مخصوص گروپ مسلسل حساس ادارے کے خلاف زہر اگلتا چلا آ رہا ہے۔ اس پورے کھیل میں سیاسی مافیا اور غیر ملکی ہاتھ برابر کے شریک ہیں جن کا اصل ہدف افواج پاکستان ہے۔ اس پورے ایجنڈے میں داخلی محاذ پر چند خفیہ ہاتھ سرگرم ہیں جو کہ موجودہ حکومت کے شروع دن سے ہی مخالفت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ پاکستان مخالف قوتیں اس صورت حال سے پوری طرح فائدہ اٹھا رہی ہیں بھارتی میڈیا کے ساتھ ساتھ مغربی میڈیا بھی پاکستان میں ہونے والے واقعات کو بنیاد بنا کر ایک تاریک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے کہ جب پاکستان خارجی محاذ پر اپنی کامیاب ڈپلومیسی سے ہمکنار ہوا ہے اور اندرونی طور پر قومی معیشت بھی قدرے سنبھل رہی ہے۔ اس وقت اصل صورت حال یہ بن چکی ہے کہ تبدیلی کے لئے ہر کوئی اپنے انداز میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ نظام کی تبدیلی کے لئے دبے لفظوں میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ پاکستان کا اصل مسئلہ اس وقت اقتصادیات نہیں رہا اخلاقیات کا اب جنازہ نکل چکا ہے۔ سیاست، صحافت میں شرافت ہے نا امانت، دیانت۔ اس پورے منظر نامے میں قوم ہجوم بن چکی ہے۔ قومی دولت لوٹی گئی۔ احتساب کا عمل شروع ہوا۔ اس پورے عمل کا ابھی تک کیا نتیجہ نکلا؟ عدالتیں کرپشن کے ثبوت نہ ہونے کی بنا پر برابر ریلیف فراہم کرتی چلی آ رہی ہیں۔
قومی ادارے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ ان حالات میں کہا یہ جا رہا ہے کہ اب سیاست اور معیشت میں بہتری لانے کی غرض سے ایک نئے "عمرانی معاہدے" کی ضرورت ہے۔ یقینا اب "عمرانی معاہدہ" ہونا چاہیے۔ اس معاہدے کے خدوخال بھی تو طے ہو جانے چاہئیں یعنی آئندہ ملکینظام کس طرح چلے گا، موجودہ نظام میں پائی جانے والی خامیاں کس طرح دور کی جائیں گی، کرپشن اور خاندانی اجارہ داریوں کا خاتمہ کس طرح ممکن ہو گا۔ عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کی غرض سے کیا طریقہ کار وضع کیا جائے گا، بیورو کریسی میں کیا اصلاحات لائی جائیں گی اور پھر انتخابی اصلاحات کس طرح لائی جائیں گی، ٹیکس کی وصولی کو کس طرح یقینی بنایا جائے گا، یہ وہ عوامل ہیں جو کہ ہنگامی بنیادوں پر عمرانی معاہدے میں شامل کر کے نیا نظام وضع کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام نکات اس "عمرانی معاہدے" میں شامل کر کے آئین پاکستان میں بھی کسی ترمیم کی ضرورت ہو تو کی جا سکتی ہے۔
NROکا اب ہر سطح پر خاتمہ ہونا چاہئے۔ حکومتی کیمپ اور اپوزیشن دونوں جانب جو کوئی بھی کسی بدعنوانی اور مالی کرپشن کا حصہ بنا ہے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اب رہا مسئلہ یہ کہ عمران خان بطور وزیر اعظم اس وقت عمرانی معاہدہ کرتے ہیں تو کیا اس معاہدے کی مشاورت اور اس پر دستخط کرنے کی غرض سے کیا میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کو دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ہمراہ دعوت دے سکتے ہیں؟ کسی طور پر بھی ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کو عمرانی معاہدے کا حصہ نہ بنایا جائے۔ سیاسی جماعتوں میں ان دو خاندانوں کے علاوہ تجربہ کار سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کی کھیپ موجود ہے جو کہ کبھی بھی کسی مالی کرپشن یا بدعنوانی کا حصہ نہیں رہے۔ اس کے علاوہ اس عمرانی معاہدے میں خاص طور پر چیف جسٹس آف پاکستان، صدر پاکستان، چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی، آرمی چیف سمیت سروسز چیفس اور گورنر صاحبان کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ یہ معاہدہ ماضی کی طرح نہ تو میثاق جمہوریت اور نہ ہی مفاہمتی معاہدہ ہو بلکہ یہ اسی طرز کا ہو کہ جو ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین کی تیاری کیلئے ملک کے تمام اہم سیاستدانوں کے ساتھ مل کر متفقہ طور پر مشاورت کے بعد تشکیل دیا تھا۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔
خطے میں صورت حال بدل رہی ہے۔ بین الاقوامی طاقتیں ایک نئی گیم کا آغاز کر رہی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان داخلی اور خارجی محاذ پر مستحکم پوزیشن پر ہونا چاہیے اور پھر عسکری طور پر پاکستان مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں بھی ہو، پاکستان کے اندر اور بیرون ملک چند عناصر اپنے سیاسی مفادات کے لئے بے پناہ سرمایہ مافیاز میں تقسیم کر چکے ہیں۔ جس کا مقصد پاکستان کے قومی اداروں اور خاص طور پر افواج پاکستان کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کرنا ہے، جس سے ملک میں افراتفری اور غیر یقینی کی صورت حال بھی پیدا کرنا اور کرپشن کے مقدمات سے توجہ ہٹانا ہے۔ اس ضمن میں میڈیا میں فیک سٹوریز فلوٹ کروانا، عسکری اداروں کے اعلیٰ افسران اور حکومتی شخصیات کی کردار کشی ان کا ایجنڈا ہے۔ عمران خان جنحالات میں حکومت چلا رہے ہیں یہ حالات انتہائی مشکل ہیں۔ تباہ حال معیشت اس حکومت کو ملی تھی، غیر ملکی قرضوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا تھا۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صنعتی اور معاشی میدان میں کامیابیاں مل رہی ہیں۔ معیشت کا پہیہ چل پڑا ہے۔ زراعت کے شعبے سے اچھی خبریں مل رہی ہیں مگر پورے ملک میں بدستور مافیاز نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ تعمیراتی شعبہ او دیگر ترقیاتی شعبوں میں مافیاز کا وجود برقرار ہے جو کہ حکومت کی کارکردگی پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اسی بنا پر بدعنوانی اور کرپشن کی داستانیں حکومتی وزراء کو بھی بے نقاب کر رہی ہیں۔ اندرون سندھ ڈاکو گردی عام ہے۔ ڈاکو راج سیاسی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں۔ ہائوس آف زرداری کی سیاست اب ختم ہونی چاہیے۔ اسی طرح سے پنجاب میں باپ، بیٹا، چچا، بیٹی، داماد اور سمدھی مل کر ہائوس آف شریف کے ذریعے حکمرانی کرتے رہے ہیں جس سے جرائم پیشہ عناصر مافیا کی شکل اختیار کرگئے۔
لینڈ مافیا اور قبضہ گروپ ان ہی کی پیداوار ہیں۔ بیورو کریسی خاص طور پر پنجاب میں میاں برادران ہی کے گن گا رہی ہے۔ کیونکہ افسران کو میرٹ سے ہٹ کر ترقیاں دی گئیں، ان ہی کے ذریعے کرپشن کروائی گئی اور کرپشن کے تمام ریکارڈ بھی غائب کروا دیے گئے۔ اب یہ افسران ماضی کے حکمرانوں کا دم چھلہ بن کر موجودہ حکومت کو ناکام بنانے کے لئے خفیہ طور پر سازشیں کر رہے ہیں۔ ان تمام کے ڈانڈے لندن میں جا ملتے ہیں اور پھر وہیں سے ہدایات جاری ہوتی ہیں۔ منظم نیٹ ورک اسحاق ڈار کی سربراہی میں لندن میں اپنا کام کر رہا ہے۔ پانی کی طرح پیسہ بہایا جا رہا ہے۔ گنگا بہہ رہی ہے اس سے میڈیا کے لوگ بھی خوب فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ان تمام حالات میں عمران خان کو قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر عمرانی معاہدہ کرنے کی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے اور تمام نکات کو اس قومی معاہدے کا حصہ بنائیں جو کہ اس کالم میں بتا دیے گئے ہیں۔