Ye Ibrat Ki Ja Hai Tamasha Nahi Hai (2)
Irshad Ahmad Arif85
اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ سن کر مجھے بے ساختہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا مصرعہ یاد آیا۔ ع یہ عبرت کی جاہے تماشا نہیں ہے خواجہ عزیز الحسن مجذوب نغزگو شاعر جگر مراد آبادی کے ہم عصر ہیں اور جگر کی ایک غزل کے تتبع میں خواجہ صاحب نے وہ شہرہ آفاق شعر کہا جس پر جگر لوٹ پوٹ ہوئے ؎ ہر تمنا، دل سے رخصت ہو گئی اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی مجھے یہ شعر میرے عزیز بھائی صاحبزادہ خورشید گیلانی نے اس وقت لکھ کر دیا جب مرحوم کینسر کے موذی مرض میں مبتلا سرگنگا رام ہسپتال کے ایک وارڈ میں فرشتہ اجل کے منتظر تھے، ہوا یوں کہ ایک روز میں معمول کے برخلاف ذرا تاخیر سے ہسپتال پہنچا، بتایا گیا کہ صبح سے منتظر ہیں، ان کی ایک کتاب تازہ تازہ چھپ کر آئی تھی اور وہ پہلا نسخہ مجھے دینا چاہتے تھے، میں نے سلام کیا اور ہاتھ ملایا تو زبان سے کچھ کہے بغیر کتاب میری طرف بڑھا دی جس پر لکھا تھا ؎ ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی خواجہ صاحب کے مصرعے سے ذہن میں شعر اور واقعہ تازہ ہو گیا ورنہ یہ آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ خواجہ آصف کی نااہلی پر البتہ ایک درویش منش اور صوفی باصفا خواجہ کا مصرع برمحل ہے۔ خواجہ صاحب اپنے قائد میاں نواز شریف کی طرح اقامہ رکھنے پر نااہل ہوئے جو نیو کلیر پاکستان کے عزت دار اور باشعور شہریوں کے لیے باعث شرم ہے۔ نیوکلیر پاکستان کا وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کھجور کی گٹھلی کے برابر ایک ریاست کی کسی کمپنی میں ملازمت کا عدالت کے روبرو یہ جواز پیش کرے کہ وہ فل ٹائم نہیں پارٹ ٹائم ملازم ہے شرم کی بات نہیں تو کیا ہے؟ کسی سرکاری ادارے یا نجی فرم کا کلرک اور محکمہ مال کا پٹواری تو دوہری ملازمت پکڑے جانے پر یہ موقف اختیار کر سکتا ہے کہ کم تنخواہ کی بنا پر اس نے بدعنوانی کے بجائے مجبوراً پارٹ ٹائم ملازمت کو ترجیح دی تاکہ بچوں کی تعلیم اور دیگر اخراجات پورے کرسکے مگر اہم منصب کے لیے حلف اٹھانے والے مالدارشخص سے کوئی معقول شخص یہ توقع نہیں کر سکتا۔ یہ معاملے کا صرف اخلاقی پہلو نہیں تصادم مفادات کا آئینی و قانونی ایشو ہے۔ دو مختلف آزاد ریاستوں میں ملازمت کرنے والے شخص کی بنیادی وفاداری کس ریاست کے ساتھ ہو گی؟ اور دونوں ریاستوں کے مابین کسی پالیسی اختلاف پر وزیر خارجہ کس کا ساتھ دے گا؟ اس اہم ترین سوال کا جواب میاں نواز شریف کی محبت میں دل و دماغ اور ضمیر پر چار حرف بھیجنے والے افراد تو دینے سے رہے، عام آدمی مگر ان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست، صحافت اور علم و دانش کی مسند پر وہ لوگ قابض ہیں جو مالو مصلّی اور وزیر اعظم کے مابین مراعات اور وسائل کی تقسیم کے معاملے میں تو خوب فرق روا رکھتے اور عدالتوں کے سامنے جوابدہی سے بھی بااختیار اور امیر آدمی کو بالاتر سمجھتے ہیں مگر جب سیاسی اخلاقیات اور قانونی سطح پر رعائت طلب کرنے کا معاملہ ہو تو وہ دونوں کو ایک صف میں کھڑا کر کے حیل و حجت پر اُتر آتے ہیں۔ کبھی اپیل کے حق سے محرومی کی بات کریں گے اور کبھی وزیر اعظم یا وزیر کی بیرون ملک ملازمت، کاروبار میں توسیع اور بچوں کی غیر ملکی شہریت کا یہ جواز ڈھونڈیں گے کہ دوسرے شہریوں کی طرح آخرانہیں یہ حق کیوں حاصل نہیں؟ دنیا بھر میں قیادت کے دعویدار کبھی حیلہ جوئی کا راستہ اختیار نہیں کرتے، قانون کے سامنے جوابدہی کے باب میں شہریوں کے لیے رول ماڈل بنتے ہیں، اپنے فرائض کی ادائیگی میں مستعد اور عوام کے حقوق کی پاسداری کے لیے فعال۔ ہمارے ذہنی اور اخلاقی طور پر یتیم لیڈروں کی طرح اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے سے گھبراتے ہیں نہ سدھارنے میں تامل کرتے ہیں اور نہ اپنی ہر ناکامی کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے کر عوام کے سامنے "مجھے کیوں نکالا" کا رونا روتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2016ء میں پانامہ سکینڈل منظر عام پر آیا تو چند ماہ میں تحقیقات، استعفوں اور وضاحتوں کے بعد پس منظر میں چلا گیا کیوں کہ کسی ملک میں سیاسی قائدین نے جھوٹ، ضد، ہٹ دھرمی اور الزام تراشی کو شعارنہ کیا۔ وضاحت کی، غلطی مانی، استعفیٰ دیا، عوام سے معافی مانگی اور اپنا سیاسی و حکومتی منصب دوسروں کو سونپ کر گھر چلے گئے۔ جن کو اپنی عوامی مقبولیت کا زعم تھا انہوں نے عدالتوں کا رخ کرنے اور اپنی پارسائی کے گیت گانے کے بجائے اسمبلی اور حکومت توڑی، عام انتخابات کا اعلان کیا اور ووٹ لے کر دوبارہ اسمبلیوں اور ایوان اقتدار میں پہنچ گئے ججوں، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف الزام تراشی کی ضرورت محسوس کی نہ مخالفین کے طعنے سنے اور نہ اپنے خاندان کے لیے رسوائی مول لی۔ خواجہ آصف کو میاں نواز شریف کی طرح پاکستان میں قدرت نے عزت، شہرت، دولت اور اقتدار سے نوازا مگر ناشکرے پن کی انتہا ہے کہ ایک متوسط کلاس کے نیک نام سیاسی کارکن کے صاحبزادے نے اپنی ساری توانائیاں اور وسائل مملکت خداداد پر صرف نہیں کیے ایک معمولی سی ریاست کا ورک پرمٹ لے کر ثابت کیا کہ دولت انہیں عزت، شہرت اور اقتدار سے زیادہ عزیز ہے اور چند ٹکوں کی خاطر صداقت، امانت، دیانت اور ریاست سے وفاداری کو قربان کر سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور خواجہ آصف کے بعد معلوم نہیں کتنے اور مسلم لیگی رہنما 62(1) ایف کی زد میں آئیں گے؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے تاہم میاں نواز شریف اور ان کے قصیدہ خواں اس قدر رسوائی سمیٹنے کے بعد بھی اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنے آپ کو سدھارنے کے بجائے ڈھٹائی سے یہ کہہ کر مزید نشانہ مذاق بن رہے ہیں کہ کاش وہ آئین سے سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کے لیے صادق اور امین ہونے کی شرط ختم کر دیتے، گویا ان کے سدھرنے کا کوئی ارادہ ہے نہ وہ ملک کی قیادت دیانتدار، راست گو اور صاحب کردار افرادکے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔ بدی پر ڈٹ جانے اور اچھائی سے منہ موڑنے کی روش نے پاکستان کو یہ دن دکھلائے کہ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نااہل قرار پائے، تاہم اس معاملے کا روشن پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان ایسی ریاست کے طور پر ڈسکس ہونے لگا ہے جہاں سیاست کے کنویں کو مردار سے پاک کرنے کی مہم زوروں پر ہے جھوٹ اور بددیانتی سے نفرت بڑھ رہی ہے اور قوم عدلیہ کے ذریعے اپنی غلطیاں سدھارنے کا عزم کر چکی ہے۔ ؎ روشن کہیں بہار کے امکان ہوئے تو ہیں گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں اب بھی خزاں کا راج ہے کہیں کہیں گوشے رہ چمن میں غزلخواں ہوئے تو ہیں ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر کچھ کچھ سحر کے رنگ پر افشاں ہوئے تو ہیں جن عقل کے اندھوں نے پاکستان کو عادی جھوٹوں، رنگ بازوں اور خائنوں کی چراگاہ سمجھ رکھا ہے وہ عدلیہ پر ناراض اور آئین کی شقوں سے نالاں ہیں تو پھر کیا ہوا، صدر ممنون حسین اور خواجہ آصف کے دو جملے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ممنون حسین نے فرمایا "یہ پانامہ خدائی عذاب ہے جس کی گرفت میں بڑے بڑے آئیں گے اور ان پر پھٹکار پڑے گی" اور خواجہ آصف بولے"کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے"اب یہ کوئی نہ پوچھے کہ یہ کیا ہوتی ہے، کہاں ہوتی ہے؟