1989کی رات کا چاند اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا، بغداد الجدید ریلوے اسٹیشن بہاولپور کے گرد ریت سراب کا منظر پیش کررہی تھی، کالج میں جوائینگ کے بعد ریل کی پٹری پر بیٹھے ہم محو گفتگو تھے، زندان لاہور کو چھوڑنے کا تذکرہ، گھر سے دوری کا غم سگریٹ سے اٹھتا دھواں ماحول کو اداس کررہا تھا۔
راولپنڈی کے باسی نے کہا کہ آپ تو ویک اینڈ پر گھر بھی جا سکتے ہیں، یہ پہلا تعارف نیاز احمد سے تھا، جن کا تبادلہ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی لاہور سے جی سی ٹی بہاول پور ہوا تھا، سیلانی مزاج کے بہترین انسان لگے یہ ملاقات اچھی دوستی میں بدل گئی، ہم ہاسٹل میں اکھٹے رہتے، شام کو پیلیکان سینماء میں فلم بینی کرنا، شاہی بازار کے تکے کھانا اور بہاولپور اسٹیشن کی کڑک چائے پینا معمول ٹھہرا، چچا فیض مرحوم ریڈیو پر پرانے نغمے چلاتے، چائے کا دور چلتا، کیرم بورڈ کا کھیل دیر تک جاری رہتا ہاسٹل میں جب سکوت ہوتا تو ہم بھی سو جاتے، فرمان چوکیدار نیاز احمد ہاسٹل وارڈن حکم دیتے، کوئی طالب علم بغیر اجازت اندر نہ آئے۔
موصوف جی سی ٹی اٹک سے بطور پرنسپل ریٹائرڈ ہوئے، آبائی علاقہ گجرات سے تعلق رکھنے والے کولیگ محمد طارق خان ہنس مکھ تھے، سردی کی رات دونوں مکان پر جارہے تھے، ہاتھ میں مونگ پھلی تھی، طارق خان نے سگریٹ سلگایا ہوا تھا، میں نے غیر ارادی طور پر مونگ پھلی کھانا شروع کی، بولے سڑک پر چھلکے پھینکنا غیر اخلاقی بات ہے، میں کچھ شرمندہ ہوا اور مونگ پھلی جیب میں رکھ لی آخری کش لیتے ہوئے کہا، لاؤ مونگ پھلی، بھر پور قہقہ فضا میں بلند ہوا، گورنمنٹ سویڈش کالج گجرات سے یہ ریٹائرڈ ہوئے، نعیم مرزا، رانا ثناء اللہ ڈائیریکٹر سپورٹس اچھے دوست تھے، انجینئر جاوید افضل رومیٹ، سحری کے وقت بارش تھی، نعیم مرزا اور راقم دہی لینے نکلے، سلپ ہوتے ڈبہ چھوٹ گیا، ٹن ٹن کی موسیقی نے عجب ماحول پیدا کیا، دہی کے بغیر روزہ رکھنا پڑا۔
جامعہ بہاول پور لاء میں داخلہ لیا پروفیسر غلام رسول مہاروی، اشرف ناصر کولیگ تھے کلاس فیلو بن گئے اسی وساطت سے ضیاء الحق اعوان اچھے دوست بنے جو انگریزی کے استاد بھی تھے، ایس ای کالج سے ریٹائرڈ ہوئے۔
1994- 95 میں نیشنل انسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں زیر تربیت رہا، سفارتی صحافت سے وابستہ عنصر محمود بھٹی سے یاد اللہ بھائی کی وساطت سے ہوئی جو ان کے استاد تھے، جمعہ، ہفتہ کی چھٹی اخبارات کے دفتر، امریکن سنٹر، برٹش کونسل میں گذارتا۔ دسمبر1995 میں جی سی ٹی بہاول پور سے ملتان میں تبادلہ ہوا، کچھ مدت کے بعد اساتذہ کرام کی ایسوسی ایشن کے انتخابات تھے، ہم بھی میں کود پڑے، جنرل سیکرٹری کی نشست اپنے نام کی، ملتان ڈویژن اور پنجاب کی سطح کی ذمہ داری ادا کی، یونائیٹڈ ٹیچرز ایسویسی ایشن کے مرکزی قائد ین سید قوسین نقوی، پروفیسر ڈاکٹر عمران اشرف، پروفیسر محمد طارق ملک پروفیسر، عبدالحق، پروفیسر یوسف خالد، پروفیسر رخسانہ انجم نے چار درجاتی فارمولا کی منظوری اور اساتذہ کے حقوق کی جنگ لڑی، بطور صدر پروفیسر غلام شبیر سنگم کا گورنمنٹ کالجز آف ٹیکنالوجی پنجاب کے قریباً 300 سول سرونٹس اساتذہ کو ترقی دلوانے میں اہم رول ہے جبکہ اختر عباس بھروانہ سنیئر ڈائریکٹر جنرل ٹیوٹا نے کلیدی کردار ادا کیا۔
فنی تعلیمی بورڈ پنجاب کے زیر اہتمام ڈی اے ای سالانہ امتحانات منعقد تھے، پروفیسر محمد طارق ملک سیکرٹری، انجینئر اسد بٹ کنٹرولر امتحانات تھے، پرچے آوٹ ہورہے تھے، ان دونوں سے یاد اللہ تھی، راقم نے توجہ دلائی، حکم صادر ہوا کھوج لگائیں، اس پر خفیہ کام کیا۔
شام کو گیس پیپر کے نام پر پرچہ ملا، یہ کیمسٹری کا پرچہ تھا، صبح سنٹر کھلا تو حرف بہ حرف وہی پرچہ تھا، ریکی کی، دونوں کو مطلع کیا، رات ہم سی پی او آفس ملتان تھے، ریڈ کے نتیجہ پورا گینگ پکڑا گیا راقم کو بھی دھمکی آمیز کال آئیں، دونوں آفیسران نے مافیا کا صفایا کردیا۔
پرنسپل چوہدری ذوالفقار گجر کی معاونت اور انتہائی ایماندار ڈپٹی کنٹرولر امتحانات چوہدری خرم مراد کی کاوش سے عملی امتحانات کے معاوضہ جات کی اساتذہ کرام کو ادائیگی ممکن بنائی جو کئی سال سے درد سر تھی، جنرل سیکرٹری کے طور پر اصولی اختلاف کیا کبھی پرنسپلز کو بلیک میل کیا نہ ہی سرکاری حکم عدولی کی، انکی عزت اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھا، پرنسپلز انجینئر ظہور احمد خاں اور محمد بلال بپی جی سی ٹی ملتان نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اپنی پروموشن "فار گو" کر دی، نیاز بھٹی مرحوم کی تقرری بطور پرنسپل میرٹ سے ہٹ کر تھی، انھوں نے اس کی بھاری قیمت ادا کی، موجودہ سربراہ ادارہ انجینئر عبد الوسع کی رفاقت کم میسر آئی، البتہ چوہدری محمد حنیف جی سی ٹی بہاولپور دبنگ پرنسپل سمجھے جاتے، سابق ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر چوہدری زاہد سلیم، چوہدری محمد رمضان مرحوم کی پروفیسر نسیم قریشی کے ساتھ راجہ جی کی ڈسپنسری میں اٹکھیلیاں اب بھی ذہن میں محفوظ ہیں۔ محمد مالک گجر، پروفیسر محمد امین، پروفیسر مامون رشید، ہمایوں مرزا، انجینئر خالد محمود بہاولپور جبکہ ملتان سے انجینئراعجاز بھٹی، حق نواز، مثتاق طاہر، محمد ارشد تیجاکی دوران ملازمت وفات کا بہت دکھ ہوا۔
راقم نے تدریس کے علاوہ بطور انفارمیشن آفیسر، تعمیر کردار سوسائٹی کے انچارج، ڈینگی کے فوکل پرسن، کالج میگزین "صناع" کے چیف ایڈیٹر، ادبی پروگرامات کے سربراہ، مقامی اور صوبائی اداروں اور کالج کے مابین ایکسٹرنل کوارڈینیٹر۔ ویمن یونیورسٹی ملتان کے ٹیکنیکل ممبر کے طور بھی خدمات انجام دیں۔
ٹیوٹا کو فنی تعلیم کی ترقی کا انڈیا ماڈل اپنانا چاہئے، جہاں بی اورایم ٹیک کے علاوہ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کروائی جاتی ہے، مقام افسوس ہے کہ کالجز آف ٹیکنالوجز پنجاب میں چھ ماہ کے شارٹ کورسز پر فوکس ہے، ٹیوٹا کوعالمی اداروں سے ملنے والی امداد اور اصلاحات کا میزانیہ بنایا جائے تو سوالات جنم لیں گے، سابقہ چیرمین جو خواتین کے لئے نرم گوشہ رکھتے انھوں نے بعض کا لجز میں بلا مقصد ٹیلی پرزنس لیب قائم کرکے بھاری بھر قومی سرمایہ ضائع کیا۔
موجودہ چیرمین ٹیوٹا بریگیڈیئر(ر) محمد ساجد کھوکھر بہت ویژنری ہیں، انھوں سائینو پاک پروگرام کے تحت طلباء کی چین میں عملی تربیت کے نئے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ انجینئر ندیم جاوید صدر شعبہ مکینیکل نے اچھے دوست کی حیثیت سے ہائی ٹی کا اہتمام، جبکہ انجینئر رانا بشیراحمد، چوہدری وقار مان، جمشید خاں، چوہدری جاوید، محمد نعیم مغل، محمد اعظم، راشد ریاض سانگی، صومان شاہد نے ریٹائرڈمنٹ کے حوالہ سے لنچ دیا، چوہدری اسلم حنیف سنگھیڑا سیکرٹری اور ممبران یو ٹی اے اور تمام اساتذہ کرام شعبہ مکینیکل نے بھی جس وقار سے الوداع کیا، جہانیاں کالج کے اساتذہ نے اس موقع پر تحائف دیئے بندہ ان سب کا ممنون ہے۔
راقم کی 36 سالہ تدریسی خدمات کا اختتام 20 مارچ 2025 کو ہوا، جڑواں بھائی پروفیسر ڈاکٹر جاوید اصغر بھی اسی روز ایسوسی ایٹ ڈگری کالج جہانیاں سے ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے، ہم شکل ہونے کی خفت مجھے اُس وقت اٹھانا پڑی جب جامعہ بہاولپور میں ایک تنظیم کے طلباء نے مجھے ہاسٹل میں بند کردیا، برادر محترم جامعہ ذکریا میں ان دنوں اسلامی جمعیت طلباء کے ایگزیکٹو باڈی کے ممبر تھے، انھیں بتایا کہ جی سی ٹی بہاولپور میں تدریس کے فرائض انجام دیتا ہوں تو بندہ کی خلاصی ہوئی، بعد ازاں راقم اسی جامعہ میں شعبہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی میں زیر تعلیم بھی رہا۔ ریٹائرڈمنٹ پر اسلم انصاری مرحوم کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں