جاہلانہ انداز میں چھیڑا نہ گیا تھا۔ پنجاب میں جنرل جیلانی کا ڈنکا بجتا تھا اور میئر میاں مجتبیٰ کے والد میاں شجاع الرحمن تھے فوجی آمریت کے دور میں میئر کو ہر معاملے میں گورنر پنجاب سے ہدایات لینے کی ضرورت تھی نہ چپڑاسی، جمعدار اور سیورمین کے عزل و نصب کے اختیارات جنرل جیلانی نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے تھے اور نہ ایل ڈی اے، واسا اور بلدیہ کے ادنیٰ اہلکاروں کو ہر معاملے میں لاٹ صاحب کی طرف دیکھنے کی ضرورت تھی۔ گزشتہ روز مسلم لیگ ن نے صورتحال کا ذمہ دار نگران حکومت کو قرار دیتے ہوئے یہ بے وقت کی راگنی چھیڑی کہ ہر سال مون سون کے دوران خادم اعلیٰ پنجاب اور ان کے وزراء سڑکوں، گلیوں میں نکل کر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کیا کرتے تھے جبکہ اس بار یہ نہ ہوا اور شہر ڈوب گیا، یہی دعویٰ دراصل اعتراف گناہ یا اعتراف جرم ہے۔ کیا بارش، آندھی، طوفان اور دیگر قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے منصوبہ بندی شہری اداروں کا فرض اور موقع کی مناسبت سے اقدامات ان کی ذمہ داری ہے یا وزیر اعلیٰ اور کابینہ اس کے مکلف ہیں۔ یہی طرز حکمرانی تو تمام خرابیوں کی جڑ اور شہر بے مثال کی بربادی کا سبب ہے۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی شہری اداروں کے سربراہان اور انتظامی کل پرزے ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس بات کے منتظر رہے کہ نگران وزیر اعلیٰ اور ان کے وزیر لانگ شوز پہن کر گھروں سے نکلیں تو وہ بھی ان کی پیروی کریں، منگل اور بدھ کے روز میڈیا پر وزیر اعلیٰ حسن عسکری رضوی نظر آئے، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے علاوہ واسا کے سربراہ کاذکر ہوا مگر مجال ہے کہ کسی نے میئر لاہور کرنل (ر) مبشر کا نام سنا ہو، حالانکہ شہر کے منتخب نمائندے وہ ہیں اور اگر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری مل کر پرویز مشرف دور کے ضلعی حکومتوں کے نظام کے بخیے نہ ادھیڑتے تو یہ ذمہ داری میئر لاہور کی تھی کہ وہ شہر کو تباہی اور شہریوں کو مشکلات سے بچاتے اور یہ شہر بے مثال"وینس" نہ کہلاتا۔ پاکستان اس وقت جن مالیاتی، اقتصادی، سماجی، سیاسی اور خارجی داخلی مشکلات سے دوچار ہے وہ بنیادی طور پر اس شخصی حکمرانی کے پیدا کردہ ہیں جسے جنم تو دراصل فوجی آمریتوں نے دیا مگر پروان ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور ان کے پیروکاروں نے چڑھایا۔ تمام وسائل اور اختیارات فرد واحد نے سمیٹ کر پورا ملک اپنے بے شعور و ناتجربہ کار نورتنوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کی، ایک کا آئیڈیل نواب آف کالا باغ امیر محمد خان تھا دوسرے کا جنرل ضیاء الحق اور جنرل غلام جیلانی، نتیجہ معلوم۔ بارش نے لاہور کا غازہ اتار کر اس طرز حکمرانی کی خامیاں، کمزوریاں اور تباہ کاریاں عیاں کر دیں، لاہور شریف برادران کے طرز حکمرانی اور انداز سیاست کا ماڈل تھا، میاں شہباز شریف نے کراچی اور خیبر پختونخواہ کے جلسوں میں بار بار کراچی اور پشاور کو لاہور بنانے کا دعویٰ کیا جس پر ان کے مداحوں اور قصیدہ خوانوں نے خوب تالیاں بجائیں مگر ایک ہی بارش نے ماڈل کا جو حال کیا اسے دیکھ کر کراچی اور پشاور والے کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں کہ توبہ توبہ، بخشو بی بلّی چوہا لنڈوراہی بھلا۔ دنیا بھر میں شہری ادارے بالخصوص عوام کے منتخب بلدیاتی ادارے نچلی سطح پر تعمیر و ترقی اور عوامی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں پاکستان میں مگر سیاستدان حکمران بن کر بھی اپنے آپ کو موری ممبر کی سطح سے بلند کرتے نہ اوورسیر، تھانیدار اور کلرک کی سوچ سے اوپر اٹھنے کی سعی کرتے ہیں، وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ کلرک، اوورسیر اور تھانیدار کی طرح مال پانی بنانے پر یقین رکھتے اور قومی وسائل میں سے حصہ رسدی وصول کرتے ہیں۔ اختیارات کی مرکزیت ہمیشہ کرپشن کو جنم دیتی ہے اور ہوس زر اداروں کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لاہور پر گزشتہ روز جو بیتی وہ پنجاب اور دیگر صوبوں کے ووٹروں کے لیے چشم کشا ہے، پیپلز پارٹی کی کارگزاری سے تو قوم پہلے ہی واقف ہے اس نے ایم کیو ایم سے مل کر عروس البلاد کراچی کو کھنڈر میں تبدیل کیا سندھ کا ایک شہر اور قصبہ ایسا نہیں جس کی بلاول بھٹو مثال دے کر عوام سے یہ کہہ سکیں کہ ہمیں ووٹ دیں گے توہم آپ کی گوٹھ، شہر اور علاقے کو اس شہر اور قصبے کی طرح صاف ستھرا، شہری سہولتوں سے آراستہ اور امن و امان، روزگار اور ترقی کا گہوارہ بنا کر دکھائیں گے۔ لاہور کی بربادی نے ایک بار پھر قوم کے باشعور طبقات کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ جب تک قومی ادارے مضبوط اور مستحکم نہیں ہوتے۔ وسائل اور اختیارات افراد کے بجائے ان اداروں کے سپرد نہیں کئے جاتے، عوامی مسائل حل کرنے کے وہی طریقے اختیار نہ کئے جائیں جو دنیا بھر میں مروج ہیں اور مغلئی طرز کی حکمرانی کا قلع قمع نہیں ہوتا پاکستان پائیدار ترقی کر سکتا ہے نہ قومی وسائل کو نمائشی منصوبوں پر برباد ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری یا شہباز شریف اور بلاول بھٹو تو اس انداز حکمرانی کے خوگر اور تبدیلی میں رکاوٹ ہمیں ان سے نجات پانی ہو گی۔ دس سال سے بلا روک ٹوک جاری جمہوری نظام کے لیے کیا یہ شرمناک بات نہیں کہ پاکستان کا معاشی دارالحکومت پینے کے پانی کی کمی کی وجہ سے بلک رہا ہے، لوگ اپنے عوامی نمائندوں اور حکمرانوں کے سامنے مٹکے اور کنستر اٹھا کر احتجاج کر رہے ہیں اور زندہ دلوں کا شہر بارشی پانی میں ڈوبا بچائو بچائو پکار رہا ہے۔ بلاول بھٹو کے حوصلے کو داد دینی چاہیے کہ وہ ڈھٹائی سے سمندر کے پانی کو میٹھا کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے جبکہ لاہور کے حکمران مہر بلب ہیں البتہ بچے بچونگڑے اس ناقص منصوبہ بندی و تعمیرات، نااہلی و نالائقی اور جلد بازی میں وسائل کے ضیاع کا ذمہ دار نگران حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔ جسے اقتدار سنبھالے ایک ماہ ہوا اور اسے صرف الیکشن کے معاملات تک محدود رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ پچھلے تیس سال کے دوران پنجاب کے جتنے وسائل لاہور اور سندھ کے وسائل کراچی کی تعمیر و ترقی پر خرچ ہوئے یا خرچ کرنے کا دعویٰ کیا گیاان کا درست تخمینہ لگا کر کسی دیانتدار اور خوف خدا رکھنے والے شخص کے سپرد کیے جائیں تو وہ بلا مبالغہ جدید سہولتوں سے آراستہ واشنگٹن، ٹوکیو اور پیرس کے ہم پلہ دو نئے کراچی اور دو نئے لاہور بساسکتا ہے۔ جہاں کوئی کچی آبادی ہو گی نہ ٹپکتی چھت والا مٹی گارے کا کوٹھا اور نہ بدبو دار جوہڑ۔ مگر کوئی سوچے تو ؎شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہواپھر مجھے اس شہر میں نامعتبر اس نے کیاشہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیرؔشہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا