پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کی اعلیٰ قیادت اور اہم کارکنان پارٹی کی تنظیم نو کو شدت سے محسوس کرنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں وزیراعظم اور پارٹی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر ملک بھر میں پی ٹی آئی کی تنظیم سازی پر از سر نو کام شروع کر دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی میں تنظیم سازی کا آغاز پنجاب بالخصوص سنٹرل پنجاب سے کیا جا رہا ہے کیونکہ ملک کے اس بڑے صوبہ میں پی ٹی آئی کی حکومت بھی ہے اور اسی صوبہ سے تعلق رکھنے والے آزاد اراکین اسمبلی نے مرکز میں پارٹی کی حکومت بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما پنجاب میں تنظیم سازی کا عمل اس لئے بھی شروع کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس صوبہ میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کےلئے بلدیاتی انتخابات کروانے کے خواہش مند ہیں۔ جبکہ بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا اس لئے بھی کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان حکومت سے محروم کیے جانے کی صورت میں پی ٹی آئی کے کارکنان کو نئے انتخابات کےلئے متحرک کر سکیں۔ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کا بوریا بستر کب گول کر دیا جاتا ہے اور کب اقتدار سے محرومی کے دن دیکھنا پڑ جائیں، وزیراعظم عمران خان کو ان تلخ حقائق کا ادراک ہے جبکہ ملک کی موجودہ سیاسی اقتصادی اور معاشی صورت حال دیکھتے ہوئے اب تبدیلی کے دروازے پر حقیقی معنوں میں دستک دیتی دکھائی دینے لگی ہے۔ اسی صورت حال کے پیش نظر تحریک انصاف نے پنجاب سے تنظیم سازی کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جب سے عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے وہ امور مملکت میں بہت زیادہ مصروف ہو چکے ہیں اور اب نچلی سطح تک تنظیم سازی کے عمل کی براہ راست نگرانی کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی لئے اب یہ فریضہ چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی، عجاز چوہدری اور اشتیاق ملک سمیت بہت سے دوسرے عہدیدار انجام دیں گے۔ ماضی قریب میں سیف اللہ نیازی اور عامر کیانی نے ریجنل تنظیمیں بنانے کے بعد ضلعی اور تحصیل تنظیموں کی تشکیل کے اختیارات بھی انہیں ریجنل تنظیموں کے سپرد کر دیئے تھے تا کہ ریجنل عہدیدار گراﺅنڈ لیول پر بامقصد مشاورت کے ساتھ تمام مقامی رہنماﺅں کو آن بورڈ لیکر تنظیم سازی کریں۔
یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہوگا کہ وزیراعظم بننے کے چند ماہ بعد عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور نیشنل کونسل نے صوبائی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ بنانے کی منظوری دی تھی جس کے بعد پنجاب کی پارٹی صدارت کےلئے اعجاز چوہدری کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ضلعی تنظیم سازی کے معاملے پر اعجاز چوہدری کی مخالفت ہونے لگی۔ بعد ازاں اعجاز چوہدری، سیف اللہ نیازی اور عامر کیانی کے درمیان بھی اختلاف رائے پیدا ہوگیا تھا۔ پنجاب میں تنظیم سازی کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ اعتراضات سنٹرل ریجن میں کی جانے والی تنظیم سازی پر کیے جا رہے ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی رہنماﺅں کا حالیہ تنظیم سازی کے حوالے سے کہنا ہے کہ اگر ماضی کو نہ دہرایا گیا تو تحریک انصاف کو پنجاب میں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بنایا جاسکتا ہے لیکن شرط صرف یہ ہے کہ پارٹی سے وفادار اور مخلص کارکنان کو آگے لایا جائے اور انہیں اہمیت دی جائے تا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں، یونین کونسلوں میں نچلی سطح پر پاکستان تحریک انصاف کا پیغام پہنچائیں۔ پنجاب کے پی ٹی آئی رہنماﺅں کا موقف یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کو پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے مسلم لیگ ن جیسی پرانی سیاسی قوت سے مقابلے کا سامنا ہے، اس لئے اس صوبہ میں ضلعی اور تحصیل سطح پر تنظیم سازی کا عمل جلد از جلد مکمل کرنا ہوگا تا کہ تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں پنجاب کے تمام اضلاع میں واضح اکثریت حاصل کر سکے۔ بعض پی ٹی آئی رہنماﺅں کا خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر تنظیم سازی مکمل کر کے جلد از جلد بلدیاتی انتخابات نہ کروائے گئے تو آئندہ انتخابات میں پارٹی کو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا اس لئے پنجاب میں تنظیم سازی کا عمل بلا تاخیر مکمل کیا جانا چاہیے۔
عمران خان پچھلے کئی برسوں سے یہ خواب دیکھتے آئے ہیں کہ تحریک انصاف ایک منظم اور متحد سیاسی قوت بنے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کےلئے گرانقدر خدمات انجام دینے والوں میں عبدالعلیم خان، سیف اللہ نیازی اور دیرینہ پارٹی کے کارکن اشتیاق ملک جیسے لوگ شامل ہیں ان کے علاوہ پی ٹی آئی کے بانی کارکنان میں شبیر سیال ایک ایسا نام ہے جنہوں نے ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر پارٹی کےلئے بے لوث خدمات انجام دیں۔ شبیر سیال اس وقت سے پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں جب میں نے صحافت کا آغاز کیا یعنی ایک طرح سے پی ٹی آئی کا قیام اور میرے صحافتی سفر کا آغاز ایک ہی وقت میں ہواجبکہ دیگر اہم پارٹی کارکنان جنہوں نے پارٹی کی اعلی قیادت کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کے باوجود پارٹی کو فعال کرنے کےلئے بھرپور کردار ادا کیا ان میں علی امتیاز وڑائچ، عامر احمد گجر، حافظ عبید اللہ، شکیل خان نیازی، عثمان سعید بسرا، رانا اختر حسین، ثانیہ کامران، خواجہ عامر، نوید انصاری اور نعمان قاضی شامل ہیں۔ پی ٹی آئی پارٹی کارکنان میں یہ وہ نام ہیں جنہوں نے میڈیا اور عوام سے رابطہ رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا لیکن پی ٹی آئی کے پاﺅں اب پنجاب سے اکھڑنے لگے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ تمام لوگ جو پہلے پارٹی کے وفادار رہے اب غیر مخلص ہو چکے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جادوئی کمالات دکھانے والے بہت سے پارٹی کارکنان کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا تھا لیکن اعجاز چوہدری نے کمال مہارت سے مشکل صورتحال پر قابو پا لیا ہے لیکن ابھی آگے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ پی ٹی آئی میں جس شدت سے تنظیم سازی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اگر اس موقع پر اعجاز چوہدری جیسے رہنماﺅں پر اعتراضات کرنے لگے تو پھر پی ٹی آئی پنجاب میں کبھی پاﺅں جمانے میں کامیاب نہیں ہوگی۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال تبدیلی کے اشارے دے رہی ہے اگر اس موقع پر تنظیم سازی کے عمل میں شفافیت اور میرٹ کا خیال نہ رکھا گیا تو آنےوالے دنوں میں پی ٹی آئی پنجاب میں مزید کمزور ہو سکتی ہے۔ یہ حقیقت الگ ہے کہ عام انتخابات سے پہلے بلدیاتی انتخابات کروانا پی ٹی آئی کےلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ پنجاب میں عام عوام کے ساتھ روابط استوار کرنے سے ہی مرکز میں حکومت بنانے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ورنہ پچھلی چار دہائیوں سے پنجاب کی اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لینے کےلئے تیار بیٹھی ہے۔ اس جماعت نے اقتدار کے بہت سے ادوار دیکھے ہیں۔ خاص طور پر پنجاب میں مسلم لیگ ن کی جڑیں بے حد نیچے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کے سیاسی حلقوں میں قومی حکومت کی تشکیل اور مڈٹرم کی باتیں ہو رہی ہیں تب تو پی ٹی آئی کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ شیر تو آ ہی جائے گا کیونکہ شیر نہ صرف پنجاب کا بادشاہ ہے بلکہ اس سب سے بڑے صوبہ میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد پورے ملک پر حکمرانی کا اہل قرار دیا جاتا ہے۔ یقین نہیں تو آزما کر دیکھ لیں، آزمائش شرط ہے لیکن ایک افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے کپتان اور وزیراعظم عمران خان کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ بیروز گاری کا مسئلہ، مہنگائی کا جن، معاشی بدحالی، ناقص خارجہ پالیسی، اشیا خوردونوش کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والا ہوشر با اضافہ یہ سب ایسے معاملات ہیں جن پر کپتان کی گرفت دن بدن ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں وہ ذاتی حیثیت میں پی ٹی آئی کی تنظیم سازی کی نگرانی کرنے سے قاصر ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو آئندہ انتخابات خواہ وہ ان کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری ہونے کے بعد ہی ہوں مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی اس لئے ہوشیار خبردار ہوشیار کپتان۔