Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Civil Amriyat Ka Anjaam

Civil Amriyat Ka Anjaam

ماہ اگست مجیب خاندان کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا، مجیب کی بیٹی اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کو طلباء تحریک کے نتیجہ میں اقتدار چھوڑ کر بھاگنا پڑا، جب چار سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تو فوج نے انھیں الوداعی تقریر کے بغیر مستعفی ہونے پر مجبور کیا، عوام کا غصہ اور غضب دیکھ کر بے آبرو ہو کر کوچے سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا۔ یک طرفہ انتخابات کے ذریعہ اقتدار میں آنے والی حسینہ کا دفاع جعلی مینڈیٹ بھی نہ کرسکا اور عوام سڑکوں پر نکل آئی۔

ان کے والد گرامی کو بھی ایک فوجی انقلاب کے نتیجہ میں 15 اگست 1975کو خاندان سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، حالانکہ مسٹر یحییٰ سقوط ڈھاکہ سے ایک روز قبل انھیں ُاس وقت پھانسی دینا چاہتے تھے جب وہ میانوالی جیل میں ایک مقدمہ کا سامنا کر رہے تھے، کہا جاتا ہے کہ جیلر کی مزاحمت کے نتیجہ میں جنرل یحییٰ کے فیصلہ پر عمل درآمد نہ ہوسکا، جبکہ مجیب کے کمرے کے سامنے اس کی قبر کھود دی گئی، انڈیپنڈنٹ اردو کے مطابق شیخ مجیب اس احسان کو کبھی نہ بھول سکا، اس جیلر کو ڈھاکہ مدعو کیا گیا، مجیب نے اس کا استقبال ذاتی مہمان کے طور پر کیا، مگر چار سال کے بعد یہ "سعادت" بنگلہ فوج کے حصہ میں آئی، ایک مقبول ترین لیڈر اپنے ہی گھر میں خاندان سمیت گولیوں کا نشانہ بن گیا۔

سیاست، تاریخ، جغرافیہ، مذہب سے نابلد ہمارے نومولود لیڈر انھیں"ہیرو" قرار دے چکے ہیں حالانکہ مجیب انڈیا کے ہاتھ کٹ پتلی بنا رہا۔ تاہم تاریخ کا سبق یہ ہے، کہ مجیب جب برسراقتدار آئے تو وہ جمہوریت بھول بھال گئے جس کی آڑ میں وہ صوبائی خود مختیاری کا نعرہ لگاتے تھے، اخباری اطلاعات ہیں کہ انھوں نے فاشسٹ حکمران کا روپ دھار لیا تھا، پارلیمان میں کھڑے ہو کر کہا کہ تعلیم یافتہ بنگالی سب سے زیادہ بے ایمان ہے لہذا میں دوسرا انقلاب لارہا ہوں، اس نے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی، میڈیا کو کنٹرول کیا، غیر بنگالیوں کے قتل عام اور عزت آبروریزی پر مکتی باہنی کو عام معافی دے دی، اقتدار لینے کے بعد اپنی ذاتی سیکورٹی فورس کھڑی کردی، جس طرح ہمارے ہاں مسٹر بھٹو نے فیڈرل سیکورٹی فورس بنائی تھی۔

جتیا رکھی باہنی نامی فورس نے بنگلہ دیش میں ات مچادی مجیب کے بھتیجے شیخ فضل مانی خاندان سمیت قتل کر دیئے گئے اس کے غنڈوں نے ایک بارات پر حملہ کرکے دلہا اور دلہن کی کار پر قبضہ کیا، دولھا کو قتل کر دیا، دلہن کی آبروریزی کرکے لاش کھیت میں پھینک دی، فوج نے ملزمان کو گرفتار کیا مگر مجیب کے حکم پر رہا کردیا، یہ ذاتی فورس ریاست اور آئین کی بجائے مجیب کی وفادار تھی۔ مجیب کے ایک دست راز نے بنگالی میجر کی بیوی اور بیٹی کو بھی اغوا کیا تھا، وجہ یہ تھی کہ مکتی باہنی خود سر ہو گئے تھے اور حکومتی عہدوں پر برا جمان تھے، مجیب کے قاتلوں میں سے تین ایسے تھے جو بنگلہ دیش میں ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں، بانی بنگلہ دیش کے قتل پر آبزرور اخبار کے اداریہ کا آغاز اس فقرہ{the killing of Sheikh Mujeeb was a historical necessity}، اس کا فاشزم رویہ اس کے قتل کا سبب بنا۔

فوجی انقلاب سے بچ جانی والی حسینہ واجد کو اُس دور کی سیاسی قوتوں سے مشاورت کرکے اپنے والد کے قتل کے اسباب تلاش کرنا چاہے تھے اس نے دو ہاتھ آگے بڑھ کر آزادی میں شریک مکتی باہنی کے لئے قومی وسائل کے دورازے کھول دیئے، مگر سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کر دیا، عالمی معاہدہ کے باوجود پیرانہ سالی میں جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے نام نہاد ٹربیونل کی وساطت سے جماعت اسلامی کے قائدین کو پھانسیاں دیں، انکے اہل خانہ کو بنا کسی جرم کے پابند سلاسل رکھا، جماعت اسلامی کے دفاتر پندرہ سال تک تواتر سے بند رکھے، بی این پی کی قائد بھی زیر عتاب رہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم ہونے کے باوجود انھیں جیل میں رکھا گیا۔

تنگ آمد بجنگ آمد کے طور پر جب عوام کا پیمانہ لبریز ہوا، تو ایک تحریک بپا ہوئی، جسکی قیادت طلباء نے کی، اگرچہ طاقت کے زور پر اس کو روکنے کی کاوش کی گئی، مگر کرفیو تک کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انسانوں کا ایک طوفان امڈ آیا، اس صورت پر مسلح افواج نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے، تو حسینہ کو ملک چھوڑنا پڑا، جس میں اس نے اپنی سول آمریت قائم کررکھی تھی۔

تیسری دنیا کے حکمرانوں کی طرح حسینہ نے بھی قومی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کیونکہ عدلیہ اور دیگر ادارے اسکی پشت پر تھے جب پردہ اٹھے گا تو عقل دنگ رہ جائے گی، عوامی غم وغصہ کے پیچھے، معاشی، سماجی ناا نصافی اور ہندستان کی پالیسیاں بھی ہیں، جس سے عوام نالاں تھے، موروثی سیاست کے ماڈل اگرچہ دنیا میں پائے جاتے ہیں، لیکن سیاسی خاندانوں کا مزاج اگر آمرانہ ہو جائے تو وہ عوام کی طاقت کی تاب نہیں لا سکتے، یہی وجہ ہے کہ مجیب کے مجسمے کو بڑی بے دردری سے توڑتے دیکھا گیا، وہ منظر کربناک تھا جب اس کا سر کرین سے گرایا گیا نوجوانان کی تالیوں کی گونچ نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔

نسل نو بنگلہ تاریخ سے شناسا ہے۔ بنگلہ دیش میں یہ انقلاب عوام کے لئے جہاں اچھی نوید لایا ہے وہاں ہندوہتانی میڈیا کا واویلا یہ بتاتا کہ بنگلہ دیش جسے حسینہ نے اس کی کالونی بنائے رکھا وہ اس صورت حال سے باولا ہورہا ہے، جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہا، حالانکہ جماعت اسلامی بنگلہ قیادت نے تمام تر ظلم وستم کو تحمل، صبر سے برداشت کیا کسی بھی قسم کی لابنگ سے اجتناب کیا، انھیں اپنے صبر کا پھل ملا ہے، نئے حالات نے وہ سارے قفل کھول دیئے ہیں، انتقامی آگ میں جلنے والی حسینہ نے جولگائے تھے۔

جب جماعت اسلامی کے قائدین کو بنگلہ میں پھانسیاں دی جارہی تھیں ہماری سرکار نے بھی دانستہ چپ سادھ لی، اور روشن خیال طبقہ بھی شاد تھا، وہ البد اور الشمس گروہوں کے قیام کو حرف تنقید بناتا رہا جو اس وقت کے حالات کے تحت فوج کی مدد کے لئے رضا کار کے طور پر فریضہ انجام دیتے تھے، بنگلہ نوجوان آج بھی ایسے رضا کار ہونے پرفخریہ نعرے بلند کر رہا ہے۔

بعض طبقات طلباء پر الزام دھر رہے ہیں کہ انھوں نے سول آمریت کے بعد فوجی آمریت کی راہ ہموار کی ہے، قرائن بتاتے ہیں کہ طلباء قیادت اور اہل دانش ایسی حماقت نہیں کریں گے کہ اتنی قربانیوں کے بعد بھی وہ ایسی سرکار کو موقع دیں جو سول آمریت ہی کا تسلسل ہو، بنگلہ دیشی عوام کے انقلابی اقدام سے تیسری دنیا کے حکمرانوں کے لئے واضع پیغام ہے کہ جو حکمران بڑی طاقتوں کی خوشنودی کے لئے رعایا پر عرصہ حیات تنگ کرتے ہیں، ان کے وفادار بھی انھیں پناہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔