برطانیہ میں لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی تارکین وطن آباد ہیں جن میں کثیر تعداد برطانوی اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز ہے۔ برطانوی معیشت کو مضبوط بنانے میں پاکستانیوں کا اپنا ایک منفرد کردار ہے جس کا اعتراف خود برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران کر چکے ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستانیوں کی بھاری اکثریت ان خاندانوں پر مشتمل ہے جوکہ اپنی سرزمین صرف اس بنا پر چھوڑ کر برطانیہ آئے جوکہ اپنے ہی ملک میں ناانصافی، اقربہ پروری اور پھر سیاست میں چند خاندانوں کی اجارہ داری سے تنگ آ کر یہاں آباد ہو گئے۔ یہ خاندان اب برطانوی شہریت کے حامل ہیں۔ یہ بھی وجہ ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اب پاکستانی نژاد ممبران پارلیمنٹ کے علاوہ لندن کے میئر بھی پاکستانی نژاد ہیں۔ برطانیہ میں آباد ہونے والے پاکستانی خاندانوں کی نسلیں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے مقامی معاشرے کا نہ صرف اہم حصہ ہیں بلکہ برطانوی سیاست اور معیشت میں بھی ان کو اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔
برطانوی مالیاتی ادارے ہوں یا میڈیکل کا شعبہ یا پھر ایشیائی ریسٹورنٹ انڈسٹری ان سب اداروں میں پاکستانیوں نے اپنا لوہا منوایا ہے اس کے باوجود برطانیہ میں پاکستانی تارکین وطن کے ساتھ بعض اوقات ناانصافی کی جاتی ہے بلکہ سرزمین پاکستان کے خلاف سرگرم عناصر کو پوری طرح سے برطانوی ادارے یعنی برطانیہ کے حساس ادارے کسی نہ کسی حوالے سے بھرپور تعاون فراہم کرتے ہیں۔ ماضی میں برطانوی عدالتی نظام برطانوی شہریوں کے لیے انصاف پر مبنی رہا ہو گا مگرگزشتہ چند برسوں سے برطانوی اداروں میں انحطاط پایا جانے لگا۔ چند سال قبل برطانوی اخبار فنانشنل ٹائمز نے ایک خبر شائع کی تھی اس خبر کے مطابق ایک ہندو نوجوان کو مسلمان بنایا گیا اور پھر اس نوجوان کو کسی مسلم ملک میں جنگ لڑنے کے لیے بھیج دیا گیا۔ اس نوجوان پر دہشت گردی کے الزامات تھے۔ برطانوی جج صاحب کو اس کا پاسپورٹ ضبط کرلینا چاہیے تھا مگر معزز جج نے اس کے پاسپورٹ کو ضبط کرنے کا حکم اس وقت دیا جبکہ یہ نوجوان مشرق وسطیٰ کے کسی مسلم ملک میں جنگ میں شامل ہونے کی غرض سے جا چکا تھا اسی طرح ایک برطانوی نوجوان James Mclintock جوکہ 2001ء میں پاکستان میں پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث رہا، اس نوجوان کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کو برطانوی اخبار The Guardian نے بڑی واضح سٹوری کے ساتھ شائع کیا تھا۔
برطانوی نوجوان پاکستان میں گرفتار ہوا اور پھر پاکستانی حکام نے اسے برطانوی حکام کے حوالے کر کے برطانیہ واپس بھیج دیا لیکن ہوا یہ کہ یہ نوجوان 2004ء میں ایک بار پھر پاکستان چلا گیا، اس کا پاسپورٹ بھی برطانوی جج نے ضبط نہ کیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ برطانوی عدالتوں میں انصاف کرتے ہوئے برطانوی سٹریٹجک مفادات کو برابر ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اب اصل حقیقت یہ ہے کہ امیر ممالک اپنے وسائل بڑھانے کے لیے پاکستان سمیت تیسری دنیا کے وسائل ہڑپ کرتے ہیں اس چمکدار کاروبار میں دراصل تین اہم مرکزی کردارہیں۔ غریب ممالک کے حکمران طبقات میں برطانیہ اور امریکہ کی بھرپور پشت پناہی سے متعین شدہ اہلکار اور پھر بین الاقوامی مالیاتی ادارے ان ممالک کے ایجنٹ حکومتوں میں شامل کروا دیئے جاتے ہیں جس کی کھلی مثال پاکستان میں اب دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ سلسلہ محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے علاوہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں اپنے عروج پر رہا ہے۔ کن طاقتوں نے خفیہ ہاتھوں کے ذریعے پاکستاان میں کن لوگوں کو برسراقتدار لانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ سارا کچھ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس موضوع پر مغرب میں بے شمار کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ یہ حکمران یقینا اپنا اقتدار برقرار رکھنے کی غرض سے مغربی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اقتدار میں رہنے کے لیے مغربی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کئے جاتے ہیں۔ قدرتی وسائل کو لوٹا جاتا ہے اور پھر لوٹی ہوئی قومی دولت ملک سے باہر منتقل کردی جاتی ہے۔
مقبوضہ ہندوستان میں انگریز نے اپنے نو آبادیاتی نظام میں پچاس ملین پائونڈ سالانہ برطانیہ بھیج کر اپنی معیشت کو مضبوط بنایا تھا۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ پاکستان کے بدعنوان حکمرانوں نے قومی دولت لوٹ کر برطانیہ منتقل کر رکھی ہے۔ اب برطانوی حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ پاکستان اور برطانیہ کے عوام کی طرف دیکھیں اب دونوں ممالک کے درمیان خونی تلخی پیدا ہو رہی ہے۔ پاکستان کے عوام سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہورہا ہے اور ان معصوم عوام کو پھانسی کی سزا دی جا رہی ہے۔ پاکستان کی لوٹی ہوئی قومی دولت برطانیہ میں محفوظ ہے اور بدعنوان حکمران برطانیہ میں آ کر آباد ہو جاتے ہیں۔ برطانیہ ان بدعنوان حکمرانوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کی شکل اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو پھر پاکستان میں برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی کمپنیاں اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان میں کس طرح اپنا کاروبار کر پائیں گے؟ برطانیہ میں آباد پاکستانیوں کی نسلیں اس پورے عمل کو دیکھ رہی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ برطانیہ اور پاکستان کے عوام مل کر معاشی اور معاشرے کی خوش حالی کے لیے مل کر کام کریں۔ یہ تب ہی ممکن ہو گاجب برطانوی حکومت اپنا طرز عمل بدلے گی اور پاکستان کا لوٹا ہوا سرمایہ پاکستان کو واپس لوٹانے کا طریقہ کار وضع کرے گی اور بدعنوان حکمرانوں کی پشت پناہی بند کرے گی۔
ماضی میں سرے محل سے شروع ہونے والا لوٹ مار کا کاروبار اب لندن میں ایون فیلڈ فلیٹس تک آن پہنچا ہے۔ یہ سب پاکستان کے بدعنوان حکمرانوں کی سیاہ کاریوں کا کیا دھرا ہے جو لوگ پاکستان اور برطانیہ میں ان بدعنوان حکمرانوں کو زیرک سیاستدان ہونے کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں وہ کم از کم پاکستان کے عوام کی حالت زار پر بھی نظر ڈال لیں۔