تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے کم و بیش دو سال ہو چکے ہیں لیکن اقتدار کے آغاز ہی سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، بالخصوص قومی معیشت زبردست بحران کا شکار ہوتی چلی گئی۔ پی ٹی آئی حکومت نے گذشتہ دنوں اپنے دور اقتدار کا دوسرا وفاقی بجٹ پیش کیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان میں کورونا کی تباہ کاریوں کے باوجود پہلی مرتبہ ٹیکس فری بجٹ تیار کیا گیا ہے۔ لیکن ان دعوؤں کے برعکس بجٹ کے ثمرات عوام تک پہنچے اور نا ہی ہوشربا مہنگائی میں کمی آئی۔ قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے آخری مرحلہ میں وزیراعظم عمران خان نے مائنس ون کی بات کرکے ایک نئی بحث شروع کروا دی جس پر بعض وزراءنے مائنس تھری تک کا اشارہ دیدیا۔ مائنس تھری یا مائنس ون کی اصطلاح پہلی مرتبہ قومی سیاست میں استعمال نہیں کی گئی بلکہ اس سے پہلے بھی جب جب قومی حکومت کی تشکیل کے فارمولے پر بات کی گئی تو حکمران جماعت ہی سے متبال لانے پر زور دیا گیا۔ اس بار جب وزیراعظم عمران خان نے مائنس ون پر بات کی تو اپوزیشن کی طرف سے مائنس ون کی حمایت میں بیانات آنے لگے بلکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے تو یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ صرف مائنس ون یا مائنس تھری نہیں ہوگا بلکہ حکمران ٹولہ مکمل طور پر گھر جائے گا۔
اس بحث پر روزانہ کی بنیاد پر نئے نئے تبصرے سننے کو مل رہے ہیں۔ صرف اپوزیشن ہی نہیں بلکہ وفاقی وزرا بھی کھلم کھلا اس بحث میں شریک ہیں کہ مائنس ون یا مائنس تھری فارمولا آنے کے امکانات موجود ہیں۔ سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملوں اور مخالفانہ بیان بازی میں کورونا وائرس جیسے اہم مسئلے کو پس پشت ڈال چکے ہیں اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہر کوئی اپنی انفرادی کارکردگی بہتر سے بہتر کرنے اور خود کو سیاسی میدان میں زیادہ دیر تک زندہ رکھنے کےلئے بیان بازی میں مصروف ہے۔ پاکستان میں سیاست شخصیات کے نام پر ہی ہوتی رہی ہے اور شاید طویل عرصے تک شخصیات تک ہی تک محدود رہے گی۔ کوئی نئی پارٹی کتنے ہی آئیڈیل منشور کے ساتھ سامنے کیوں نہ آ جائے، اگر کوئی بڑا نام نہیں تو پارٹی بھی بے نامی ہی رہے گی۔ گلیوں کوچوں میں لگے پارٹی بینرز دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس ملک کی سیاست کےلئے شخصیات کتنی اہم ہیں۔ جب سیاست ہی شخصیات پر ہوگی تو سیاسی طاقت کا محور بھی وہی شخصیات رہیں گی اور طاقت کے اس محور کو توڑنا ہی دراصل اس سیاسی جماعت کو توڑنا ہوتا ہے، جس کےلئے مائنس کی اصطلاح متعارف کرائی گئی۔
پاکستانی سیاست کے سب سے پہلے اور بے رحمانہ مائنس کا شکار ذوالفقار علی بھٹو بنے جنہیں پھانسی پر ہی لٹکا دیا گیا، لیکن بقول پارٹی ورکرز آج بھی بھٹو زندہ ہے، کا نعرہ ان کی جماعت کو سیاسی زندگی دیتا ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں مائنس کی اصطلاح کا استعمال زبانی اور عملی دونوں صورتوں میں سامنے آیا۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہان کو مائنس کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ 2002ءکے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں اپنے سربراہان کے بغیر ہی میدان میں اتریں۔ اس مائنس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آنے والے ادوار میں یہی جماعتیں برسر اقتدار آئیں۔ حالیہ سیاست کا ایک اور بڑا مائنس نواز شریف تھے، جو عدالتی فیصلے کے تحت نااہل قرار پا کر مائنس ہوئے اور لمحوں میں وزرات عظمی سے وہاں پہنچ گئے جہاں بالآخر کوئی پارٹی عہدہ بھی نہ رہا۔ لیکن ان کی سیاست مائنس نہ ہوسکی۔ ان کی جماعت نے گذشتہ انتخابات میں نہ صرف خود اپنی توقعات سے بڑھ کر نشستیں جیتیں بلکہ مسلم لیگ ن شکست کھانے والی وہ پہلی جماعت بنی جس نے سوا کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ اب عمران خان کے مائنس کی خبریں اچانک سامنے آنے لگی ہیں جن پر ان کے کئی جذباتی پارٹی ساتھی خاصا سیخ پا بھی ہیں، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مائنس ون کوئی اپوزیشن جماعت نہیں کرسکتی۔ شیخ رشید جن کے بیان میں کسی خاص وجہ سے ہمیشہ وزن رہا ہے، کہتے ہیں کہ اگر مائنس ہوا تو ون نہیں بلکہ تھری ہوگا۔ ان کی مراد شاید پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی جانب تھا۔ لیکن اگر وہ بھی مائنس کی وضاحت پر مجبور ہوئے ہیں تو شاید دال میں کچھ کالا ہو۔ جب یہ مائنس ہوتا ہے تو اس کا ایسا جواز بھی بنا دیا جاتا ہے کہ اسی پارٹی کو اس مائنس کی وضاحتیں دینا پڑ جاتی ہیں لیکن سیاسی طور پر اگر کسی کو کوئی مائنس کرسکتا ہے تو وہ ہیں عوام اور اگر لیڈر عوام کے دلوں میں ہو تو وہ مائنس ہو کر بھی پلس ہی رہے گا ورنہ عوام ووٹ کی طاقت سے صرف لیڈر نہیں بلکہ پوری جماعت کو مائنس کر دیں گے۔
کورونا وائرس سے ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کیسے کیا جائے گا اور قومی سلامتی کے معاملات پر اتفاق رائے کیسے قائم کیا جائے گا؟ اس اہم معاملہ پر توجہ دینے کی بجائے حکمران جماعت تحریک انصاف اور تمام اپوزیشن جماعتیں صرف اور صرف مائنس ون، ٹو، تھری اور فور کے چکر میں پھنس چکی ہیں لیکن سنجیدہ سماجی حلقوں میں یہ نقطہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا عمران خان کو مائنس کرنے سے ملک کو درپیش مسائل کا خاتمہ کرناممکن ہو سکے گا تو اس امکان اور سوال کے جواب میں یہ دلیل پیش کی جا رہی ہے کہ حکمران جماعت تحریک انصاف میں عمران خان کے سوا کوئی بھی شخص اتنی طاقتور اور بااثر نہیں جو ان کا متبادل ثابت ہوسکے اور ملک کو درپیش گھمبیر مسائل سے چھٹکارہ دلوانے میں معاون و مدد گار ثابت ہوسکے۔ مقتدر حلقوں کی جانب سے بھی بظاہر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ تمام ادارے ایک صفحہ پر ہیں اور یہ تمام قوتیں مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ ملک کو درپیش مسائل سے نجات دلوانے کےلئے ناصرف پر عزم بلکہ متحرک ہیں۔ زمینی حقائق کو پرکھا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی مصنوعی قلت ہو، چینی شوگر مافیا کے پیدا کردہ بحرانوں پر، حکومت کی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ نئے مالی سال کا آغاز ہو چکا ہے جس کی سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ آئندہ چند دنوں میں ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان برپا ہونے والا ہے۔
عام دکانوں، بازاروں کا ذکر تو ایک طرف رکھا جائے، حکومت کے زیر انتظام چلنے والے یوٹیلیٹی سٹورز پر بھی اشیا صرف مقرر کردہ سرکاری نرخوں پر دستیاب نہیں ہیں۔ عوام کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں، آٹا چینی اور پٹرولیم مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی کر کے انہیں منہ مانگے داموں پر مارکیٹ میں لایا گیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت امور مملکت سنبھالنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے جبکہ عوام کی بڑی خواہش ہے کہ بنیادی ضروریات کی تمام تر اشیا کی قیمتوں میں استحکام رہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جس میں صرف ایک مثال چینی کی دی جا سکتی ہے کہ جس کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہونے پر اس وقت کی حکومت کو چلتا کر دیا گیا تھا۔ ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر مائنس ون یا مائنس تھری فارمولا پر بحث و تکرار زیادہ اہم نہیں ہے بلکہ عوام کو درپیش دیرینہ مسائل سے نجات دلانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ موجودہ حکومت قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کےلئے اپوزیشن جماعتوں سے ہاتھ ملانے کےلئے ہرگز تیار نہیں ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مصالحت کی کوششوں اور سرد مہری کا اظہار کیا گیا جس کے بعد ملک کے سیاسی منظر نامہ میں مائنس ون، ٹو، تھری اور فور کی بحث چھڑ گئی ہے۔ اس بحث کا خاتمہ کب اور کیسے ہوگا یہ تاحال سوالیہ نشان ہے۔