گوجرانوالہ جلسہ حاضری کے اعتبار سے اپوزیشن کا تسلی بخش شو تھا، توقعات کے عین مطابق مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق جلسے کی کامیابی کے لئے کام کیا، لاکھوں کے اجتماع کی کسی کو توقع تھی نہ ان دنوں اتنے بڑے اجتماعات کا رواج ہے۔ لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژن سے مسلم لیگ (ن) کے چھ سات درجن ارکان اسمبلی اگر اتنے لوگ بھی اکٹھے نہ کر پاتے تو ان کی سیاست کا جنازہ نکل جاتا، ہمارے دوست فاروق عالم انصاری نے مگر حیرت انگیز بات بتائی کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی تعداد اگر زیادہ نہیں تو مسلم لیگی کارکنوں کے برابر تھی جو حیران کن امر ہے۔ گویا بلاول بھٹو اور ان کے قریبی ساتھی پنجاب میں کارکنوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ میاں نواز شریف نے عدلیہ کے بعد فوجی قیادت سے براہ راست تصادم اور محاذ آرائی کا راستہ اختیار کر کے مسلم لیگ کی کشتی میں سوراخ کر دیا ہے، مفاہمت کے امکانات معدوم ہونے کے بعد قائد محترم نے "ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے "کی جو حکمت عملی وضع کی ہے اس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہے، مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان اگر اپنے مزاج کے برعکس یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ پاکستان کی سیاست اور اقتدار کے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ بالخصوص بندۂ خاکی کا اہم کردار ہے، ماضی کے سرپرستوں سے ٹکرانے پر بضد ہے تو تحریک انصاف اور عمران خان کا فطری متبادل پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو ہے جس نے تاحال اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف رکھا آصف علی زرداری کی طرح اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات نہیں کی۔
سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ڈی ایم جیسے اتحادوں کے جلسے کامیاب ہی رہتے ہیں کہ اب سیاست کی طرح جلسہ جلوس بھی دولت کا کھیل ہے۔ جو جماعت یا اتحاد گاڑیوں کا کرایہ، کارکنوں کی آمدو رفت، خورو نوش کے اخراجات اور دیگر لوازمات پورے کرنے کے قابل ہے اس کے لئے جلسہ کرنا مشکل نہیں، اس کا مطلب لیکن یہ ہرگز نہیں کہ گوجرانوالہ کا جلسہ زیادہ دولت خرچ کرنے سے کامیاب ہوا، گوجرانولہ ڈویژن اور لاہور مسلم لیگ(ن) کا گڑھ ہے اور یہ جلسہ سابق حکمران جماعت کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا، تاہم گوجرانوالہ جلسہ سے ملکی سیاست میں بھونچال آیا نہ ایوان اقتدار پر کپکپی طاری ہوئی، میاں صاحب کی تقریر کے بعد مریم نواز اکھڑی اکھڑی نظر آئیں اور تقریر میں ربط برقرار نہ رکھ سکیں، پی ڈی ایم کی قیادت نے میرا نہیں خیال کہ ایس او پیز طے کئے ہوں ورنہ مریم نواز تقریر کے بعد سٹیج نہ چھوڑتیں اور بلاول کے علاوہ مولانا کی تقریر ضرور سنتیں، یہی حرکت بلاول نے کی، دونوں جماعتوں کے کارکنوں کی اکثریت نے اپنے لیڈروں کے ساتھ پنڈال کو خیر باد کہہ دیا۔ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو یہ دکھانے کے لئے کہ سامعین میں کثیر تعداد ان کے حامیوں کی ہے* مولانا کی تقریر سے قبل سٹیج سے اُتر گئے اور یہ ثابت کیا کہ پی ڈی ایم میں مولانا کی حیثیت شامل باجہ کی ہے ورنہ پی ڈی ایم کے سربراہ کی تقریر سے قبل پنڈال کو بے رونق کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو براہ راست ہدف تنقید بنا کر پی ڈی ایم اور مسلم لیگ(ن) کو مشکل میں ڈال دیا گویم مشکل و نہ گویم مشکل کی صورت حال پیدا کر دی، جلد یا بدیر بلاول بھٹو کو وضاحت سے بتانا ہو گا کہ وہ میاں صاحب کے بیانئے سے متفق ہیں یا نہیں؟ میاں صاحب کا مقصد واضح ہے وہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کی روائتی پالیسی پر عمل پیرا ہیں "میں یا میرا خاندان اقتدار میں نہیں آ سکتا تو کوئی دوسرا سیاستدان اقتدار کے مزے کیوں لے"۔ فوجی قیادت کو ٹارگٹ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جب حکومت پاکستان عدالتی فیصلے کے مطابق انہیں وطن واپس لانے کی کوشش کرے تو وہ برطانوی حکومت کو باور کرا سکیں کہ وطن واپسی پر فوجی قیادت میری تقریروں اور فوج مخالف بیانیے کی بنا پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنائے گی لہٰذا مجھے برطانیہ بدر نہ کیا جائے۔ 4جولائی 1999ء کو کرگل سے فوج واپس بلانے کی بات ماننے کے بعد امریکی صدر کلنٹن کو انہوں نے یہی بتایا تھا کہ وطن واپسی پر مجھے اور میرے خاندان کو فوج سے خطرہ ہے چنانچہ بروس ریڈل کے بقول امریکی حکومت نے انہیں محفوظ وطن واپسی کی یقین دہانی کرائی۔ احتساب کے حکومتی بیانیے کو کند کرنے کے لئے تجربہ کار اور گھاگ سیاستدان نے براہ راست فوجی قیادت کو ٹارگٹ کیا اور اپنی دلیری و جمہوریت پسندی کی دھاک بٹھانی چاہی مگر اس سوال کا جواب ان کے پاس نہیں کہ پچھلے سال انہوں نے اپنی پارلیمانی پارٹی کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتملازمت میں توسیع کے پیش کردہ بل کی غیر مشروط حمایت کا حکم کیوں دیا اور اس وقت قوم کے علاوہ اپنے کارکنوں کو اندھیرے میں کیوں رکھا؟ صاف ظاہر ہے کہ اس وقت انہیں مریم نواز کی لندن روانگی اور مقدمات میں رعائت ملنے کی اُمید تھی اور یہ توقع بھی کہ مارچ سے اگست کے دوران عمران خان کی حکومت ناکامی سے دوچار ہو گی اور اُن کے لئے نہ سہی ان کی صاحبزادی کے لئے اقتدار کے بند دروازے کھل جائیں گے، اُمیدوں اور توقعات کی شمع بجھ چکی ہے اور وطن واپسی پر جیل جانا میاں صاحب کو پسند نہیں، چاروناچار مایوس و مضطرب میاں صاحب نے تصادم کی راہ اختیار کی، اطمینان یہ ہے کہ وہ لندن میں محفوظ ہیں اور مریم نواز کو خاتون ہونے کے ناطے ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جس سے میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز دوچار ہیں۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران اپنی تقریروں سے میاں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ میں موجود اپنے ہمدردوں اور خیر خواہوں کو شرمندہ کر ایا اور عمران خان کے موقف کو درست ثابت کیا کہ دونوں باپ بیٹی پر اعتماد کرنا، انہیں ملک سے باہر بھیجنا یا ان کے کسی وعدے، یقین دہانی پر اعتبار کرنا گھاٹے کا سودا ہے سب سے زیادہ شرمندہ میاں شہباز شریف ہوں گے جو اپنے برادر بزرگ کے لئے دوبار وزارت عظمیٰ، انہیں مراعات دلانے کے لئے اپنی ساکھ اور تعلقات کی قربانی دے چکے۔ جن لوگوں نے علاج کے بہانے میاں صاحب کو جیل سے نکلنے میں مدد کی وہ آج سب سے زیادہ پشیمان ہوں گے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ گوجرانوالہ جلسے میں تقریر آ بیل مجھے مار کی کلاسیکل مثال تھی، سیاستدان ایسی ہی حرکتوں سے فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرتے اور پھر پچھتاتے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ اس تقریر سے مرعوب اور متاثر ہو کر فوجی قیادت منت سماجت پر اُتر آئے گی اور میاں صاحب کو ایک بار پھر اقتدارسنہری پلیٹ میں پیش کرے گی، فوج میں پھوٹ ڈالنے کی ایک ناکام کوشش 1999ء میں ہوئی تازہ کوشش میں میاں صاحب نے مسلم لیگ کے علاوہ دس جماعتوں کا کندھا استعمال کیا، دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ بھارتی میڈیا میاں صاحب کی تقریر کو پاکستانی فوج کے خلاف چارج کے طور پر پیش کر رہا ہے اور نواز شریف کی ایوان اقتدار سے بے دخلی کا ذمہ دار موجودہ آرمی چیف کو قرار دینے میں مگن، میاں صاحب کا بیانیہ اگر ہمارے ازلی دشمن بھارت کو سازگار ہے تو مسلم لیگ کے سنجیدہ فکر اور محب وطن عناصر بالخصوص ارکان اسمبلی کو سوچنا پڑے گا کہ وہ اپنے قائد کے بیانیے کا بوجھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں۔