Ye Kya Ho Raha Hai
Irshad Ahmad Arif110
احتساب عدالت میں میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے بیانات اور عوامی سطح پر عدلیہ، فوج نیب پر الزامات سے یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ شریف خاندان کے پاس آمدن سے زائد اثاثوں اور ایون فیلڈ فلیٹس کی ملکیت کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت ہے نہ قابل اعتماد گواہ اور نہ متاثر کن دلیل۔ سیاسی سطح پر وہ عوام سے بھی مایوس ہیں ووٹروں کو اپنی تیس بتیس سالہ کارگزاری سے متاثر کرنے کے بجائے فوج مخالف چورن بیچ رہے ہیں اور مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر جیل جانے کو تیار ہیں۔ میاں شہباز شریف جب انتخابات میں شرکت کے مساوی مواقع طلب کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انہیں ناکامی کا یقین ہے ورنہ ایک برسر اقتدار، بااختیار اور بارسوخ شخص کو یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ مرکز اور سب سے بڑے صوبے میں نگران حکومتیں بھی ان کی مرضی کی بن رہی ہیں۔ جسٹس ناصر الملک کے بارے میں کسی کو شک نہیں کہ وہ ماضی میں شریف خاندان کے پلڑے میں اپنے فیصلوں اور اقدامات کا وزن ڈالتے رہے تاہم میں نہیں سمجھتا کہ وہ اب بھی ان کے لیے کارآمد ہوں گے۔ ناصر الملک نے محض اپنی نیک نامی اور دیانتداری کا بھرم رکھا تو مسلم لیگ (ن) کو دن میں تارے نظر آ سکتے ہیں اور جے آئی ٹی کی تشکیل پر مٹھائیاں بانٹنے اور جسٹس (ر) جاوید اقبال کے تقرر پر مبارکبادیں وصول کرنے والوں کی سینہ کوبی کا منظر دیدنی ہو گا۔ چند سال قبل جو لوگ تبدیلی کی بات کرتے تھے انہیں ہمارے عہد کے چالاک "بچے جمہورے" زمینی حقیقتوں سے ناآشنا اور عوامی رجحانات سے نابلد قرار دے کر مذاق اُڑاتے مگر گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے چلنے والے تبدیلی کے جھکڑ سے وہ بوکھلا گئے ہیں اور دلیری سے زمینی حقائق کا مقابلہ کرنے کے بجائے اجتماعی طعن و تشنیع اور آہ و زاری پر اُتر آئے ہیں۔ وہ ساری چالیں اورمکرو فریب کے ہتھکنڈے جن سے مخالفین کو زیر کرنے کی عادت تھی، انہیں اپنے خلاف استعمال ہونے کا ڈر ہے لہٰذا قافلے میں بھگڈر مچی ہے۔ اور خیمے ویران ہونے لگے ہیں۔ میاں نواز شریف کی شہرت ایک وضعدار انسان کی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑتے مگر گزشتہ روز انہوں نے اپنے داماد کو جس انداز میں عدالتی کٹہرے میں تن تنہا چھوڑ کر پنجاب ہائوس کا رخ کیا اور اپنے کارکنوں و ساتھیوں میں سے کسی کو بھی عدالت میں موجود رہ کر کیپٹن صفدر کی ڈھارس بندھانے کی ہدائت نہیں کی وہ ان کی پراگندہ خیالی کا مظہر ہے گویا اس قدر ذہنی دبائو اور اعصاب شکنی کا شکار ہیں کہ وہ عدالت سے روانگی کے دوران کیپٹن صفدر کو بالکل بھول گئے اور انہیں عدالت اور نیب کے وکیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جو بے چارے داماد کو طنز و استہزا کا نشانہ بناتے رہے۔ جے آئی ٹی کے روبرو میاں شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر بڑے میاں صاحب کے صاحبزادگان نے یہی سلوک اپنے چچا جان سے کیا تھا۔ میاں نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانات سے اندرون و بیرون ملک فوج و عدلیہ مخالف حلقے تو خوش ہیں اور بھارتی سیکرٹری خارجہ ایڈیٹرز کو آف دی ریکارڈ گفتگو میں بتا چکے ہیں کہ ہم نے ممبئی حملوں کے حوالے سے نواز شریف کے بیانات کے حق میں سرکاری سطح پر خیر مقدمی بیانات جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو محض اس بنا پر روک لیا کہ الیکشن میں نواز شریف کو نقصان ہو گا مگر پاکستانی عوام اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو یہ بیانیہ پسند ہے نہ ٹکٹ ہولڈرز اس بیانیے کے ساتھ ووٹروں کا سامنا کر سکتے ہیں۔ انتخابی امیدوار جانتے ہیں کہ بھارت دشمنی پنجابیوں کے خون میں رچی بسی ہے پنجاب کے غیور عوام 1947ء میں ہونے والے کشت و خون کو بھولے ہیں نہ لاہور اور پنجاب کو فتح کرنے کے بھارتی عزائم کو اور بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے انجام کو۔ اپنی دھرتی سے جڑے پنجابی عوام جانتے ہیں کہ تاجروں اور صنعت کاروں کو زمین سے زیادہ زر سے پیار ہوتا ہے اور زر کا نہ کوئی وطن ہے نہ دین دھرم۔ مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ۔ میاں شہباز شریف کو نواز شریف کے مقابلے میں حالات کا بہتر ادراک ہے وہ ڈیمج کنٹرول میں مصروف ہیں مگر چھوٹے بھائی ایک دن میں جتنے کانٹے چنتے ہیں دوسرے دن برادر بزرگ اور اُن کی صاحبزادی اس سے دوگنی تگنی تعداد میں بکھیر دیتے ہیں۔ چودھری نثار علی خاں کو پارلیمانی بورڈ سے خارج کرنا تازہ ترینمثال ہے۔ ماضی میں عدلیہ اور فوج نے سیاسی فیصلوں سے جمہوری عمل اور قومی مفاد کو نقصان پہنچایا مگر 1985ء سے اب تک ہمارے "بچے جمہوروں " نے وطن عزیز سے جو کھلواڑ کیا اُس نے دونوں اداروں کی آنکھیں کھول دی ہیں اور بظاہر لگتا یوں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تلافی مافات پر آمادہ ہے۔ اپنے ہی پھیلائے ہوئے گند کی صفائی اور شفاف انتخابی جمہوری عمل کے لیے انتظامات سے نیک نیتی کا پتہ چلتا ہے۔ تحریک انصاف کے ناقدین پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ الیکٹ ایبلز کو گلے لگانے والی جماعت آخر کیا تبدیلی لائے گی مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ تبدیلی کے لیے الہ دین کا چراغ درکار نہیں محض ایک دو بنیادی اور ٹھوس اقدامات سے آغاز سفر ہو سکتا ہے مثلاً اگر کرپشن سے ناجائز کمائی کی بیرون ملک منتقلی کو روک دیا جائے، میرٹ پر فیصلے اور تقرر و تبادلے ہوں تاکہ نااہلی کا تباہ کن کلچر اختتام کو پہنچے اور ارکان اسمبلی کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز روک کر بلدیاتی اداروں کو تفویض کیے جائیں کہ قومی وسائل تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتوں پر خرچ ہوں اور جہالت و پسماندگی کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے تو یہ کون سا مشکل کام ہے اور اس کے لیے کونسی عمر خضر درکار ہے۔ گزشتہ تیس پینتیس سال میں جو سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوا وہ اگر پاکستان میں تعلیم و صنعت کے فروغ اور روزگارکی سہولتوں کی فراہمی کے لیے خرچ ہوتا تو کیا آج ہم اس قدر مجبور و بے بس ہوتے جتنا میاں نواز شریف اپنی تقریروں اور بیانات میں ظاہر کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کرپشن اور نااہلی کے کلچر پر قابو پا کر ہم نہ صرف عالمی مالیاتی اداروں کی قسطیں بآسانی ادا کر سکتے ہیں بلکہ قرض اتارنے کے قابل ہوں گے۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی جانتے ہیں کہ بیورو کریسی، عدلیہ، صنعتی و تجارتی شعبے اور میڈیا میں ان کے رابطوں اور اثر و رسوخ میں کمی واقع ہونے کا مطلب کیا ہے اور پنجاب میں شفاف انتخابات کا نتیجہ کیا ہو گا؟ لہٰذا پریشانی بجا ہے۔ وہ جملہ عناصر جو انتخابات سے پہلے اور بعد، امیدواروں کی نامزدگی سے لے کر نتائج کی تیاری تک، مسلم لیگ (ن) کی دامے، درمے، سخنے، قدمے مدد کرتے تھے اب لاتعلق ہیں یا تحریک انصاف کی کامیابی کے خواہش مند کہ یہی تبدیلی کی علمبردار ہے لہٰذا ہر طرف بچائو، بچائو کی پکار ہے مگر ابھی چائے کی پیالی اور لبوں کے مابین کافی فاصلہ ہے۔ تبدیلی کے علمبردار اپنی صفوں میں گھسے ففتھ کالمسٹوں پر نظر رکھیں اور ناقص انداز مشاورت پر نظرثانی کریں تاکہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی نامزدگی اور پھر انکار جیسے بلنڈر نہ ہوں ناصر کھوسہ کی نامزدگی پر ہم لوگ شور نہ مچاتے اور درون پردہ سازش بے نقاب نہ ہوتی تو خان صاحب 2013ء کی طرح ایک بار پھر گئے تھے کام سے۔ اب کم از کم عمران خان کو مان لینا چاہیے کہ وہ ناقص لوگوں میں گھر گیاہے جو اس کے نادان دوست ہیں یا دانا دشمن۔ کچھ شریف خاندان اور زرداری قبیلے کے وفادار کچھ اپنے مفادات کے اسیر اور کچھ سیاسی حرکیات سے نابلد۔ ورنہ بار بار ایک ہی نوعیت کی غلطیاں نہ ہوتیں۔ اس نوع کی ایک آدھ مزید غلطی تحریک انصاف کو لے ڈوبے گی۔ زرداری اور شریف خاندان اپنی غلطیوں کے بوجھ تلے دب گئے مگر اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد۔ کیا تحریک انصاف اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی خودکشی کا ارادہ رکھتی ہے۔؟ نہیں تو پھر یہ کیا ہو رہا ہے۔ پس تحریر :۔ پی ٹی آئی کے انکار کے بعد ایک عزت دار شخص کے طور پر ناصر کھوسہ صاحب کو اپنا نام رضا کارانہ طور پر واپس لے لینا چائیے تاکہ بھرم قائم رہے۔