سب کچھ اچھا نہیں ہے، معیشت، سیاست، صحافت، انصاف اور اخلاقیات ان سب کا جنازہ نکل چکا ہے، اب سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکل چکی۔ حکومت مخالف اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑی، آصف علی زرداری، میاں نوازشریف اور پھر مولانا فضل الرحمن نے مل کر جو کھیل کھیلا، اس کھیل میں بلاول زرداری اور مریم نوازشریف نے جو کردار ادا کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ لوٹی ہوئی قومی دولت کو بچانا اور آئندہ اقتدار کے ایوانوں میں اپنی جگہ بنانا پوزیشن اتحاد کا کھیلا ایجنڈا تھا۔ غیر ملکی خفیہ طاقتوں نے بھرپور انداز میں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں پاکستان کے اندراپنے مہرے استعمال کئے۔ بھارتی میڈیا نے دن رات میاں نوازشریف کے فوج مخالف بیانات کو ٹاپ سٹوری کے طور پر پیش کیا جبکہ لندن میں آل شریف کی ملاقاتیں اور پھر پاکستان میں اپنے پارٹی رہنمائوں کو حکومت مخالف حکمت عملی کو تیز کرنے کی ہدایات بھی مسلسل جاری رہیں۔ ذرا اندازہ کریں کہ وزیراعظم کے عہدے پر رہنے والے شاہد خاقان عباسی کی زبان جو وہ حکومت اور قومی اداروں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ کسی طرح سے بھی سیاست میں شائستگی تصور کی جائے گی؟ یہ ہی حال مریم نواز شریف اور مریم اورنگزیب کا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے پرائم ٹائم ٹاک شوز میں سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کرتے ہیں کیا یہ مہذب معاشرے میں زیب دیتا ہے؟ کیا اب بھی اخلاقیات نام کی چیز باقی بچی ہے۔ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے نہ تو پارلیمنٹ کا فلور استعمال کیا جاتا ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم نے اپنیتحریک میں ان مسائل کو حل کرنے کا کوئی ایجنڈا ہی دیا۔ محض اپنے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پارلیمنٹ کا فلور استعمال اورپی ڈی ایم کے جلسے ہوئے۔ یہ المیہ ہے پاکستانی سیاست کا، یہاں خاندانی سیاست کی گرفت مضبوط ہے۔ سابقہ دونوں حکمران جماعتوں میں انتہائی ذہین اور باصلاحیت سیاسی رہنمائوں کی کمی نہیں لیکن افسوس کہ جب یہ رہنما موروثی سیاست کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور بلاول زرداری اور مریم نواز شریف کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ لوٹی گئی قومی دولت کی کھلی نشانیاں ہیں۔ بیرون ملک ان کے اثاثے اور جائیدادیں پوری قوم کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ کسی کی جرأت کہ وہ پوچھ سکے کہ یہ اثاثے اور جائیدادیں کس طرح بنائی گئیں؟ قومی دولت باہر کس طرح لے جائی گی؟ تمام قومی ادارے اور عدالتی نظام مافیاز کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قومی اداروں، عدالتی نظام اور انتخابی اصلاحات کے لیے حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات ہونے چاہئیں، ایک میز پر حکومت اور اپوزیشن کو مل کر حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔
پارلیمنٹ میں مشترکہ قانون سازی کے لیے فضا ساز گار ہونی چاہیے لیکن یہ کس طرح ممکن ہو کہ میاں شہباز شریف، آصف علی زرداری جوکہ کرپشن الزامات کی زد میں ہیں۔ وہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر اصلاحات اور قانون سازی کے لیے حکمت عملی طے کریں۔ یاد رکھئے کہ جس دن عمران خان نے میاں شہبازشریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ انتخابی اصلاحات، قومی امور اور نظام کی بہتری کے لیے ہاتھ ملایا تو اسی روز عمران خان کی سیاست دم توڑ دے گی۔ عمران خان نے ایک طویل جدوجہد محض اس بنا پر کی کہ وہ پاکستان میں ہر سطح پر کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں دیانت دار اور قومی خزانے کے محافظ عوامی نمائندے موجود ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی مفادات کو ترجیح دیں۔ موروثی سیاست سے باہر نکلیں اور اپنا قومی کردار ادا کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر اصلاحاتی عمل کا حصہ بنیں اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ہنگامی بنیادوں میں قانون سازی کرنے کے لیے باہمی اختلافات کو ترک کریں۔ یہ وقت احتجاجی اور مزاحمتی سیاست کا نہیں بلکہ قومی سیاست کے دھارے کو یکسر بدلنے کا ہے۔ جس میں کرپشن فری پاکستان اور خاندانی اجارہ داریوں کا خاتمہ ہو۔ ماضی میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی خاندان نقل مکانی کر کے سمندر پار جا کر آباد ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اس نقل مکانی کی اصل وجہ پاکستان میں کرپشن کا ناسور اور ناانصافی، بے روزگاری اور پھر میرٹ کا نہ ہونا ہے۔ چند مخصوص خاندان جو کہ ہر دور میں اقتدار پر قابض ہوتے ہیں وہ سیاسی بنیادوں پر بیرون ملک جاتے ہیں۔ جائیدادیں اور اثاثے بناتے ہیں۔
یہ سب کچھ اب ایک مضبوط مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے جوکہ قومی اداروں کو مکمل طور پر نکارہ کرنا چاہتا ہے۔ قومی ادارے ان چند خاندانوں کی تابع داری کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ لندن میں میاں نوازشریف اور اسحاق ڈار قومی اداروں سمیت عسکری اداروں کے اعلیٰ افسران کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ میڈیا ان کو بھرپور کوریج دیتا ہے۔ پاکستانی میڈیا دن رات لندن میں ان کی سرگرمیوں کو دکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں بے گناہ ثابت کرنے کی بھی کوششیں کرتا ہے۔ چند صحافی حضرات اعلی ٰعدالتوں میں یہ درخواست بھی لے کر چلے گئے کہ مجرم اور اشتہاری میاں نوازشریف کو پاکستان میں لائیو دکھانے اور ان کی خبروں کو اخبارات کی زینت بنانے پر کوئی پابندی نہ ہو۔ ویسے تو پاکستان میں میڈیا کرپشن کے الزامات میں ملوث میاں شہبازشریف اور خورشید شاہ کو بھی برابر کوریج دیتا ہے۔ عدالتوں میں حاضری کے وقت میڈیا سے گفتگو اور پھر پارلیمنٹ میں پروڈکشن آرڈر پر تشریف لاتے ہیں۔ یہ رہنما پارلیمنٹ فلور کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ غیر معمولی طور پر سیاسی تبدیلیاں اب رونما ہوں گی۔ پی ٹی آئی کی حکومت اپنا آدھا سفر مکمل کر چکی ہے۔ دو اڑھائی سال کا عرصہ اب باقی رہ گیا ہے۔ یہ عرصہ وزیراعظم عمران خان کے لیے کڑے امتحان کا ہے۔ انہیں اپنی حکومتی کارکردگی کو ہر سطح پر بہتر بنانا ہوگا۔ عوام کو مہنگائی کے چنگل سے آزادی دلانی ہوگی۔ سیاسی مفاہمت کے راستے نکالنے ہوں گے، ان عوامی نمائندوں کے ساتھ مل کر، جو واقعی ایماندار اور دیانت دار ہیں جو پاکستان پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے علاوہ دیگر چھوٹی سیاسی پارٹیوں میں موجود ہیں اس کے ساتھ اب عسکری اداروں اور قومی اداروں کیخلاف بلاوجہ تنقید کو بھی بند کروانے کے لیے سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔