Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Khalid Mahmood Faisal
  4. Jail Islahat, Chief Justice Se Tawaquat

Jail Islahat, Chief Justice Se Tawaquat

حالات کے ستائے نوجوان جس طرح اپنی ماں جیسی ریاست کو اپنے روشن مستقبل کے لئے دریار غیر بسنے کو ترجیح دے رہے ہیں، اس برین ڈرین سے ماہرین کی کمی کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے، ہمارا گمان ہے کہ جیلوں میں پابند سلاسل قیدیوں کو آزادانہ رائے دینے کا حق اگر دیا جائے، تو انکی غالب اکثریت بھی ناروے کی ہالڈن جیل کا انتخاب کرنے اور وہاں قید ہونے میں عافیت محسوس کریں گی۔

کہاجاتا ہے کہ یہ جیل کسی یونیورسٹی کا کیمپس دکھائی دیتی ہے، اسکاطرز تعمیر ایسا رکھا گیا ہے کہ قیدیوں پرنفسیاتی دباؤ کم سے کم ہو، وہ اردگرد کے قدرتی ماحول سے ہم آہنگ ہو سکیں، اسکی دیوار پر کوئی خار دار تار اور بجلی کی باڑ نظر نہیں آتی، یہاں ہر قیدی کا اپنا سیل ہے، جس میں ٹوائلٹ، شاور، فرج، ڈیسک، فلیٹ ٹی وی ہے، کامن روم میں دبیز صوفے، سازو سامان سے لدا کچن بھی ہے، ناروے میں کسی انسان کی آزادی چھن جانے ہی کو بڑی سزا سمجھا جاتا ہے مگراسکے باقی حقوق بر قرار رہتے ہیں، قیدی ووٹ ڈال سکتا ہے، سکول اور صحت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، یہ سہولیات اس کو اس لئے فراہم کی گئی ہیں تاکہ انھیں احسا س دلایا جائے کہ یہاں سے نکلنے کے بعد انھیں ذمہ دار شہری کے طور پر زندگی گزارنا ہے۔

انھیں فن سے آراستہ کرنے کے لئے ورکشاپ بنائی گئی ہے، جس میں مختلف کورسز کے بعد ڈپلومہ حاصل کرتے ہیں، نیز ہر تین ماہ بعد وہ قیدی جس کے بچے ہوں وہ "ڈیڈی ان پرزن"نامی سکیم سے فائدہ اٹھا سکتا ہے چند حفاظتی ٹیسٹ پاس کرکے وہ شریک حیات اور اپنے بچوں کے ساتھ جیل کے میدان میں قائم لکڑی کے ایک آرام دہ گھر میں دو تین راتیں گذار سکتا ہے۔ نارویجین سرکار سمجھتی ہے کہ قیدی کو محض پنجرے میں بند رکھنے سے وہ اچھا شہری نہیں بن سکتا۔

جیل اصلاحات کے لئے نارویجین ماڈل بہترین قرار دیا جارہا ہے کیونکہ یورپی ممالک میں سب سے کم افراد ناروے میں قید کئے جاتے ہیں۔ قید میں انھیں طلباء کے طور پر ڈیل کیا جاتا ہے، قانون، اخلاقیات، علم جرائم، معاشرہ میں وآپسی اور سماجی خدمات کے لئے انھیں تعلیم دی جاتی ہے اور ایک سال کی تربیت کے بعد اس امید پے آزاد کیا جاتا ہے کہ وہ معاشرہ کے ذمہ دار فرد کے طور پر کام کریں گے، اس سے یہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ اس قبل ناورے میں قیدیوں پر تشدد نہیں ہوتا تھا، مگر جیل اصلاحات کے نتیجہ میں قیدیوں کو احساس محرومی سے نکالنے کے لئے نہ صرف تشدد کا خاتمہ کیا گیا، بلکہ قیدیوں کے لئے یوگا کلاسز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، کرسمس کنسرٹ کے انعقاد اور اپنی پسند کے کھانے بنانے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے، جیل حکام کے ان رویوں کی بدولت قیدیوں میں انتقامی جذبہ پیدا نہیں ہوتا نہ وہ دوبارہ جرم کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں، ناروے میں یہ شرح سب سے کم ہے۔

تاج برطانیہ کے عہد سے بدنام زمانہ جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ سلوک کا وہی ماینڈ سیٹ ہمارے جیلرز میں پایا جاتا ہے جو دور غلامی میں تھا، ہر سرکار نے جیل اصلاحات پر صرف کمیٹیاں بنانے کا تکلف ہی کیا ہے، ہر نئی کمیٹی نے نئے سرے سے کام شروع کرکے صرف وقت کا ضیاع کیا ہے، اسکی شہادت نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس، نیشنل اکیڈیمی آف پریزن ایڈمنسٹریشن اور جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ سے عیاں ہے، اس کے مطابق کم و پیش ایک لاکھ سے زائد قیدی ملک بھر کی جیلوں میں ہیں، گنجائش سے زائد قیدیوں کو جیل میں رکھنا ہی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ایک سیل جس کا سائز 5*8 ہوتا ہے اس میں چھ افراد کو رکھا جاتا ہے، کچھ سیل صرف تین افراد کے لئے بنائے گئے مگر ان میں پندرہ قیدی زبردستی بند کئے جاتے ہیں، اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قیدی شفٹوں میں سونے پر مجبور ہوتے ہیں۔

قیدیوں کی زائد تعداد کی شرح پنجاب میں 173فیصد، سندھ 161فیصد، خیبر پختون خواہ 102، بلوچستان 115 فیصد ہے، ان قیدیوں کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں معیاری کھانا، ناقص پانی، صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی، غیر ضروری مشقت، قانونی مشاورت تک عدم رسائی، حصول انصاف کے لئے طویل انتظار، خاندان کے ساتھ محدود روابط، شکایات کی شنوائی کا غیر موثر نظام شامل ہے۔

وہ سیاسی راہنماء جنہیںِ خود سیاسی قیدی کے طور پر جیل کی یاترا کے لئے جانا پڑا ہے، انھوں نے بھی ان بااثر قیدیوں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے جیل میں اپنی ہی ریاست بنائی ہوتی ہے، وہاں بھی وہی قیدی ہمیشہ زیر عتاب رہتا ہے، جسکی شنوائی جیلرز تک نہیں ہوتی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2023 کے بعد جیل میں قیدیوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ پنجاب میں نئی جیلیں تعمیر کی گئی ہیں پھر گنجائش سے زائد قیدی اذیت ناک زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

قیدیو ں کے ساتھ ناروا سلوک اور جیل اصلاحات کے لئے ہر سرکا ر کے دور میں کمیٹیاں نشستن، گفتند، برخاستند تک محدود رہی ہیں، جیلوں میں قیدیوں کو ریلیف دینے کے لئے تجویز کیا گیا تھا کہ وہ قیدی جن کی سزا تین سال سے کم ہے انھیں پے رول پر رہائی دی جائی، جو معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث ہیں انھیں پروبیشن پریڈ کی محدود مدت کے لئے سماج کے ذمہ داران حوالہ کیا جائے، جو قید کے دوران کسی فن اور تعلیم سے آراستہ ہو چکے ہیں، انھیں شخصی ضمانت پر پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمت دلوائی جائے تاکہ وہ ذمہ دار شہری کے طور پر نئی زندگی کا آغاز کرسکیں۔

سنٹرل جیل کراچی میں الخدمت فاونڈیشن پاکستان نے قیدیوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینے کاآغاز کیا ہے، جس کے بڑے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں، اس پروگرام کو دیگر جیلوں تک وسعت دینے کی ضرورت ہے تربیت یافتہ قیدیوں کی بحالی کا مربوط پرگرام سرکار مرتب کرے، آج کے ڈیجیٹل عہد میں یہ اہتمام بھی کیا جائے کہ قیدیوں کی اہل خانہ سے آن ملاقات کروا کر انکی تنہائی کو کم کیا جائے۔

پنجاب حکومت نے چیمپن ٹرافی کے پاک بھارت کرکٹ میچ کو جیل میں دکھانے کا اہتمام کرکے نئی اور اچھی روایت کو جنم دیا ہے، میچ کے دوران کے جیل میں بند بچوں کی خوشی کے مناظر ٹی وی سکرین سے عیاں تھے، ناورے میں جیل اصلاحات کی علمی شکل یہ ظاہر کرتی ہے کہ نفرت جرم سے ہے مجرم سے نہیں۔

جیلوں میں اب بھی جرائم کی باز گشت سنائی دیتی ہے، تو پھرجیل اصلاحات کی ذمہ داری کون ادا کرے گا؟ معزز چیف جسٹس بھی ان دنوں ریفارمز پالیسی کے تحت جیلوں کے دورہ پر ہیں، چیف جسٹس فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنا دیں تو66 فیصد قیدی جو ٹرائل پر ہیں انھیں رہائی مل سکتی ہے۔