حلقہ احباب میں سے ایک معتبر نام محترم حاجی نواز ودھن کا بھی ہے، ان کا تعلق ہمارے گاؤں چک نمبر190 ا ڈبلیو بی وہاڑی ا ور برادری سے ہے، ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت سے پہلے سید مودودی کی جس کتاب کا مطالعہ کیا تھا وہ "خلافت و ملوکیت" تھی، موصوف طویل عرصہ سعودی عرب مقیم رہے، جماعت اسلامی سے ان کا تعارف وہیں ہوا، جماعت اسلامی کے انتہائی مخلص افراد میں ان کا شمار ہوتا ہے، انھوں نے، دامے، درمے، قدمے، سخنے ہمیشہ جماعت اسلامی کے لئے ایثار بھی کیا ہے۔
محترم قاضی حسین احمد مرحوم جب دوسری مرتبہ سنیٹربنے تو انکا دورہ غالباً وہاڑی کا تھا، وہ ملتان سے بذریعہ روڈ جارہے، حاجی نواز صاحب نے ان کا مختصرخطاب گڑھاموڑ رکھوا لیا، اورراقم کے علاوہ بڑے بھائی ڈاکٹر جاوید اصغر کو بھی مدعو کر لیا، قاضی صاحب نے مجھے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ آپ دونوں ہم شکل لگتے ہیں، کیا جڑواں بھائی ہیں، میں نے کہا جی ہاں، برادر ڈاکٹر جاوید اصغر نے بھی ان سے مصافحہ کیاپھرمزید سوالات کئے، میرا ان سے یہ پہلا تعارف تھا۔
ملک بھر کی سیاسی قیادتیں، صحافتی حلقے معترف ہیں کہ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی پاکستان کو ایک نئی جہت دی، انکی مقبولیت کا آغاز"کاروان دعوت محبت"سے ہوا، جس میں انھوں نے ملک بھر کے دورے کئے، اس عہد میں "ظالمو قاضی آرہا ہے" نعرہ زدعام ہوا، پاکستانی سیاست میں یہ منفرد تجربہ تھا، وہ اتحاد امت کے داعی تھے، انھوں نے سرکاری سطح پر1990 میں یوم یک جہتی کشمیر منانے کی تجویز دی، جسے سرکار نے مان لیا، مولانا شاہ احمد نورانی سے ان کے قلبی اورخصوصی تعلقات تھے۔
قاضی حسین احمد نے اپنی کتاب"اسلام مسلمان اور پاکستان" میں رقم کیا ہے کہ نبیﷺ مہربان کے طریقہ کے مطابق انسانوں کو اللہ کی طرف بلانا، انھیں منظم کرنا انکی تربیت کرکے معاشرہ کی اصلاح میں لگانا، 1941 میں جماعت اسلامی کا قیام اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے عمل میں لایا گیا، اسکی قیادت نے اب تلک ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اتحاد امت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اسلامی آئین کی دستوری مہم میں سید ابواعلیٰ مودودی نے کلیدی کردار ادا کیا، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے1949 میں قرار داد مقاصد منظور کرلی، یہ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا کے باہمی مشورہ سے مرتب ہوئی پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اسمبلی میں اسے پیش کیا۔ وہ لکھتے ہیں، جماعت اسلامی پر ایک اعترض ہے کہ اس کے لوگ صحابہ اکرامؓ کو معیار حق نہیں مانتے، حقیت یہ ہے کسی کا کوئی فعل یا قول اللہ اس کے رسول ﷺکی تعلیمات پر پرکھا جائے گا، قرآن وسنت کے معیار پر جو پورا اترے گا وہی حق ہے، جماعت کے دستور میں ہم یہ کہتے ہیں کہ معیار حق صرف اللہ اور اسکے رسولﷺ ہیں۔
محترم ڈاکٹر فرید پراچہ اپنی کتاب"میرے راہنما میرے ہمنوا" میں لکھتے ہیں کہ قاضی محترم سمجھتے تھے کہ دینی جماعتوں کو اکھٹا ہونا چاہئے۔ ورنہ فرقہ واریت کی آڑ میں یہاں اسلامی نظام اور جہاد کو متنازع بنا کر پاکستان کو ناکام ریاست اور غیر محفوظ ملک ثابت کرکے اس کے ایٹمی اثاثہ جات کو عالمی اداروں کی تحویل میں دینے اور آئین پاکستان کی اسلامی حیثیت ختم کرانے کے عالمی ایجنڈا کو تقویت ملے گی، اس خدشہ کو بھانپتے ہوئے اسلام آباد میں اتحاد امت کی کامیاب عالمی کانفرنس کاانعقاد کیا۔
قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم نرسیماراؤ نے کہا تھا کہ پاکستان کے اسلامی نظریہ نے ہمارے15کروڑ مسلمانوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اگر یہ ملک سیکولر بن جائے تو ہمیں اس کے وجود پر اعتراض نہیں، مگر قوم کو اسلام سے دور کرنے کی سازش کی جارہی ہے، سیکولر اور لادین قیادت اس کو اکھٹا رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ 65اور71 کی جنگوں افغان حکومت سے اختلافات کے باوجود ظاہر شاہ نے کہا ہمارے بارڈر سے فوجیں اٹھا لے جائیں، ہماری طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا، جنرل مشرف نے کابل میں دوست حکومت ختم کرکے مخالف سرکار قائم کی، جلال آباد میں زیر تعلیم کچھ طلبا میرے پاس آئے کہا کہ دن رات افغان میڈیا سے یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ افغانوں کا ایک ہی دشمن ہے وہ پاکستان ہے۔ انڈیا کی یہ غیر ضروری مداخلت کا یہی نتیجہ ہے۔
بجٹ پررائے دی کہ وہی بہترین ہوتا ہے کہ جس سے ملک کی اکثریت، غریب، مزدور، کسان اور محروم طبقہ خوش اور مطمئن ہو، نبیﷺ مہربان نے فرمایا "بدترین ولیمہ وہ ہے جس میں محروم اور مسکین کا حق نہ ہو"پاکستان میں ہر بجٹ بدترین ولیمہ ہی ہوتا ہے جس میں مزدور اور کسان کو کچھ نہیں ملتا۔
کوشش رہی کہ اسلامی جمعیت طلبہ کو یہ بات سمجھائی جائے پنجاب یونیورسٹی میں قبضہ کرنے کے بجائے آزاد فضا میں اسلامی دعوت کے ذریعہ اپنے اثر رسوخ کو بڑھایا جائے، جب سے طلبا یونین پر پابندی لگی ہے، طلبا نے اداروں پر قبضے کرنا شروع کر دیئے ہیں، جس کا قبضہ ہے وہ برقرار رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتا ہے جس سے خرابیاں پید ا ہوئی ہیں، دعوت کے کام میں مار کھانا پٹائی کرنے زیادہ مفید ہے۔
اپنی امارت کے دور میں انھوں نے بہت سے ادارں کی بنیاد رکھی، جو صدقہ جاریہ کے طور پر فعال ہیں، ان میں قابل ذکر الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان، غزالی ٹرسٹ، شہدائے اسلام فاؤنڈیشن، معار ف اسلامی ہیں، متحدہ مجلس اتحاد اور ملی یکجہتی کونسل کے قیام کا مقصد فرقہ واریت کی شدت کو کم کرنا اور مذہبی جماعتوں ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کرنا تھا، جس میں قاضی حسین احمد کو بڑی کا میابی ملی۔
قومی سیاست میں قاضی حسین احمد نے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں، باجوڑ میں مدرسہ پرامریکی ڈرون حملہ پر بطور احتجاج بحیثیت پارلیمنٹ ممبر مستعفی ہو گئے، ان پر خود کش حملہ بھی ہوا تاہم وہ محفوظ رہے، انھوں نے بنفس نفیس افغان جہاد میں حصہ لیا اور غازی کا رتبہ حاصل کیا، اللہ تعالیٰ انکی تمام تر کاوشوں کو شرف قبولیت عطا کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب کرے آمین۔