15ستمبر سے تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ جیتنے کی نوید ہے، رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت۔ پاکستانی قوم پر اللہ تعالیٰ نے خاص کرم کیا، رحمت ربّ جوش میں آئی اور طبی سہولتوں سے محروم منصوبہ بندی سے نابلداور حفاظتی تدابیر سے بے پروا قوم پر نازل ہونے والی مصیبت ٹل گئی۔ ؎
جے ویکھاں میں عملاں ولے، کجھ نئیں میرے پلّے
جے ویکھاں تیری رحمت ولے، بلّے بلّے بلّے
یہ رحمت ربّ کے سوا کیا ہے کہ دنیا بھر میں سائنسی برتری، تکنیکی بالادستی اور طبّی مہارت کا ڈھنڈورا پیٹنے والا امریکہ کورونا کے سامنے کھیت رہا اور پاکستان جیسا بے وسیلہ ملک ان جانی و مالی نقصانات سے بچ گیا جن کی چتاونی عالمی ادارہ صحت کے علاوہ لندن کا امپریل کالج دے رہا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ کا ہیلتھ سسٹم بلاشبہ قابل رشک ہے سائنسی برتری سے انکار ناممکن مگر ہوا کیا؟ امپریل کالج لندن کے ماہرین نے صرف ایک دن یعنی 10اگست کو پاکستان میں ستر ہزار سے زیادہ اموات کی پیش گوئی کی۔ امریکہ اور یورپ کو اپنے وسائل پر ناز تھا، طبی مہارت اور سہولتوں پر تکیہ تھا اور بہترین منصوبہ بندی کا زعم تھا جو ایک ذرّہ بے نشاں نے خاک میں ملا دیا، پاکستان کے عوام نے عادت کے مطابق دعائوں اور التجائوں کا سہارا لیا۔ چند روز قبل پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بتایا کہ صوبے میں جوں ہی پہلے کورونا مریض کا پتہ چلا میں نے آیت کریمہ کا ورد شروع کر دیا اور اپنے سٹاف سے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے، ہم سرکاری اور نجی سطح پر اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام وسائل اور صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے مگر اللہ کی مرضی اور مدد کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے، سب صبح دوپہر شام آیت کریمہ کا ورد اور دفع بلیات کی دعا کریں۔
مارچ سے جون تک جتنا صدقہ و خیرات پاکستان میں ہوا، لوگوں نے مساجد اور گھروں میں اپنی خطائوں کی معافی مانگی، اجتماعی توبہ و استغفار کیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے کسی دوسرے ملک میں باید و شائد۔ یہ پاکستانیوں کا دیرینہ وطیرہ ہے، مصیبت میں گھبرانے، مایوس ہونے کے بجائے اللہ کو یاد کرتے اور خوب گڑ گڑاتے ہیں، احتیاط سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور دعائوں پر یقین رکھتے اور مالک حقیقی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ شائد جانتے ہیں کہ ؎
عدل کریں تے تھر تھر کمبن اچیاں شاناں والے
فضل کریں تے بخشے جاون، میں جے وی مُنہ کالے
حدیث قدسی کے مطابق اللہ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں وہ جیسا چاہے میرے ساتھ گمان کرے"(انا عند ظن عبدی بی، فلیظن بی ماشائ) تمام کلمہ گو عموماً اور پاکستانی عوام بالخصوص ہمیشہ اللہ کی رحمت کے طلب گار رہتے ہیں اور یہی گمان کرتے ہیں کہ وہ رحمت رب سے کبھی محروم نہیں رہیں گے۔ بقول اقبالؒ "میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے" جس سرزمین پر عاشقان رسول ﷺ اپنے آقا و مولا ﷺ کی حرمت و ناموس پر اپنا تن من دھن قربان کرنے کو بے تاب رہتے ہوں جس دھرتی نے غازی علم الدین شہید، عبدالرزاق چیمہ شہید اور غازی ممتاز قادری شہید کو جنم دیا ہو وہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے محروم رہے، ناممکن۔
اطمینان بخش بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سے جب کورونا کی پسپائی کا سبب پوچھا گیا تو ماضی کے حکمرانوں کی طرح شیخی بگھارنے کے بجائے انہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے اور ان بے کس و بے وسیلہ خاندانوں کی دعائوں کا ثمر جنہیں ریاست نے جذبہ انسانی، ہمدردی کے تحت کورونا کے دنوں میں خصوصی مالی امداد سے نوازا، ریاست رحمدلی کرے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ ہم اپنے اعمال و افعال کی طرف دیکھیں، طبی سہولتوں کا جائزہ لیں اور حکومتی انتظامات پر نظر دوڑائیں تو "کجھ نئیں میرے پلّے" جون کے تیسرے ہفتے ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے بستر باقی رہے تھے نہ ڈاکٹر مزید بوجھ اٹھانے کے لئے تیار اور نہ ریاستی و حکومتی مشینری میں تاب و تواں باقی مگر اچانک مریضوں کی تعداد اور اموات میں اضافہ رک گیا اور سارے کے سارے منفی اندازے، تجزیے، سروے دھرے کے دھرے رہ گئے، یہ سب کچھ اتنا اچانک تھا کہ حکومتی ترجمان دنگ رہ گئے، بھارت میں لاک ڈائون سخت تھا، تیاریاں کافی بہتر اور طبی سہولتوں کے علاوہ متاثرین کی امداد کے لئے کھربوں روپے مختص مگر آج عالم یہ ہے کہ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اموات رکنے میں نہیں آ رہیں۔ وجہ کسی کو معلوم نہ کوئی تدبیر کارگر۔ شائد عاشقان رسول ﷺ کی اس دھرتی کے اجتماعی و انفرادی عیب ڈھانپنا مقصود تھا۔ ؎
اک گناہ میرا ماپے ویکھن دیون دیس نکالا
لکھ گناہ میرا اللہ ویکھے، اوہ پردے پاون والا
ستارالعیوب نے ہماری قومی، ریاستی، حکومتی کوتاہیوں، کمزوریوں بلکہ بداعمالیوں سے چشم پوشی فرمائی، ان گناہوں کو بھی معاف کیا جو کورونا کے ہنگام ہم سے سرزد ہوئے، چہرے کے ماسک، سے لے کر دستانوں اور آکسی میٹرز کی چور بازاری، جان بچانے والی ادویات کی کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت، نجی ہسپتالوں کی لوٹ مار اور بعض ڈاکٹروں کی سنگدلی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کاروبار زندگی رواں دواں ہے، تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ ہو گیا اور باقی صرف شادی ہال رہ گئے ہیں جن کا کھلنا باقی ہے۔ احتیاط تو ریستورانوں اور کاروباری اداروں میں ہو رہی ہے نہ سرکاری و نجی دفاتر میں، ریستورانوں کا حال پتلا ہے اور کسی کو یقین نہیں کہ لاکھوں کی تعدادمیں تعلیمی اداروں کے کروڑوں طلبہ حکومتی ہدایات کی پابندی کریں گے۔ یہ ہمارا مزاج ہے نہ وطیرہ۔ دعا یہ کرنی چاہیے کہ یے بے احتیاطی کورونا کی کسی نئی لہر کا سبب نہ بنے، اللہ تعالیٰ نے مصیبت میں دستگیری فرمائی، آزمائش آئی اور گزر گئی، شکران نعمت واجب ہے، اللہ تعالیٰ شکر ادا کرنے والوں کی نعمتوں میں اضافہ فرماتا ہے اور ناشکروں کو آزمائش سے دوچار۔ کیا ہم، ہمارے حکمران، قائدین محترم اور عوام آفت کے ٹلنے اور آزمائش سے نکلنے پر اجتماعی تشکر، کوئی تقریب برپا کر سکتے ہیں۔ سب ہاتھ اٹھا کر بہ چشم نم، دست بہ دعا ؎،
رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا