Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Zaeem Qadri Ki Lalkar?

Zaeem Qadri Ki Lalkar?

مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے اگر زعیم قادری بھی مطمئن نہیں تو کسی اور کا کیا مذکور۔ میاں شہباز شریف اور حمزہ شریف کو جس انداز میں زعیم قادری نے للکارا ہے وہ گزشتہ تیس پینتیس سال میں کسی اور نے نہیں۔ لگتا ہے زخم گہرا ہے۔ چودھری نثار علی خاں راجپوت ہیں، ہمالہ سے بلند انا کے مالک اور سیاسی قد کاٹھ زعیم قادری سے بڑا مگر جولائی 2017ء سے اب تک، گھنٹوں طویل کسی پریس کانفرنس میں اب تک ڈھنگ کا ایک جملہ نہیں کہہ پائے۔ کم ہمتی، کنفیوژن اور ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کی کیفیت کا شکار۔ مونچھوں کو تائو دیکھ کر پیر صاحب پگاڑا کے ساتھ بیٹھنے اور مخدوم زادہ حسن محمود پر جملے کسنے والے سید سلیم حسین قادری کا لخت جگر نور نظر زعیم قادری ثابت قدم رہتا ہے یا خواجہ سعد رفیق، رانا مشہود حسین اور کسی دوسرے سیاسی رفیق کار کی منت سماجت، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بالواسطہ یا براہ راست پیغام اور بہلانے پھسلانے پر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پہنچ جاتا ہے جس کے "سبب بغاوت" کے مرض میں مبتلا ہوا؟ اگلے چند گھنٹوں یا دنوں میں پتہ چل جائے گا۔ پاکستان میں سیاسی کارکن کے پاس اگر اربوں نہیں تو کروڑوں کا مال حرام، کسی طاقتور کی پشت پناہی یا عزت نفس کے لیے سب کچھ گنوانے کا حوصلہ نہ ہو تو وہ زیادہ دیر تک کسی سیاسی مافیا کے مقابلے میں کھڑا نہیں رہ سکتا۔ سیاسی رفقا کار، حلقے کے بریانی اور قیمے والے نان کے شوقین سپورٹر، ووٹرز اور صحافتی طبورے جینا حرام کر دیتے ہیں۔ قیادت سے وفاداری اور مافیا کی تابعداری کے فضائل اور "بغاوت" کے مضمرات کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ آدمی گھبرا کر واپس اس کھونٹے پر پہنچ کر دم لیتا ہے جہاں سے بصد سامان رسوائی نکا لا گیا یا نکلنے پر مجبور ہوا۔ لاہور میں 1977ء کے بعد بغاوت کا شعلہ کبھی بھڑکا ہی نہیں لہٰذا زعیم قادری کو مارباندھ کر دوبارہ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کے چرنوں میں بٹھانے کی کوششیں اگر کامیاب ہوجائیں تو باعث تعجب نہیں۔ لیکن اگر زعیم قادری ڈٹے رہے، اپنے خاندان کی لاج رکھی اور قیادت کو اسی دبنگ لہجے میں للکارتے رہے تو وہ زیادہ دیر تک اکیلے نہیں رہیں گے۔ عاور نکلیں گے عشاق کے قافلےزعیم قادری نے پریس کانفرنس میں کوئی نئی بات نہیں کی۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی کا یہی کلچر ہے اور نو واردان، تحریک انصاف میں بھی اس کلچر کی آبیاری تیزی سے کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے جو قلمی کارندے تحریک انصاف میں شمولیت پر الیکٹ ایبلز کے خلاف گوہر افشانی روزانہ کرتے ہیں، زعیم قادری نے اپنی جماعت میں ان کا پردہ فاش کیا ہے۔ زعیم قادری ایک الیکٹ ایبل کے مقابلے میں قربانی کا بکرا بنا، سیاسی خدمات، جدوجہد، وفاداری اور ٹی وی چینلز پر جارحانہ دفاع کو کوڑے دان میں ڈال کر پوچھا گیا کہ الیکشن جیتنے کے لیے کتنا پیسہ خرچ کر سکتے ہو؟ بات مزید کھلی تو پتہ چلے گا کہ سوال الیکشن جیتنے کا نہیں ٹکٹ کی قیمت کا تھا جو اپنے سیاسی پس منظر، باپ، دادا کی خدمات، عزت وقار اور اُنیس سالہ جدوجہد کے زعم میں مبتلا زعیم قادری کو اچھا نہ لگا ورنہ زعیم قادری اتنا بھی کنگلا نہیں کہ پی ٹی آئی کے امیدوار اعجاز چودھری کے مقابلے میں الیکشن نہ لڑ سکے۔ علیم خان کی نشست کا معاملہ ہوتا تو الیکشن اخراجات کا سوال برمحل سمجھا جا سکتا تھا۔ پی پی اور مسلم لیگ میں پارٹی فنڈ کے نام بھتہ خوری کا رواج پرانا ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں لارڈ نذیر کے ایک قریبی ساتھی اس کا نشانہ بنے لارڈ صاحب نجی محفلوں میں یہ واقعہ خوب مرچ مسالہ لگا کر بیان کرتے ہیں۔ جو پارٹی اور اس کی قیادت اپنے سیاسی و کاروباری مستقبل کو خطرے میں دیکھ کر کئی خالی نشستوں پر امیدواروں کو ٹکٹ کے ساتھ خرچے پانی کی پیشکش کر رہی ہے وہ زعیم قادری کو محض اس لیے ٹکٹ سے انکار نہیں کر سکتی کہ وہ مالی بوجھ نہیں اٹھا سکتا البتہ وحید عالم کے مقابلے میں ٹکٹ خریدنے اور قیادت کی بوٹ پالش و مالش کرنے کی صلاحیت شائد زعیم قادری میں کم ہو گی اور ہونی چاہیے آخر ایک سید زادہ خوشامد اور چاپلوسی کرنا بھی چاہے تو کتنی کر سکتا ہے؟ اس کا شیوہ نہ پیشہ۔ چند مستثنیات ہیں مگر الشاز کا لمعدوم۔ زعیم قادری مسلم لیگ ن میں پکنے والی بغاوت کے دیگ کا ایک چاول ہے میاں نواز شریف نے گزشتہ پانچ سال کے دوران جماعت کو جس طرح نظر انداز کیا اور میاں شہباز شریف نے اپنے وزیروں، ارکان اسمبلی اور کارکنوں سے جو سلوک روا رکھا، ایک نے انہیں مریم نواز اور دوسرے نے حمزہ نواز کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وقت گزارا اس کا نتیجہ ایک نہ ایک دن نکلنا تھا، سونے پر سہاگہ میاں نواز شریف کا "بیانیہ" جو معدودے چند ملحدوں، عدلیہ و فوج سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے مفاد پرستوں اور پیدائشی خوشامدیوں کے سوا کسی کو مرغوب نہ مطلوب۔ ختم نبوتؐ کے قوانین سے چھیڑ چھاڑ، کلبھوشن جادیو کے ذکر سے گریز اور ڈان لیکس سے پہلے انکار پھر اقرار اور دفاع، کوئی بھی محب وطن اور خوف خدا رکھنے والا امیدوار حلقے میں جا کر ان غلطیوں کا دفاع کر سکتا ہے نہ قیادت کی کرپشن کے بارے میں چبھتے سوالات کا جواب دینے کے قابل۔ جوں جوں انتخابی مہم آگے بڑھے گی مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈرز کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا اور انہیں زعیم قادری اپنا ہیرو نظر آئے گا۔ عین ممکن ہے اگلے چند روز میں چودھری نثار علی خاں بھی اپنی زبان کی لکنت پر قابو پالیں اور ایک کھرے راجپوت کی طرح وہ سب کچھ کہہ ڈالیں جو کہنے کے لیے ایک سال سے بے تاب ہیں مگر کہتے کہتے ان کا "ہاسا" نکل جاتا ہے۔ زعیم قادری ہو یا کوئی دوسرا سیاسی کارکن، ایک بات وہ بہرحال یاد رکھے کسی شخص یا خاندان سے وفاداری کا جو فرسودہ اور بے ہودہ قبائلی تصور ہمارے ہاں 1970ء کے عشرے سے رائج کیا گیا ہے "مجھ سے محبت کرو اور میرے کتے سے بھی" وہ جہالت، پسماندگی اور غیر جمہوری سوچ کا آئینہ دار ہے۔ بھٹو خواہ نیشنلائزیشن کے ذریعے تعلیم اور صنعت کا بیڑا غرق کر دے اور اپنے دور اقتدار میں جمہوریت و صحافت کی نشو و نما ناممکن بنا دے، جھرلو الیکشن سے مارشل لاء کی راہ ہموار کرے، سیاسی کارکن کو اس کا اور اس کی اگلی دو تین نسلوں کا غلام اور وفادار رہنا چاہیے۔ شریف خاندان شخصی حکمرانی اور خاندانی سیاست میں بہادر شاہ ظفر دور کی یادیں تازہ کرے اور کرپشن کو پاکستان کی قومی شناخت بنا دے، نثار علی خان اور زعیم قادری کو وفاداری کا طوق گلے سے نہیں اتارنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ یہ تصور شرف انسانیت کی توہین اور جدید جمہوری اقدار کی نفی ہے۔ علم بغاوت اگر بلند کر دیا ہے تو کسی کو یہ کہنے کا ہرگز موقع نہ دیں کہ سارا شور شرابا اور گلہ شکوہ ایک آدھ ٹکٹ یا بادشاہ سلامت اور شہزادگان میں سے کسی کی نظر التفات اپنی طرف مبذول کرانے کے لیے تھا۔ جنئن سیاسی کارکن کے ضمیر اور عزت نفس کی یہ بہت ہی حقیر قیمت ہے۔ بادشاہ سلامت اور شہزادے شہزادیاں ویسے بھی گستاخی کبھی معاف نہیں کرتے۔ خوئے انتقام پختہ ہوتی ہے۔