Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Khabrain/
  3. Akhri Choice

Akhri Choice

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے دور اقتدار کا دوسرا وفاقی بجٹ با آسانی قومی اسمبلی سے منظور کروا لیا ہے۔ حکمران جماعت کے پیش کردہ بجٹ کو اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ بھی مانگ لیا۔ قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے وفاقی بجٹ میں بحث کے دوران حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی آپس میں دست و گریبان رہے۔ بجٹ کی اس بحث میں حکمران جماعت انتشار کا شکار بھی نظر آئی اور چند اراکین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے بالواسطہ طور پر اپنی قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا، یہی نہیں بلوچستان نیشنل پارٹی، جمہوری وطن پارٹی اور پنجاب سے تعلق رکھنے والی حکومت کی اتحادی جماعت ق لیگ نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ جس کے بعد وزیراعظم عمران خان کو اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اور اتحادی جماعتوں کے اعزاز میں ایک عشائیے کا اہتمام کرنا پڑا۔ اس کے دو بہت ہی خاص پہلو تھے ایک یہ کہ حکمران جماعت کی اہم اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم کے عشائیے میں شرکت نہیں کی بلکہ ق لیگ نے اسلام آباد ہی میں الگ سے اپنے ہم خیال سیاسی نمائندوں کے لئے عشائیے کا اہتمام کیا جس کا ایک مطلب احتجاج رجسٹرڈ کروانا تھا اور دوسری بات اپنی پاور شو کرنا تھا۔ ق لیگ کے چوہدری برادران اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے کیونکہ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے چوہدری برادران کو عشائیے میں شرکت کے لئے قایل کرنے کیلئے رابطہ کیا تو وزیراعظم کا یہ پیغام بھی دیا کہ وہ چوہدری مونس الہی کو وفاقی کابینہ میں شامل کرنے سے متعلق سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ اس پیش کش کا نتیجہ تھا کہ حکومت اتحادی جماعتوں کے تعاون سے وفاقی بجٹ منظور کروانے میں کامیاب ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دیئے گئے عشائیے کی دوسری خاص وجہ ان کا شرکا سے خطاب تھا جس میں انہوں نے کہا کہ وزارت عظمی کے لئے ان کے سوا کوئی دوسری چوائس موجود نہیں ہے۔ عمران خان کے اس بیان نے بہت سی سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ وہ خود سے اسمبلیاں توڑ دیں گے، استعفیٰ دیں گے نا گھر جائیں گے بلکہ ڈٹ کر وقت کے حالات اور مخالفین کا مقابلہ کریں گے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ حکومت اپنے اقتدار کی آئینی مدت پوری کرے گی۔

وزیراعظم کے خطاب میں استعمال کیے گئے الفاظ کا مطلب یہ بھی تھا کہ اتحادی جماعتوں کو بدگمان ہونے اور دوسرے سیاسی گھونسلوں کی طرف اڑان بھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں پر آمریت کا دور دورہ رہا ہو یا جمہوری ڈکٹیٹر شپ کی ریل پیل، ہر عروج کو زوال آیا اور بہت سے حکمران تو ایسے بھی ہیں جو آج کی نوجوان نسل کو یاد ہی نہیں ہوں گے۔ قائد ملت لیاقت علی خان سے لیکر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو سے لیکر ہیوی مینڈیٹ کا اعزاز حاصل کرکے وزارت عظمی کے منصب پر براجمان ہونے والے میاں نوازشریف، فیلڈمارشل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور پرویز مشرف جیسے آمر حکمرانوں تک نے سوچ لیا تھا کہ وہ ہیں تو یہ ملک ہے، وہ نہیں تو کچھ نہیں ہو گا۔ لیکن قدرت کی کرشمہ سازی کا کمال ہے کہ آج کرسی کی مضبوطی کا دعوی کرنے والے ہیں نا ہیوی مینڈیٹ کوئی اقتدار میں رہا نا ہی بچا ہے۔ تو یہ ملک اور یہاں کے عوام جن کو ہمیشہ سے غربت، افلاس، مہنگائی، بے روز گاری اور پسماندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور پچھلے دو برسوں کے دوران عوام کو دلائی گئی نئے پاکستان کی امید بھی دم توڑ گئی ہے لیکن وزیراعظم کا فرمانا ہے کہ ان کے سوا کوئی چوائس نہیں ہے۔ اس بیان کے ردعمل میں اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم سے فوری طور پر استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور احسن اقبال نے کہا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے حکومت نے اپنی نالائقی، نااہلی کا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے۔

پیٹرول کی قیمت میں 25 روپے کے قریب کا اضافہ ہوا ہے اور وہ بھی آج عوام کی قوت خرید سے باہر ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ضرورت تو یہ تھی کہ وزیراعظم قومی اسمبلی میں آئے تھے، تو کہتے کہ میں نے معیشت کو تباہ کردیا ہے، میں ٹیکس اکٹھے نہیں کرسکا، معیشت کو نہیں بڑھا سکا اور میرے پاس واحد راستہ ہے کہ آپ کے اوپر بوجھ ڈالوں اور پیٹرول پر ٹیکس کو 15 روپے 69 پیسے سے بڑھا کر 44 روپے 55 پیسے کررہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمت ہوتی تو وزیراعظم یہ بات کرتے۔ بات یہاں پر نہیں رکے گی کیونکہ حکومت معیشت کو بڑھانے، ٹیکس وصولی، معیشت کو سنبھالنے، صنعتوں کو بڑھانے، سرمایہ کاری کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور حکومت کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ پیٹرول، ڈیزل پر ٹیکس بڑھائے اور عوام پر بوجھ ڈالے۔ رہنما مسلم لیگ ن نے کہا کہ ہم یہ معاملہ قومی اسمبلی میں بھی اٹھائیں گے اور عوام کی عدالت میں یہ مقدمہ رکھ دیا ہے کہ اس حکومت کی ناکامیوں میں ایک اور اضافہ ہواہے کہ حکومت نے اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنی نالائقی، نااہلی کا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے۔ سابق وفاقی وزیرخواجہ آصف نے پیٹرولیم مصنوعات سے متعلق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ماضی میں کیے گئے ٹوئٹس کا حوالہ دیا اور کہا کہ وزیراعظم اگر اپنے ٹوئٹس پڑھ لیں تو اس فقرہ پر بھی غور کریں کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر جرات ہے تو عمران خان اس ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ دیں۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی )اپنا نیا لیڈر چن لے تاکہ قوم کو اس شخص سے چھٹکارا ملے کیونکہ سارا پاکستان ان کی انا کی نذر ہوچکا ہے۔

حکومت نے پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے لیے 30 جون کا بھی انتظار نہیں کیا، پاکستان کے عوام یہ بوجھ برداشت نہیں کرسکےں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اپوزیشن جماعتوں سے مل کر مشترکہ لائحہ عمل طے کریں گے اور عوام کو اس ایک نکتے پر جمع کریں گے کہ مہنگائی کا یہ طوفان جو 2 سال سے چل رہا ہے اور اب سونامی کی شکل اختیار کرچکا ہے اس کے آگے بند باندھا جاسکے۔ بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم عمران خان کی گذشتہ اجلاس میں تقریر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم صاحب نے اسامہ بن لادن کو شہید قرار دے دیا۔ یہ وہ اسامہ بن لادن ہے جس نے پاکستان کے شہریوں، پاکستان کے بچوں کو شہید کیا، ہمارے فوجیوں کو شہید کیا ہے۔ ان کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کے کیس سے لے کر کارساز اور 1993 میں رمزی یوسف پر قاتلانہ حملے تک کا الزام اسامہ بن لادن پر ہی ہے۔ یہ آدمی جن کو ہم وزیر اعظم کہتے ہیں، وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کو، مسلم امہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم کو، جو دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئیں، یہ وزیر اعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید نہیں کہتے مگر اسامہ بن لادن کو شہید کہہ سکتے ہیں۔

اب جبکہ بجٹ منظور کیا جا چکا ہے لیکن آنے والے چھ ماہ بہت اہم ہیں کیونکہ وزیراعظم عمران خان کابینہ اجلاس میں خود کہہ چکے ہیں کہ کارکردگی دکھانے کے لئے اب صرف چھ ماہ کی مہلت ہے اور حقیقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس اب صرف 6 ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے جس کے بعد سلیکٹرز دوسری خواہش پر طبع آزمائی کر سکتے ہیں۔