Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Khalid Mahmood Faisal
  4. Hum Mar Jaate Hain

Hum Mar Jaate Hain

آئین پاکستان کا آرٹیکل 38 تمام شہریوں کو بلا امتیاز، رنگ، نسل، مذہب تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے مگر ملک میں 1300 افراد کے لئے صرف ایک ڈاکٹر دستیاب ہے، دوسری جانب ڈاکٹرز کی فوج ظفر موج بے روزگاری کی کرب ناک اذیت سے گزری رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ طب کی دنیا میں بڑے ڈاکٹرز کا راج ہے، سرمایہ دار اس شعبہ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جو کبھی شعبہ خدمت تھا۔ کچھ اتائی بھی اپنی آمدن کے اعتبار سے سپیشلسٹ ڈاکٹرز کو پیچھے چھوڑ گئے، یہی معاملہ ایل ایچ ویز کا بھی ہے، مستند لیڈی ڈاکٹرز انکی آمدنی کو رشک بھری نظروں سے دیکھتی ہیں، انکی دونوں کی دوکان داری دیہی اور مضافاتی علاقہ جات میں بھر پور چلتی ہے جہاں مستند معالج مقامی آبادی کو میسر بھی ہے تو عام مریض کی پہنچ سے دور ہے۔

اس عہد جدید میں بھی زچگی اور نومولود بچوں کی شرح اموات پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ شنید ہے کہ شعبہ صحت کے لئے جو بجٹ مختص کیا جاتا ہے وہ دنیا کی نسبت انتہائی کم ہے۔ صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ تنخواہوں کی ادائیگی بھی کی جاتی ہے، جس کی بدولت نجی شعبہ نے اس خلاء کو پر کرنے کی کاوش کی ہے اس کے متعلق عمومی رائے ہے کہ یہ مہنگا ترین علاج فراہم کرتا اور غیر منظم ہے۔

راقم کے قریبی عزیز اپنے بھانجے کے چیک آپ کے لئے نجی ہسپتال گئے تو معالج نے معائنہ کے بعد درجنوں ادویات پر مشتمل نسخہ دیا، نیز کچھ ٹسٹ بھی اس لیبارٹی سے کروانے کو کہا انکی زیر نگرانی پلازہ میں تھی۔ شومئی قسمت انکے پاس پیسے کم تھے انچارج لیب نے کچھ رقم ایڈوانس جمع کروانے کا کہا مگر موقع کو غنیمت جان کر وہاں سے چلے آئے۔ طب سے منسلک ایک دوست نے "نان کمرشل" فزیشن کا بتایا، جب انھیں چیک آپ کروایا تو انھوں نے محض ایک گولی لکھی اور شوگر کی تین ماہ کی ہسٹری کا ایک ٹسٹ لکھا مریض اسی سے صحت یاب ہوگیا۔

رائے یہ ہے کہ اس وقت اہم مسئلہ تشخیص کا ہے، حلقہ احباب میں سے کسی کے بھائی گردے کے عارضہ میں مبتلا تھے، انھیں سانس کی تکلیف ہوئی، سرکاری ہسپتال لے جایا گیا، انھوں نے کہا اسے دل کا عارضہ ہے، دل کے ہسپتال لے جائیں، وہاں پہنچے ابتدائی چیک آپ کے بعد لواحقین کو کہا کہ گردے کے ہسپتال لے جائیں، ملتان میں مذکورہ ہسپتالوں میں کم از کم بیس کلومیٹر کا فاصلہ ہے، مریض پر کیا گزری ہوگی، سوچ کر دل بیٹھ جاتا ہے، مریض ٹسٹ رپورٹ سے قبل ہی چل بسا۔

جس طرح نشتر ہسپتال ملتان میں ڈائیلاسز کے مریض عملہ کی غفلت سے نئی بیماری میں مبتلا ہوئے تھے، یہی"واردات" اندرونی سندھ میں بھی ڈالی گئی، وہاں بھی ڈائیلاسز کے مریض کے ساتھ یہی سلوک ہوا ہے۔ کراچی کے معروف نیفرالوجسٹ کا کہنا ہے، کہ ماہر ڈاکٹر کی عدم موجودگی میں احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، ٹیکنشن کی لاپرواہی کے نتیجہ میں بیماریاں دوسرے مریضوں کو منتقل ہوتی ہیں، جس میں بڑا حصہ خون کی ناقص انداز میں منتقلی ہے۔

ذاتی مریض کے ساتھ علاج کے لئے راقم کو ایک ٹرسٹی ہسپتال میں رکنا پڑا وہاں کے ڈاکٹرز اس ہسپتال کی لیبارٹی کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے اور باہر سے کسی لیبارٹی سے ٹسٹ کراونے کی ہدایت کرتے۔

ان دنوں نشتر ہسپتال ملتان کے ڈاکٹرز، پیرا میڈکل سٹاف بھی سراپا احتجاج ہیں، اسکی وجہ نشتر ٹو ہسپتال کا قیام ہے، کئی شعبہ جات نشتر ون سے یہاں منتقل کئے جارہے ہیں، جس سے مریض اور ڈاکٹرز ون اور ٹو نشتر ہسپتال کے مابین شٹل کاک بن کے رہ گئے، ان کا مطالبہ کہ نئے ٹیچنگ ہسپتال کا سارا سٹاف الگ رکھا، بجٹ علیحدہ مختص کیا جائے، کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے تمام شعبہ جات کا قیام لازم ہے۔

کہا جاتا ہے کہ عالمی سطح پر طبی سہولتوں کی فراہمی میں کسی قسم کی غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی جبکہ پاکستان میں یہ شعبہ بد انتظامی کا بھی شکار ہے، اگرچہ ہماری سرکار نے یو این او کے ساتھ طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے ملینیم چارٹر پر دستخط ثبت کئے ہیں، لیکن بڑی آبادی موذی امراض کا شکار ہے، بڑی وجہ صاف پانی کی عدم دستیابی اور ماحول کی آلودگی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے اینٹی بائیو ٹیک کے غیر ضروری استعمال سے ہلاکتوں پر اظہار تاسف کیا تھا تو پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ شعبہ نے فارمیسی سٹورز پر ایک پوسٹر آویزاں کرکے ذمہ داری پوری کردی، اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ دیہی اور مضافاتی علاقہ جات میں ڈاکٹر اور فارماسسٹ کی ہدایت پر ہی اینٹی بائیوٹک مریضوں کو دی جارہی ہے؟

اہم یہ کہ عوام الناس کو بیمار ہونے سے بچایا جائے، جامعات سے نیوٹڑنیشنسٹ اور فارماسسٹ کی بڑی کھیپ نکالی جارہی ہے، انھیں بنیادی مراکز صحت اور شفاخانوں میں تعینات کرنے سے نجانے کیوں گریز کیا جارہا ہے، عوامی سطح پر غذا کی آگاہی ادویات کے درست استعمال سے عوام کو صحت مند رکھا جانا لازمی اور وقت کی ضرورت ہے، اکیلا ڈاکٹر ساری راہنمائی نہیں دے سکتا۔

پرائیویٹ کالونیوں، محلہ جات میں پارک تک کی سہولت میسر نہیں ہوتی جہاں ہر عمر کے لوگ ورزش یا واک کر سکیں مالکان نما مافیاز جنہیں کالونی بنانے کی اجازت ان سہولتوں کی فراہمی سے مشروط دی جاتی ہے وہ متعلقہ محکمہ کے بابووں کی جیب گرم کرکے قبرستان کی جگہ تک فروخت کر دیتے ہیں۔ یہ مقامات صرف کپڑے کے نقشہ پر ملتے ہیں، بیرونی ممالک میں ورزش، واک اور سائیکل ٹریک کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے کہ بیماروں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی لائی جائے، صحت کی سہولیات سے مراد بجٹ مختص کرنا، شفاخانے بنانا، ڈاکٹر اور سٹاف کی تعیناتی کرنا نہیں ہوتا بلکہ اچھی صحت کو برقرار رکھنے کی ترغیب اور سہولیات دینا بھی ہے۔

غیر متوازن خوراک، ادویات کے غیر ضروری استعمال، پر ستائش زندگی کے چلن سے ہسپتالوں پر مریضوں کا دباؤ ہے، دیہی علاقہ جات میں بلڈ پریشر، شوگر، ذہنی دباؤ، قلب کے مریض پائے جاتے ہیں، جس کا تصور بھی محال تھا۔

سرکاری ہسپتالوں کی کمی نے نجی شعبہ کو آباد کیا ہے، سہولت کے ساتھ عوام کی جیپ پر ایک بڑا بوجھ بھی ہے جس سے مختلف مافیاز مستفید ہو رہے ہیں، ہسپتالوں پر دباؤ سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے عوام کو اچھی صحت سے متعلق آگاہی دی جائے جس کا راستہ صاف پانی، متوازن غذا ور صحت مند صاف ماحول سے ہو کر گزرتا ہے، اسکی فراہمی آئینی طور سرکار ہی کی ذمہ داری ہے، ورنہ مہنگا طریقہ علاج اور طبیبوں کے رویئے دیکھ کر ہر مریضیہ کہنے پر مجبور ہے، بقول امیر مینائی۔

ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے۔