سینٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا یہ سب کچھ پوری قوم نے دیکھا، اسلام آباد کی جنرل سیٹ پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی جیت اور پی ٹی آئی کے حفیظ شیخ کی ہار یہ نہ کسی کی جیت ہے اور نہ کسی کی ہار ہے۔ یہ دراصل پاکستان کے اس نظام کی شکست ہے جو کہ موجودہ جمہوریت میں چل رہا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو کہ پاکستان کے ان زیرک سیاستدانوں کو بھر پور مواقع فراہم کر رہا ہے کہ مل کر قومی خزانہ لوٹو اور پھر اپنی خاندانی تجوریوں کو چار چاند لگائو۔ چند خاندانوں کا قومی دولت پر قبضہ ہے پورا ملکی نظام ان خاندانوں کے تابع ہے بالکل درست کہا گیا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے یہ انتقام پوری قوم سے لیا جا رہا ہے چونکہ قوم ہجوم بن چکی ہے تبھی تو یہ ہجوم کہتا ہے کہ" زرداری سب پر بھاری "اور پھر" میاں دے نعرے وجن گے"یہ ہے ہماری جمہوریت کی اصل کہانی۔ یقینا وزیر اعظم عمران خان ہائوس آف زرداری اور ہائوس آف شریف سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ ذاتی طور پر ایماندار ہیں کرپشن سے پاک ہیں مگر اب یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ عمران خان کے اردگرد بھی کرپٹ مافیا اپنے قدم جما چکا ہے۔ 35/30 سال پاکستان میں ہائوس آف زرداری اور ہائوس آف شریف اقتدار پر قابض رہے ہیں جبکہ سندھ میں ابھی بھی زرداری مافیا کا بھر پور قبضہ ہے دیکھ لیں کہ برابر شرجیل میمن سندھ اسمبلی کا حصہ ہیں، ڈاکٹر عاصم کے مقدمات کا کیا ہوا؟ اور پھر ذرا پنجاب میں دیکھ لیں میاں نواز شریف سزا یافتہ ہو کر بھی لندن چلے گئے، مریم نواز ضمانت پر، حمزہ شہباز ضمانت پر، میاں شہباز شریف حراست میں ہونے کے باوجود سیاسی ملاقاتیں کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہونے کے باوجود پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پورے نظام تلپٹ کئے ہوئے ہیں یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ ہمارے اس جمہوری نظام ہی کا نتیجہ ہے۔ کیا احتسابی عمل اس نظام کے ہوتے ہوئے کامیاب ہو گا، ہرگز نہیں۔ کیا لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لائی گئی؟ کیا کسی کو واقعی قرار واقعی سزا ہوئی؟ بالکل بھی نہیں۔ نظام ہی ایسا ہے یہ نظام خود کرپشن کا سہولت کار نظام ہے۔ ذرا اندازہ کریں کہ صدر مملکت اور وزیر اعظم سے بھی بڑا کوئی عہدہ ہوتا ہے، دیکھ لیں کہ صدر مملکت کے عہدے پر رہنے والے آصف علی زرداری دوبارہ قومی اسمبلی میں موجود ہیں، ان یک صحت جواب دے رہی ہے مگر پھر بھی اپنے ولی عہد بلاول زرداری کو برابر قومی اسمبلی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں تاکہ مستقبل میں بلاول اس ملک کا وزیر اعظم بنے۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم رہے، لیکن دوبارہ سینٹ کا ممبر بن کر چیئرمین سینٹ بننا چاہ رہے ہیں۔ اسی طرح کی صورت حال راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی کی بھی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں یقینا سابق وزرائے اعظم دوبارہ پارلیمنٹ کا حصہ بنتے ہیں مگر وہ ملکی اور عالمی سطح پر فلاحی کاموں میں اپنا عملی کردار ادا کرتے ہیں اور پھر پارلیمنٹ میں بڑے احترام کے ساتھ بیک بنچوں پر بیٹھتے ہیں دوبارہ وزیر اعظم بننے کے لئے نہ تو جوڑ توڑ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی لابی کا حصہ بنتے ہیں۔ لوگ ان کا پورا احترام کرتے ہیں ان کی عزت کی جاتی ہے کسی حد تک ملکی امور کے بارے میں قومی میڈیا پر نمودار ہوتے ہیں۔
پاکستان جیسا غریب ملک اپنے عوامی نمائندوں پر کس قدر بھاری قومی سرمایہ خرچ کرتا ہے، ذرا اس کی تفصیل وزارت خزانہ کے ریکارڈ سے حاصل کر کے دیکھ لیں۔ سینٹ آف پاکستان، قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسمبلیاں ان پر قومی خزانے سے جتنا قومی سرمایہ خرچ ہوتا ہے کیا اس عمل سے پاکستان مستحکم ہوا ہے؟ کیا قومی معیشت مضبوط بنانے میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟ کیا قومی مسائل کے حل کے لئے کوئی قانون سازی ہوئی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ ان عوامی نمائندوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے قبضہ مافیا کو فروغ دیا، اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا، اپنی خاندانی دولت میں اضافہ کیا اور پھر اپنی نسلوں کو بھی سیاست میں لانے کے لئے سر گرم عمل کیا۔ ذرا دیکھ لیں چند خاندان۔ ہائوس آف زرداری، ہائوس آف شریف، ہائوس آف مولانا مفتی، ہائوس آف ولی خان اس کے علاوہ بے شمار امیر زمیندار اور وڈیرے ان خاندانوں نے تمام سیاسی پارٹیوں میں اپنی جڑیں مضبوط بنا رکھی ہیں۔ ہر آنے والی پارلیمنٹ میں یہ مخصوص خاندان ہی ہوتے ہیں۔ ان کی جڑیں بیوروکریسی میں بھی ہوتی ہیں جو کہ اس نظام کو چلاتے ہیں۔ ایف بی آر، ایف آئی اے پولیس فورس عدلیہ کون سا ایسا ادارہ ہے کہ جس جگہ ان کا اثرورسوخ نہ ہو۔ تمام ملکی ادارے ان ہی کے تابع ہیں۔
جب تک موجودہ نظام اور موجودہ جمہوریت کا خاتمہ نہیں ہو گا ہمیشہ قومی خزانہ لوٹا جاتا رہے گا۔ کوئی ان نام نہاد زیرک سیاستدانوں کا نہ تو احتساب کر پائے گا اور نہ ہی لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لائی جا سکے گی۔ بے شک عمران خان اس وقت اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ناکام ہوئے ہیں یا ناکام کر دیے گئے ہیں لیکن پھر بھی یہ عمران خان سابقہ حکمرانوں کی نسبت بہترین انتخاب ہے۔ اکیلا عمران خان کیا کر سکتا ہے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ عمران خان اب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک اس وقت معاشی دہشت گردی کا شکار ہے۔ ریاستی وسائل کا ناجائز استعمال قتل نہیں قتل عام ہے۔ یہ سب کچھ اسی نظام کے ثمرات ہیں جس کی بدولت عمران خان کو بھی ناکام بنانے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں۔ جو لوگ اب بھی آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو زیرک سیاستدان کہتے ہیں۔ وہ Raymond w baker کی شہرہ آفاق کتاب Capitalism، s Achilles Heelکا مطالعہ کر لیں یہ کتاب انٹرنیٹ پر موجودہے۔ اگر پھر بھی کسی کی تسلی نہ ہو تو پھر برطانوی اور امریکی اخبارات کے وہ تمام تراشے راقم کے پاس موجود ہیں جن میں دونوں خاندانوں کے "مالیاتی معرکوں " کی داستانیں موجود ہیں۔ اگر کسی کو ان تراشوں میں دلچسپی ہو تو رابطہ کرنے پر تمام معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں، پاکستان کے موجودہ حالات کا حل نہ تو مڈٹرم الیکشن میں نہ ہی آئندہ جنرل الیکشن۔ پہلے پورا نظام بدلیں اور پھر حقیقی عوامی نمائندوں کا انتخاب کیا جانا چاہیے اس پورے عمل میں عمران خان کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔