گڑھاموڑ ضلع وہاڑی کا اب بڑا تجارتی مرکز ہے، بنیادی طور اس کا رقبہ قریبی دیہاتوں سے منسوب ہے، اس کانام قیام پاکستان سے قبل گڑھا ٹہل سنگھ گاؤں سے وابستہ ہے، جس کا راستہ ملتان دہلی روڈ پراس مقام سے جاتا ہے، ابتدائی دور میں یہاں چند دوکانیں ہوتی تھیں، آبادی بھی سینکڑوں نفوس پر مشتمل، قرب و جوار میں دیہاتی آبادی کا یہی تجارتی مرکز اور آمدورفت کا ذریعہ بھی ہے۔ رضاکارانہ طور پر کھلنے والا واحد سکول بھٹو عہد میں سرکاری تحویل میں لیا گیا، اس کی اراضی بھی وہاں کی کھوکھر برادری نے دی، ہسپتال بھی انکی زمین میں قائم ہے جو ابتداء میں لوکل گورنمنٹ کی ڈسپنسری تھا۔
مذکورہ خاندان کے چشم و چراغ ملک خان محمد کھوکھر مرحوم پیپلز پارٹی کے عروج میں 1970 ایم پی اے منتخب ہوئے، سیاسی ابتری کی وجہ سے وہ بڑی خدمت انجام نہ دے سکے، تاہم سرکاری اداروں کے لئے عطا کردہ زمین کے لئے عوام انکی احسان مند ضرور ہے، اسی علاقہ سے میاں محمد زمان گجرمرحوم نے بھی ایم پی اے کا الیکشن آزاد حیثیت سے لڑا، اس سے قبل وہ کالج میں پروفیسر تھے، اب انکے بیٹے سابق نائب ناظم محمد عامر زمان گجر مقامی سیاست میں متحرک ہیں۔
گردونواح سے خریدداری کے لئے آئے کسانوں کی خواہش ہوتی کوئی بیٹھک نما ایسا مقام میسر آجائے جہاں مفید مشورے، حالات حاضرہ، اور مقامی خبریں بھی مل سکیں، راقم کے کزن محمد اکبر مرحوم جو گریجویٹ تھے انھوں نے میڈیکل سٹور قائم کیا وہ بتدریج چوپال کا درجہ پا گیا جہاں ا نکے احباب آتے، تعلیمی ادارے، شفاخانہ، لوکل گورنمنٹ، محکمہ ریونیو، محکمہ آبپاشی، مقامی سیاست، باہمی مشاورت سمیت بہت سے موضوعات زیر بحث رہتے گویا یہ محفل"غیر رسمی کلب" قرار پایا، جو لوگ تواتر سے آتے، ان میں چوہدری، ظفر اقبال جٹ، اکرم جمال دین، رزاق نمبر دار، محمد اکبر کھاد والے، ڈاکٹر انور، چوہدری منظور وڑائچ، چوہدری نذیر سندھو، سرور سندھو، محمداقبال نمبر دار، ملک اکرم کھوکھر، بھائی جی علی محمد شامل تھے، ان میں قابل ذکر، نفیس، صاحب مطالعہ شخصیت چوہدری محمد زیاد وڑائچ کی ہے، جہنیں بی بی سی کے نام سے پکارا جاتا تھا، ان کے پاس سیاسی اور غیر سیاسی سب خبریں ہوتیں، یہ محفل کی زینت بنتی، یہ نیوز کلب بھی تھا جہاں ہر فرد اخبار پڑھتا، بعض اساتذہ کرام جن میں اورنگ زیب وڑائچ، ہیڈ ماسٹر راؤ محمد حسین، چوہدری لطیف ارشد، محمد اشرف چدھڑ، شاہ محمد کوثر بھی آتے، وکلاء میں محمد اسلم سندھو، پروفیسر عبدالجبا ر، پروفیسر محمد حسین آزاد، سماجی شخصیت الطاف مترو، سیدمنظور شاہ صنعت کار بھی تشریف لاتے ملکی اداروں کی اصلاح احوال پر بھی بات ہوتی، گڑھاموڑ کی ترقی کا تذکرہ ہوتا، میلسی سے جماعت اسلامی کے رکن قومی اتحاد کے امیدوار قومی اسمبلی حاجی جمشید خاں مرحوم جب آتے تو محفل دیر تک جمتی حاضرین بڑے انہماک سے ان کی گفتگو سنتے۔
چوہدری محمد شفیع جمال جب ولایت سے آئے وہ بھی کلب کا حصہ بن گئے صاحب مطالعہ تھے، انگلینڈ میں سید مودوی سے متاثر ہوئے، جماعت اسلامی کے لئے نرم گوشہ رکھتے، میرے کزن کے ہم خیال تھے، انکی اراضی گڑھاموڑ کے نواح میں تھی، درد دل رکھتے، کچھ زمین سکول، دینی مدرسہ اور غلہ منڈی کو دی، بد قسمتی سے مارکیٹ کمیٹی میلسی مذکورہ منڈی کی ترقی کے لئے فعال کردار ادا نہ کرسکی، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مالکان جنہوں نے زمین خرید کر دوکانیں بنائیں وہ کھنڈر بن گئی، اس کا نقصان یہ ہوا، کہ گڑھا موڑ جہاں بنیادی سہولیات اب تلک ناپید ہیں، وہاں ایک دوکان کی قیمت لاہور کی ادنی مارکیٹ سے بھی زیادہ ہے۔
اس قصبہ کی سرکاری اراضی نہ ہونے کی وجہ سے فروٹ، سبزی منڈی بھی پرائیویٹ زمین میں ہے، یہی معاملہ قبرستان کا ہے، مستقبل میں ہسپتال میں بھی توسیعی نا ممکن ہے، عید گاہ کا کوئی وجود نہیں، خرید داری کے لئے آنیوالے سینکڑوں مردو خواتین کے لئے کوئی پبلک ٹوائلیٹ بھی نہیں ہے، ضلعی انتظامیہ نے اس کا کبھی نوٹس بھی نہیں لیا۔ جو سرکاری اراضی چراگاہ کی صورت میں ہے وہ قریبی دیہہ میں ہے، قریبی دیہات94سے تعلق رکھنے والے محترم پروفیسر عبدالجبار نے اپنی اراضی میں اپنے بیٹے کے نام سے منسوب انسانی خدمت کے لئے1122کا سنٹر بنوایا ہے۔
قصبہ کی آبادی تیس ہزار نفوس کے قریب ہے، مگر طالبات کے لئے کوئی کالج موجود نہیں ہے، بوائز کا ہائر سیکنڈری سکول دو ایکٹر سے کم رقبہ پر ہے قائم ہے تاہم اس کا چار ایکٹر رقبہ قریبی چک100/w. b میں گرلز سکول سے ملحقہ مختص ہے، قیاس ہے کہ ہائیر سیکنڈری سکول کالج کا درجہ پا جائے گا۔ اتنی بڑی آبادی کے لئے کھیل کا میدان نہ ہونے کی وجہ سرکاری اراضی کا نہ ہونا بھی ہے، خان محمد کھوکھر اور چوہدری شفیع جمال جیسے غنی افراددوبارہ جنم نہیں لے سکتے جو انسانی فلاح کے لئے زمین عطیہ کردیں۔
مسائل کی وجہ مقامی سیاسی قیادت کا فقدان بھی ہے، ستر کی دہائی کے بعد یہاں صوبائی سطح کی قیادت پنپ نہیں سکی ہے، عوام کو مسائل کے حل کے لیے روایتی سیاست دانوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے، دوسرا انتخابی نظام اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے، اس میدان میں اترنا جوا کھیلنے کے مترادف ہے، باوجود اس کے بہت سے شائستہ مقامی افراد صوبائی قیادت کی ذمہ داری ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مقامی حکومت میں بڑا نام چوہدری ظفر اقبال جٹ کا ہے، وہ چیرمین اور ناظم کی حیثیت سے فرائض منصبی انجام دے چکے وہ بھی"غیر رسمی کلب"کے ممبر رہے ہیں، قریبی دیہاتوں اور گڑھا موڑ کی ترقی میں انھوں نے اپنا فعال کردار ادا کیا، ماڈل چکوک کا قیام انکی وساطت سے ہوا، اپنے دیہات میں انھوں نے بنیادی مرکز صحت، دفتر زراعت، سپورٹس گراونڈ، سکول بنوائے بجلی مہیا کی اور سڑکیں پختہ کرائی ہیں، مختلف پارٹیوں سے منتخب نمایندگان نے اپنے اپنے سیاسی ادوار میں ترقیاتی کام بھی کروائے ہیں، تاہم شعبہ صحت، تعلیم، لائیو سٹاک، زراعت اور مواصلات، ہاوسنگ میں بھی بہت سے کاموں کی گنجائش ہے، اگر خیر پور ٹامیوالی براستہ میلسی، گڑھا موڑتا خانیوال سڑک کو کشادہ اورتعمیر کر دیا جائے تو ان شاہراہوں کو موٹر وے تک توسیعی دی جا سکتی ہے، خطہ کے عوام اس سے مستفید ہوں گے اور کاروباری سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا۔
گڑھاموڑ کی بے ڈھنگی آبادیاں سیوریج، پانی، صفائی، بجلی جیسے مسائل سے نبرد آزماء ہیں، کہا جاتا ہے یونین کونسل کو ٹاؤن کا درجہ دے گیا، مگر تا حال اس کے مثبت اثرات دیکھنے کو نہیں مل رہے، انتظامی طو ر پریونین کونسل کو فعال ٹاؤن کا سٹیٹس ملنا وقت کی آواز ہے، سرکار اگرمیٹرو ٹرین، موٹر ویز، بائی پاسز کی ضروریات کے لئے مالکان سے زمین خرید سکتی ہے تو اس ٹاؤن کی آبادی کی بنیادی ضرویات کے لئے زمین خریدنے میں کیا امر مانع ہے؟ تاکہ مقامی آبادی بھی ان تمام سہولیات سے مستفید ہو سکے جو بطور شہری کے انکا حق ہے غیر رسمی کلب کی مانند سول سوسائٹی کا متحرک ہونا لازم ہے، یا پھر مقامی سیاسی قیادت کو میدان میں اُتارنا پڑے گا، بہترین طرز زندگی کے لئے فیصلہ اب عوام کو کرناہے۔