پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف کی اپنی پارٹی اور بحیثیت وزیراعلی پنجاب گرانقدر خدمات ہی کا نتیجہ ہے کہ ن لیگ ملک کی ایک مضبوط سیاسی قوت ہے۔ درحقیقت 2013ءکے انتخابات میں مسلم لیگ نے پنجاب میں اپنی پرفارمنس کی وجہ ہی سے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی تھی اور پارٹی قائد میاں نوازشریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے تھے۔ یوں تو مسلم لیگ ن کی مقبولیت اور عوامی پذیرائی میں اضافہ کرنے میں بہت سے اور نام بھی شامل ہیں لیکن میاں شہباز شریف کی کارکردگی سب سے زیادہ اور نتیجہ خیز تھی۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود میاں شہباز شریف کبھی بھی پارٹی سربراہ اور اپنے بڑے بھائی میاں نوازشریف کو اپنے بیانیہ پر چلنے کے لئے آمادہ نہ کر سکے۔ یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مقتدر حلقوں کے دروازے میاں شہبازشریف کے لئے مائنس نوازشریف فارمولا کے تحت کھلے رہے اور آج بھی کھلے ہیں بلکہ 2018 کے انتخابی نتائج کے بعد بھی میاں شہباز شریف کو 9 ویں مرتبہ وزیراعظم پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے احکامات کی تعمیل پر یہ ذمہ داری سنبھالنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ نوازشریف اور مریم نواز کے بقول انہوں نے 2018ءکے انتخابات قانون، پارلیمنٹ، جمہوریت کی بالادستی اور مقتدر قوتوں کی مداخلت کے خلاف لڑے تھے۔ جبکہ شہبازشریف یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے 2018ءکے انتخابات، نتائج اور مسلم لیگ(ن) کی حکومت بننے، اور خود ان کے وزیراعظم بننے پر اسٹیبلشمنٹ سے تمام معاملات طے ہوگئے تھے جن میں کابینہ کے ناموں کی منظوری بھی شامل تھی، لیکن نوازشریف اورمریم نواز کے بیانیے نے یہ کھیل پلٹ دیا۔ یعنی ایک بھائی جمہوریت کی جنگ جبکہ دوسرا بھائی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار کے حصول کی جنگ لڑرہا تھا۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ بیانیے کی جنگ ہو یا جمہوریت، قانون کی حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی یا اسٹیبلشمنٹ یہ محض بڑے سیاسی ہتھیار ہیں جو شریف خاندان سمیت بہت سی دیگر سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں استعمال کرتی ہیں۔ نوازشریف اپنے چہرے کو جمہوری بنا کر پیش کرتے ہیں، جبکہ دوسرا بھائی بڑے بھائی کی حمایت سے اسٹیبلشمنٹ کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہبازشریف نے 2018ءکے انتخابات کے حوالے سے جو گفتگو کی، کیا وہ یہ باتیں سادگی میں کہہ گئے یا یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شہبازشریف کا حالیہ اعتراف ایک منصوبہ بندی کا حصہ ہے، کیونکہ ابھی تک انہوں نے اس بیان کی تردید نہیں کی۔ دراصل وہ اس بیان سے اپنی جماعت کے قومی، صوبائی، سینیٹ سمیت سرکردہ راہنماؤں کو یہ صاف پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہی واحد فرد ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے مستقبل میں بھی اپنے لیے، پارٹی اور ارکانِ اسمبلی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے کھل کر کہہ دی ہے کہ فوج کے ساتھ مل کر ہی کام کرنا ہوگا، اور اس کے بغیر نہ تو ملک چل سکتا ہے اور نہ ہی ہمیں فوج سے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ یعنی ان کے بقول اگر وہ پارٹی کے سربراہ ہیں تو یہی بیانیہ آگے بڑھے گا، اور نوازشریف کے بیانیے کی شاید کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ شہبازشریف کی اس بات کے پیچھے تین اور عوامل ہیں۔ اول انہوں نے اس نکتہ نظر سے کہ اسٹیبلشمنٹ آج بھی ان ہی کے ساتھ ہے، اپنے ارکان اسمبلی کو پیغام دیا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں ہی رہیں، اور مستقبل ہمارا ہے۔ کیونکہ شہبازشریف کو اندازہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سطح پر ایک گروپ موجود ہے جو پی ٹی آئی کے ساتھ رابطوں میں ہے۔ اس لیے شہبازشریف کے بیان کا مقصد ہے پارٹی کو یکجا رکھنا، خاص طور پر پارٹی کے ارکانِ اسمبلی کو اس بات پر قائل کرنا کہ وہ ان ہی کے بیانیے کے ساتھ کھڑے رہیں۔ دوئم شہبازشریف کو اس بات کا احساس بھی ہے کہ مریم نواز کچھ سینئر راہنماؤں کے ساتھ مل کر اپنے گروپ کو پارٹی میں منظم کررہی ہیں جو ان کی قیادت کو بھی کمزور کرے گا اور پارٹی کے اندر پہلے سے موجود گروپ بندی کو اور زیادہ تقویت دے گا۔ سوئم وہ اب بھی اسٹیبلشمنٹ کو صاف پیغام دے رہے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ مستقبل کی پیش قدمی میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ میاں نوازشریف جب تیسری مرتبہ وزیراعظم کے عہدہ پر براجمان ہوئے تھے ان کی ترجیحات بہت حد تک تبدیل ہو چکی تھیں وہ ملک کو معاشی طور پر مضبوط اور خوشحال کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی خواہش یہ بھی تھی کہ ملک کے تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر فرائض سرانجام دیں اور کوئی ادارہ کسی دوسرے کے انتظامی امور میں مداخلت سے گریز کرے۔ اس حوالے سے میاں نوازشریف کو اپنی صاحبزادی مریم نواز کی مشاورت حاصل تھی جن کے مشوروں پر وہ من و عن عمل کیا کرتے تھے۔ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا، چین سمیت دیگر دوست ممالک کے تعاون سے پاکستان میں بڑے میگا پراجیکٹ شروع کروانا نوازشریف کی ترجیحات میں شامل تھا اور وقت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اب صرف عوامی بہبود اور ملکی ترقی میں معاون ثابت ہونے والے منصوبوں پر کام شروع کیا جائے لیکن بعض مقتدر حلقے نوازشریف کے ارادے بھانپ چکے تھے اسی لئے پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کو حکومت وقت کے خلاف تیار کیا گیا اور وفاقی دارالحکومت میں احتجاجی دھرنے کروائے گئے۔ اس کے باوجود میاں نوازشریف چین کے تعاون سے سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ جیسے عظیم الشان منصوبے شروع کروانے میں کامیاب ہوگئے اور یہی ان کی نا اہلی کی وجہ بن گئے اور اسی نا اہلی پر ہی میاں نوازشریف نے ملک گیر سطح پر عوامی جلسے جلوس شروع کر دیئے جس میں ان کا مقتدر حلقوں سے سوال تھا کہ "مجھے کیوں نکالا" لیکن کوئی بھی ادارہ انہیں مطمئن نہ کرسکا۔
ان تمام عوامی رابطوں میں مریم نواز سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے شانہ بشانہ تھیں بلکہ وہ جارح مزاجی میں اپنے والد میاں نوازشریف سے آگے نکل گئیں۔ یہیں سے میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کے بیانیہ اور نظریات میں اختلافات آتے چلے گئے۔ سیاسی پنڈتوں نے شریف برادران میں اختلافات کو ہوا دینا شروع کر دیا لیکن شریف خاندان میں تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنے کا عنصرپایا جاتا تھا اور ایک دوسرے کے احترام یہ سلسلہ آج بھی برقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی شریف خاندان کا مشیرازہ بکھرنے نہیں پایا بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ پچھلے چند ماہ پر نگاہ دوڑائی جائے تو چند مثالیں موجود ہیں مثلا میاں نوازشریف کو علاج کے لئے بیرون ملک بھجوانا، مریم نواز کی خاموشی، ن لیگی رہنماؤں کی گرفتاریاں اور پھر رہائی یہ وہ مثالیں ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب میاں شہباز شریف کے بیانیہ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب میاں شہباز شریف ناصرف عمران خان حکومت کے خاتمہ کی وجہ بنیں گے بلکہ اس پارٹی کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لئے کہ پچھلے کئی ماہ سے مسلم لیگ ن پالیسیوں کا تسلسل شہباز شریف کا بیانیہ ہے جو آئندہ بھی جاری رہنے کا قوی امکان ہے۔