پاکستان تحریک انصاف نے جب سے عنان حکومت سنبھالی ہے اپنی حریف سیاسی جماعتوں پر کرپشن، بدعنوانی، منی لانڈرنگ، غیر قانونی اثاثہ جات بنانے اوراختیارات کے ناجائز استعمال کے بیانات کو بطور ہتھیار استعمال کرتی چلی آئی ہے۔ لیکن حال ہی میں ایف آئی اے کی جانب سے آٹا اور چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سے پارٹی رہنماؤں نے اس الزام کی وضاحت کرنے کی بجائے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو ہی ذمہ دار قرار دیدیا ہے جس پر ملک کے عوام حیرت کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے اثرات بھگت رہا ہے۔ آٹا، چینی مافیاز کی بدعنوانیوں پر بنی اس تحقیقاتی رپورٹ نے ملک کے طول و عرض میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان آٹا، چینی بحران کے ذمہ داروں کےخلاف مکمل تحقیقاتی رپورٹ آنے پر کارروائی کرنے کا بیان دیکر اپنا دامن جھاڑ چکے ہیں۔ ان کے ترجمان، مشیران اور وزراءکی فوج اپوزیشن جماعتوں کو ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کا مرتکب قرار دینے میں بالکل اسی انداز میں مصروف ہے جیسے بھارت میں مقیم مسلمانوں کے خلاف مودی سرکار کے اقدامات جاری ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ موقع مناسب تھا، آٹا، چینی بحران کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے کا؟ اس سوال کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ ایک ایسی نازک صورتحال میں جب پوری دنیا اور خود پاکستان بھی کورونا وائرس کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ یہ قطعی طور پر نامناسب وقت تھا۔ کہایہ جا رہا ہے کہ ملک کی طاقتور قوتیں اور بااثر حلقے عمران خان حکومت کی ناقص داخلی و خارجہ پالیسیوں سے عاجز آ چکے تھے۔ یہ قیاس آرائیاں پوری آب و تاب سے جاری تھیں کہ وزیراعظم کو گھربھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور معاملہ پوائنٹ آف نو ریٹرن کی آخری حد تک پہنچ چکا ہے۔
مارچ سے دو ماہ پہلے ہی اپوزیشن جماعتیں واویلا مچا رہی تھیں کہ 23 مارچ سے پہلے عمران خان حکومت کی رخصتی کر دی جائے گی۔ لیکن چین کے صوبہ ووہان سے شروع ہونےوالے کورونا وائرس نے دنیا کو ایسی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا کہ نیا سیاسی کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی روک دیا گیا۔ وقت اور حالات کی نزاکت کو بھانپ کر چلنا اور مصلحت پسندی اختیار کرنا سیاستدانوں کے باشعور ہونے کی دلیل ہے لیکن یہ دلیل حکمران جماعت اور مقتدر حلقوں پر بھی اسی طرح لاگو ہوتی ہے جیسے اپوزیشن جماعتوں کو پابند کرتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نیا پاکستان کا نعرہ لیکر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے لیکن اب یہ نعرہ کہیں گم ہو چکا ہے، فنا ہو چکا ہے، خاموش ہو چکا ہے یا پھر ابدی نیند سو چکا ہے کیونکہ موجودہ حکمران یوٹرن لینے کو سیاسی ہنر مندی تصور کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ پھر احتساب کے شفاف اور غیر جانبدارانہ عمل کی بات بھی موجودہ حکمرانوں نے کی اور اس پر عمل بھی کیا لیکن احتساب صرف مخالف سیاسی جماعتوں کا جاری رہا۔ سیاستدانوں سے لیکر بیورو کریسی تک اور میڈیا ہاؤسز تک کو خاموش کروانے کی تگ و دو میں اخلاقیات کی تمام حدیں پار کی گئیں جس کے نتائج شرمندگی، ندامت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں نکلے۔ کرپشن سے لوٹے ہوئے ایک روپے کی وصولی میں حکومت بھی ناکام ہوئی۔ دو طرفہ تماشا یہ کہ حکمرانوں نے کورونا وائرس سے پیدا شدہ ملکی حالات اور غربت، بھوک، افلاس اور بے روز گاری کے اندھیروں میں تھکنے والے عوام کےلئے مطلوبہ اقدامات کرنے کی بجائے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے قومی یکجہتی کو فروغ دینے کےلئے نیشنل ایکشن پلان مرتب کرنے سے بھی انکار کردیا۔ جس سے ملک میں انارکی جیسی صورت حال ہے۔
ماضی میں بھی یہ ملک بہت سے بحرانوں سے دوچار ہوا ہے۔ دہشتگردی، امن و امان کی ابتر صورتحال، مہنگائی، زلزلے، سیلاب غرضیکہ بہت سے بحران آئے لیکن حکومت وقت نے ایسے مواقع پر اپنے سیاسی حریفوں سے ہاتھ ملایا اور عوام کا دکھ دور کرنے کےلئے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے جس کا نتیجہ ہمیشہ کامیابی کی صورت میں نکلا یعنی حکمران، سیاستدان اور عوام بحران سے نکل آئے اور ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے خوشحال مستقل کے خواب آنکھوں میں سجائے آگے بڑھتے چلے گئے۔ لیکن موجودہ حکومت نے جس ڈھنگ کا طرز حکمرانی اپنا رکھا ہے اس کی وجہ سے انہوں نے خود کو اکیلا کر لیا ہے۔ موجودہ حکمران جماعت اب اپنے سیاسی مستقبل کو قرنطینہ کی طرف دھکیل رہی ہے۔ آٹا، چینی بحران کے ذمہ دار کرداروں کے نام منظر عام پر آنے کے بعد اب یہ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ ملک میں ایک بار پھر نیا سیاسی کھیل شروع ہو چکا ہے اور یہ حکمران جماعت کےلئے لمحہ فکریہ ہے بلکہ امتحان کی گھڑی بھی ہے کیونکہ ملک کی مختلف چھوٹی اتحادی جماعتوں سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے والے اس سٹیج پر پہنچ چکے ہیں جہاں پر ایک طرف کنواں ہے تو دوسری جانب کھائی ہے۔ ایسے حالات میں حکومت قائم رکھنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے اور جب اپوزیشن بہت بڑی ہو تو دشواریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ملک کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں پر انتخابات میں کلین سوئپ کرنے اور ہیوی مینڈیٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں کو گھر بھیجنے میں تاخیر نہیں کی گئی۔ آٹا، چینی بحران سے متعلق ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں بہت سے ایسے نام بھی شامل ہیں جو وزیراعظم کے قریبی رفقا میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ بہت سے اتحادی بھی ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے مرتکب قرار پائے ہیں۔ ان حالات میں وزیراعظم عمران خان پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہو چکی ہے کہ اگر وہ واقعی حقائق سے لاعلم ہیں تو پھر ان کےلئے یہ تاریخی موقع ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں اور اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور اراکین اسمبلی کو بھی احتساب کے عمل سے گزارنے کے احکامات صادر فرمائیں۔ اگر انہوں نے اپنے ساتھیوں اور اتحادی جماعتوں کے متعلق احتساب کا اعلان کر دیا تو یہ ناصرف ان کی اخلاقی فتح ہوگی بلکہ ان کی تیزی سے کمزور ہوتی سیاسی ساکھ بھی بچ جائے گی لیکن اگر انہوں نے احتساب کا عمل شروع کروانے میں کسی قسم کی مصلحت دکھائی یا تاخیر سے کام لیا تو پھر عوام میں ان کی پذیرائی میں اس حد تک کمی آ جائے گی کہ انہیں اپنا سیاسی مستقبل بچانا بھی مشکل ہوگا۔
اپوزیشن جماعتیں پوری شدت سے آٹا، چینی بحران کے ذمہ داران کےخلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ اس لئے بھی جائز ہے کہ حکمران جماعت پارلیمان میں اپنے سیاسی مخالفین کو ڈاکو، چور اور لٹیرے پکارتی رہی ہے اور اب وقت قرض چکانے کاآ چکا ہے۔ حساب تو دینا ہوگا کیونکہ قوی امکان تو یہی ہے کہ نیا سیاسی کھیل شروع ہو چکا ہے، اپوزیشن جماعتیں انتہائی دانشمندی سے اپنا کردار قومی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ کورونا سے نمٹنے کےلئے ٹائیگر فورس بنانے جیسے اقدامات کتنے ہی احسن صیح لیکن احتساب تو سب کےلئے ایک سا ہونا چاہیے یہی موجودہ حکومت کےلئے امتحان کی گھڑی بھی ہے۔