Teri Awaz Makkay Aor Madinay
Irshad Ahmad Arif99
ٹویٹر پر نعیم بخاری نے عمران خان کی تقریر پر یک سطری تبصرہ چاہا۔ میں نے لکھا "تری آواز مکّے اور مدینے" عمران خان کا قوم سے خطاب تقریر نویس کے الفاظ چبانے اور خوشامدیوں کا آموختہ دہرانے والے کسی شعبدہ باز سیاست دان کا نہیں ایک لیڈر کا خطاب تھا جسے عوامی مسائل اور قومی مشکلات کا ادراک ہے اور حل معلوم۔ ایسی ہی گفتگو سن کرسیانے کہتے تھے از دل خیزد برد ل ریزد۔ اقبالؒ کے الفاظ میں ؎دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہےپر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہےریاست مدینہ کا ذکر اب ہمارے وارثان محراب و منبر بھی کم کرتے ہیں۔ جنہیں عزت، منصب اور رزق سرکار مدینہﷺ کے طفیل ملتا اور جو دین کے محافظ کہلاتے ہیں۔ عمران خان اور خادم حسین رضوی کے سوا کسی نے ریاست مدینہ کو اپنی انتخابی مہم کا موضوع نہیں بنایا۔ ایک مذہبی سیاستدان کے بارے میں تو وکی لیکس میں انکشاف ہوا کہ وہ امریکی سفارتکاروں سے اقتدار کی بھیک مانگتا رہا۔ دلیل یہ پیش کی کہ پاکستان جیسے بنیاد پرست معاشرے میں ایک مذہبی رہنما امریکی مفادات کا تحفظ بہتر انداز میں کر سکتا ہے۔ عمران خان نے پاکستان کو ریاست مدینہ میں تبدیل کرنے اور اقبالؒ و قائدؒ کی تعلیمات کے مطابق ایسا معاشرہ تشکیل دینے کا اعلان کیا جہاں زکوٰۃ دینے والے بہت ہوں گے مگر زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ ہو گا۔ یہ صاف گوئی، اسلام سے وابستگی اور یہ عزم۔ ایں کار ازتو آید و مرداں چنیں کنند۔ عمران خان جب وزیر اعظم ہائوس کے 524ملازمین، 88گاڑیوں کا ذکر کر رہے تھے تو میرا خیال تھا کہ وہ 524کی جگہ صرف 24ملازمین سے کام چلانے 88کی جگہ 8گاڑیاں استعمال کرنے اور باقی کو کہیں اور کھپانے کی بات کریں گے مگرانہوں نے صرف دو گاڑیاں اور دو ملازمین اپنے لیے مختص کر کے ہر اس شخص کو حیران کر دیا جو بڑے گھروں میں نوکروں چاکروں، مہنگی گاڑیوں کی تعداد سے واقف ہے۔ معلوم نہیں یہ عمران خان کا اپنا فیصلہ ہے یا ان کی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی کا مشورہ۔ لیکن جو بھی ہے حیران کن اور دلیرانہ ہے۔ عمران خان نے قائد اعظم کی یاد تازہ کر دی جو قومی وسائل کے بارے میں اتنے ہی حساس تھے، نوکروں چاکروں کی فوج ظفر موج کو پسند کرتے نہ قومی خزانے سے ایک پائی ناجائز خرچ کرنے کی اجازت دیتے۔ کرنل الٰہی بخش، جنرل گل حسن، گروپ کیپٹن عطا ربانی اور شمس الحسن نے اپنی کتابوں میں قائد اعظم کی کفایت شعاری اور دیانت و امانت کے کئی واقعات لکھے ہیں جو معلوم نہیں عمران خان نے پڑھے یا نہیں، لیکن کل کی تقریر میں ان کا عکس نظر آیا۔ یہ قائد اعظم تھے جو ڈاکٹروں کے مشورے کے باوجود اپنی پسند کا کھانا بنانے والے ہندوستانی باورچی کو زیارت میں رکھنے پر راضی نہ ہوئے اور فوری واپس بھیج دیا کہقومی خزانے پر بوجھ نہ پڑے۔ جنرل اکبر خاں نے پسندیدہ پھل بھیجے تو دوبارہ نہ بھیجنے کی تلقین کی اور اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ وہ علاج کے لیے بیرون ملک چلے جائیں یا ولایت سے کوئی قابل ڈاکٹر علاج معالجے کے لیے بلا لیا جائے۔ کہا!غریب ریاست اس کی متحمل نہیں۔ عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس میں وفاقی وزراء کے غیر ضروری دوروں اور سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج معالجے پر پابندی سے یہ امید پیدا ہوئی کہ اب واقعی قومی وسائل صرف غریب، بے آسرا اور کمزور طبقے کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں گے۔ ایک فیصلہ اگر اور بھی ہو جائے تو سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی حالت چند ماہ میں بہتر ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ آئندہ کسی سرکاری ملازم، عوامی نمائندے اور وزیر مشیر کے بچے اندرون ملک نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں گے نہ علاج نجی ہسپتال میں ہو گا۔ سرکاری ملازمین اور عوامی نمائندے علاج معالجہ سرکاری ہسپتالوں سے کرائیں گے اور ان کے بچے سرکاری سکولوں، کالجوں، جامعات میں پڑھیں گے۔ یہ پابندی عائد کرنے کے بعد عمران خان کو کبھی کسی سے پوچھنا نہیں پڑے گا کہ سرکاری ہسپتال شوکت خانم ہسپتال کی طرح اور سرکاری جامعات نمل یونیورسٹی کی طرح معیاری طبی و تعلیمی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں یا نہیں؟ عوامی نمائندے اور بیورو کریٹس ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انہیں بہتر بنائیں گے۔ قوم کی خاطریا عمران خان کے ڈرسے نہیں اپنے، اپنے بچوں اور اہل خانہ کی سہولت کے لیے، آزمائش شرط ہے۔ عمران خان نے مسائل کا رونا نہیں رویا، ایک حاذق حکیم کی طرح مرض کی تشخیص کی اور ممکنہ حل بتایا۔ فوکس غریب عوام تھے، وہی عوام جنہیں ستر برس تک سفاک حکمران اشرافیہ نے سبز باغ بہت دکھائے۔ درد کا درماں نہیں کیا، عوام نے کبھی کسی لیڈر سے یہ تقاضا نہیں کیا کہ انہیں بین الاقوامی معیار کی سڑکیں فراہم کی جائیں، موٹر وے اور رنگ روڈ عوامی مطالبے پر بنی نہ بجلی کی چوبیس گھنٹے فراہمی کے لیے مہنگے بجلی گھر تعمیر ہوئے، پچاس فیصد سے زائد آبادی تو بجلی سے محروم ہے۔ اسے کیا غرض کہ بجلی کسی وقفے کے بغیر مل رہی ہے یا لوڈشیڈنگ جاری ہے وہ بے چارے تو بچوں کے لیے ایچی سن معیار کا نہیں 1960ء کے عشرے جیسا ٹاٹ سکول مانگتے ہیں جہاں استاد دلجمعی سے پڑھاتے اور معصوم ذہنوں میں اقبالؒ و قائدؒ کے افکار انڈیل کر انہیں ستاروں پر کمند ڈالنے کی ترغیب دیتے تھے، انہیں بنیادی طبی سہولتیں درکار ہیں، جان و مال، عزت و آبرو کا تحفظ ان کی اولین ترجیح ہے اور باعزت روزگار، جو انہیں بھکاری بننے سے بچا سکے۔ جس معاشرے میں پینے کا صاف پانی چند ترقی یافتہ شہروں میں بھی آسانی سے دستیاب نہ ہو، کراچی میں کچرے کے ڈھیر لگے ہیں اور شہر و قصبات میں معصوم بچے بچیاں جنسی بھیڑیوں کے رحم و کرم پر ہوں وہاں موٹر وے، رنگ روڈ اور میٹرو و اورنج ٹرین کو کوئی آگ لگائے گا۔ ؎تیڈی موٹر وے کوں بھا لیسوں ساڈے بکھے بال غذا منگدنتھر اور چولستان میں انسان اور جانور پیاس سے مر رہے ہوں اور لاہور و کراچی میں جعلی دوائیوں کا دھندا طاقتور لوگوں کی سرپرستی میں جاری ہو، شریف خاندانوں کی خواتین کو سڑکوں پر زچگی کی مجبوری ہو اور بھتہ خور، اغوا کار، قاتل، لٹیرے اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہونے کے لیے سیاستدانوں، جمہوریت پسندوں کا روپ دھار چکے ہوں تو کس بے وقوف کی ترجیحات میں یہ مشغلے ہو سکتے ہیں جن کافائدہ صرف ایک مراعات یافتہ طبقے کو ہے۔ عمران خان نے تقریر میں تھانے، کچہری، سکول، ہسپتال اور احتساب کا ذکر کر کے عام آدمی کے دل کی بات کہی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے عوامی سطح پر سراہا گیا لیکن مراعات یافتہ طبقہ، سیاسی و صحافتی اشرافیہ اپ سیٹ ہے۔ کسی کو اس موقع پر کشمیر یاد آ رہا ہے اور کوئی سی پیک کا رونا رو رہا ہے آزادی صحافت کا موضوع بھی چھیڑا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان نے سی پیک منصوبہ بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے؟ ایک منصوبہ جو چل رہا ہے اس کے بارے میں خان اپنی وکٹری سپیچ میں اظہار کر چکا ہے اس کے دوبارہ ذکر کا کیا محل تھا؟ قرضوں میں جکڑے، ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے سامنے بھکاریوں کی طرح کھڑے ملک اور عوام کو کیا اس وقت یہ تسلی دینے کی ضرورت نہیں کہ ہم بھیک مانگے بغیر تعمیر و ترقی کی منزل پر گامزن ہوں گے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ پاکستان میں ریاست مدینہ کی طرح کوئی بھیک مانگنے والا نہیں ہو گا۔ کیا عوام کو یہ بتانا ضروری نہ تھا کہ ان کے دن بھی بدلیں گے اور وہ اور ان کے بچے بھی تعلیم، صحت، روزگار کی ان سہولتوں سے فیضاب ہوں گے جن سے لٹیرے حکمرانوں نے محروم رکھا۔ عمران خان ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت کا مظاہرہ ورلڈ کپ، شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے علاوہ 2018ء کی انتخابی کامیابی کی صورت میں کر چکے ہیں آخر قومی ایجنڈے کی تکمیل میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکتے؟ ۔ عوام دشمن نظام کے فیض یافتہ جاگیر دار، سرمایہ دار، تاجر، سیاستدان، صحافی اور دانشور رکاوٹیں ڈالیں گے لیکن ناکامی ان کا مقدر ہے۔ یہ تقریر سن کر جس کا دل نہیں پسیجا، اب بھی لٹیروں کا ہمنوا ہے اس کے بارے میں آدمی کیا کہے۔ ختم اللہ علیٰ قلو بہم، و علیٰ سمعہم و علیٰ ابصار ھم غشاوۃ و لھم عذاب عظیم۔