یوں تو دنیا بھر میں صحافتی آزادی پر قدغن لگائی جاتی ہے اور صحافیوں کے اظہار رائے پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں لیکن پاکستان کا معاملہ کچھ زیادہ ہی مختلف ہے۔ جس طرح کبھی جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے اورآمریت پسندی کو فروغ دینے کا مصنوعی سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے اسی طرح آزادی صحافت کو کچلنے کی کوششیں بھی پاکستان میں کبھی تھمنے میں نہیں آتیں۔ پاکستان میں سچ لکھنا، سچ بولنا اور سچ دکھانا ایک کٹھن کام رہا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ذرائع و ابلاغ کو مملکت کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے لیکن اس چوتھے ستون کو گرانے اور چاروں شانے چت کرنے کا سلسلہ بھی برقرار رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا سے پہلے ایسے اخبارات و رسائل کو بند کر دیا جاتا جو ارباب اختیار کی عوام مخالف پالیسیوں پر کڑی تنقید کرنے کا جرم کرتے لیکن یہ جرم صرف ارباب اختیاراور حکومت وقت کی نظر میں ہی جرم تصور کیا جاتا تھا عوامی حلقوں میں سچ کا پرچار کرنے والوں کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا اور قابل توقیر سمجھا گیا۔ میڈیا کی آزادی سلب کرنے کے حربے صرف آمرانہ ادوار ہی میں نہیں اپنائے گئے بلکہ جمہوری حکومتوں نے بھی آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے اور تنقید کو سامنے لانے سے روکنے کےلئے میڈیا پر بیہمانہ وار کیے۔ مار شل لاؤں کے دور ہوں یا جمہوریت، پاکستان میں بھی آزادی صحافت کے خدوخال دھندلے کرنے کی کوشش کی گئی۔ سچ لکھنے والوں کو کوڑوں کی سزائیں دی گئیں جیلوں میں ڈالا گیا، حتی کہ بعض صحافیوں نے قلم کی حرمت کےلئے جام شہادت بھی نوش کیا۔ اس کے برعکس خوشامدی اور نام نہاد صحافیوں کو مراعات سے نوازا گیا، عہدے دیئے گئے اور ایک خوشحال زندگی بھی مہیا کی گئی۔ ماضی میں آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کی تراکیب اختیار کی جاتی رہیں لیکن پچھلے دو برسوں کے دوران پاکستان کی صحافت کو اس قدر متنازعہ بنا دیا گیا کہ اب سچ لکھنے اور بولنے پر غدار وطن اور جھوٹ بولنے والے کے اعزازت سے نوازا جا رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جہاں سیاسی قدروں کو پامال کیا وہاں حقائق کو عوام کی عدالت میں لانے والے صحافیوں اور میڈیا مالکان کو سزاؤں کا حق دار ٹھہرایا گیا اور یہ سلسلہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ میڈیا ابتدا ہی سے عمران خان کے ساتھ ایک خاص لگاوٹ اور محبت کا اظہار کرتا رہا ہے۔ حتی کہ 2013 اور پھر 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی تک میڈیا نے جانبدارانہ کردار بھی ادا کیا لیکن عمران خان جو تبدیلی اور نیا پاکستان کے نعرے لگا کر اقتدار میں آئے تھے لیکن وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے ہی ناصرف سیاسی مخالفین کو جیلوں میں قید کرنے پر کمر بستہ ہوگئے بلکہ انہوں نے حقائق سامنے لانے والے صحافیوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ وزیراعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے سے کم و بیش تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ اب حقیقی معنوں میں پاکستان ترقی، خوشحالی اور تبدیلی کے ایک نئے سفر کی جانب گامزن ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ملک معاشی پسماندگی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ جہاں دیگر شعبے زوال، بحران اور بدحالی کا شکار ہوئے وہاں ہزاروں قلم مزدور بےروز گار ہوگئے۔ ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹنے لگے اور آج بھی ملک میں کورونا کی وبا عام شہریوں کو متاثر کر رہی ہے تو بےروزگار قلم مزدور فاقہ کشی کی حالت کو پہنچ گئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے 1993 میں 3 مئی کو آزادی صحافت کا دن قرار دیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں صحافیوں کے حقوق اور ان کی آزادی رائے کے تحفظ اور ایسے صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے سچ کی تلاش میں اپنی جانیں گنوا دیں۔ بہت سے کہنہ مشق اور اصول پرست صحافیوں نے براہ راست ضیا الحق کے سینسرشپ کا دور بھی دیکھا ہے، جس میں پورا اخبار سینسر کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد بتدریج حالات بہتر ہوئے اور آزادی اظہار رائے کسی حد تک بحال ہوئی۔ لیکن کہا جا رہا ہے کہ اس وقت جس قسم کی سینسر شپ ہے وہ آمریت کے دور کی سینسر شپ سے بھی بدتر ہے۔ زمینی حقائق جھوٹ بولنے سے بدل نہیں سکتے۔ آزادی صحافت پر قدغنیں لگانے سے دو چار دن آپ اپنا موقف دے سکتے ہیں مگر بالآخر سچائی آپ کو ماننا پڑتی ہے۔ معاشرے میں صحافیوں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے، صحافی معاشرے کو طاقتور بناتے ہیں کیونکہ کہاوت ہے کہ معلومات میں طاقت ہے اور صحافی آپ کو وہ طاقت دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں غیرجانبدارانہ رپورٹنگ کی ضرورت اور اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے اور اسی کے ساتھ صحافیوں کی ذمہ داری بھی۔ مبصرین کے نزدیک اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں ریاست کی طرف سے صحافیوں کی زبان بندی کےلئے دباؤ بڑھتا گیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ ریاست اپنی غلط پالیسوں پر نظر ثانی کرنے کی بجائے اپنی ناکامیوں کا غصہ صحافیوں اور صحافتی اداروں پر نکالتی نظر آتی ہے۔ میڈیا کو کنٹرول کرنے کےلئے ہمارے آج کل کے حکمران بعض دوسرے ممالک سے متاثر نظر آتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت کا مزاج جمہوری ہے اور میڈیا پر شکنجہ کسنے سے ملک اندر سے کمزور ہوتا ہے۔ میرے خیال میں صحافیوں کی زبان بندی اور انہیں دھمکانے کی حالیہ روش ایک لمبی جدوجہد کا ایک کٹھن دور ہے لیکن یہ صورتحال زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ تمام دنیا کی صحافتی برادری اس بات کا تجدید عہد کرتی ہے کہ کسی بھی پرتشدد عناصر یا ریاستی دباؤ کے بغیر آزاد سچی اور ذمہ دارانہ اطلاعات عوام تک پہنچنے کیلئے لڑتے رہیں گے۔ اس دن تمام صحافی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کو پوری ایمانداری اور حق گوئی و بے باکی کے ساتھ جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہیں۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آٹ بارڈرز کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس صحافیوں کے قتل میں سب سے زیادہ متاثر شام رہا اسکے بعد میکسیکو پھر افغانستان اور عراق کا نمبر آتا ہے۔ دنیا بھر میں آزادی صحافت کیلئے صحافیوں کی قربانیاں لازوال ہیں۔ پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی صحافی ایک طویل عرصے سے اپنی آزادی کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں انکی قربانیوں کی ایک ناقابل فراموش تاریخ ہے۔ آمریت کے دور میں صحافیوں کو بے پناہ اذیت و تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان پر کوڑے تک برسائے گئے نام نہاد سول حکمرانوں کے دور میں اخبار اور چینلز کو مالی مشکلات سے دوچار کیا گیا ان کے اشتہارات بند کر دئیے گئے اور انکی ادائیگیوں کو روک لیا گیا ان میں تاخیری حربے استعمال کئے گئے۔ عام پاکستانیوں کی طرح قلم مزدور بھی "تبدیلی" سے تائب ہو چکے ہیں اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ کسی بھی مہذب معاشرے اور ملک میں حقائق اور سچائی کو دبانے کی کوششیں ہمیشہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں اور اس کے نتائج آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ اسی لئے اب پاکستان میں صحافتی آزادی کےلئے بھی ایک انقلاب لانے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے کیونکہ تبدیلی کے نام سے تو سب لوگ ڈر چکے ہیں۔